محمد قاسم:
پشاور سمیت صوبہ بھر میں ہوائی فائرنگ کا رواج ختم نہ ہو سکا۔ جس سے قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع معمول بن گیا۔ ماہ دسمبر شروع ہوتے ہی صوبہ بھر میں شادی بیاہ اور دیگر خوشی کی تقریبات کا آغاز ہو چکا ہے جس میں کھلے عام اسلحہ کی نمائش اور ہوائی فائرنگ معمول ہے۔
پچھلے ہفتے پشاور شہر سمیت مضافاتی علاقوں اور دیہات میں شادیوں کی تقریبات کے موقع پر علاقہ فائرنگ کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ جس نے جہاں لوگوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا۔ وہیں لڑائی جھگڑے کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ جبکہ اسلحہ کی نمائش اور فائرنگ جیسے واقعات میں نوجوان زیادہ دلچسپی رکھ رہے ہیں اور بات اب پستول اور بندوق سے آگے نکل کر کلاشنکوف تک جا پہنچی ہے۔
اس حوالے سے پشاور کی سماجی شخصیات حاجی اورنگزیب، رفاقت اللہ اور ملک ریاض نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پولیس کی جانب سے صرف نئے سال کی آمد اور عیدالفطر کے موقع پر ہوائی فائرنگ کی روک تھام کیلئے مہم چلائی جانا کافی نہیں۔ اب چونکہ شادیوں کا سیزن ہے۔ اس لئے اس میں بھی مہم چلائی جائے۔ شادی ہالز کے باہر باقاعدہ بینرز آویزاں ہیں کہ ہوائی فائرنگ منع ہے۔ لیکن جو شادیاں حجروں اور دیہات و مضافاتی علاقوں میں ہو رہی ہیں۔ وہاں کی پولیس ہمیشہ منظر سے غائب رہتی ہے اور کھلا علاقہ ہونے کی وجہ سے انسانی جانوں کے ضیاع کا خدشہ ہر وقت رہتا ہے۔ لہذا جو لوگ قانون ہاتھ میں لے رہے ہیں۔ ان کے خلاف بلا تفریق کارروائیاں ہونی چاہئیں۔
آج کل نوجوانوں کے ہاتھوں میں بھی بندوق اور پستول آچکے ہیں جو اچھی بات نہیں اور اس کا تدارک ضروری ہے۔ پولیس حکام کے مطابق غیر قانونی اسلحہ رکھنے والوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں اور جہاں سے بھی ہوائی فائرنگ کی شکایات موصول ہوتی ہیں۔ پولیس کارروائی کیلئے پہنچ جاتی ہے۔ عوام کی جانوں کا تحفظ پولیس کی اولین ذمہ داری ہے۔ تاہم شہری بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔ ادھر سی سی پی او پشاور کے مطابق ضلع میں غیر قانونی اسلحہ کیخلاف مہم کے دوران لاکھوں مالیت کے ہتھیار برآمد کیے گئے ہیں۔
پولیس نے شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں اسلحہ کی نمائش کرنے والے با اثر افراد کے خلاف بھی گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر اسلحہ کی نمائش کرنے والے بھی گرفتار کیے گئے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے کے دوران متعدد ایسے افراد کو گرفتار کیا گیا۔ جنہوں نے شادی بیاہ کی تقریبات کے موقع پر ہوائی فائرنگ کی۔
پولیس نے موقع پر پہنچ کر انہیں حراست میں لیا۔ تاہم خاص کر مضافاتی علاقوں اور دیہات میں ہوائی فائرنگ کی روک تھام پولیس کیلئے چیلنج ہے۔ کیونکہ دور دراز علاقوں کی وجہ سے پولیس کا بروقت ایک جگہ پر کارروائی کیلئے پہنچنا آسان نہیں۔ اس لئے وہاں مزید پولیس تھانوں، چوکیوں اور نفری کی ضرورت ہے۔ تاکہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف بھی کارروائیوں میں تیزی لائی جا سکے اور امن و امان کی صورتحال بہتر ہو۔
ذرائع کے مطابق گزشتہ ہفتے مختلف تقریبات کے موقع پر مضافاتی علاقے اور دیہات علاقہ غیر کا منظر پیش کر رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کسی جنگ زدہ علاقے میں لوگ رہائش پذیر ہوں۔ وقفے وقفے سے اتنی شدید آوازیں فائرنگ کی آرہی تھیں کہ لوگ خوف کے مارے گھروں سے باہر نہیں نکلے۔