امریکا کا پاکستان پر اعتماد بحال،جدید فضائی دفاعی ٹیکنالوجی کی فراہمی کا عندیہ

امریکا نے پاکستان کو جدید میزائل پروگرام میں شامل کرلیا، ایف-16 طیاروں کی اپ گریڈیشن کی راہ ہموار

واشنگٹن/اسلام آباد: امریکا نے پاکستان کو اپنے جدید ترین فضائی دفاعی میزائل پروگرام میں شامل کر لیا ہے، جس کے بعد پاکستان کے ایف-16 طیاروں کی اپ گریڈیشن کے نئے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔

امریکی محکمۂ جنگ (Department of Defense) نے 6 اکتوبر کو جاری کردہ ایک خاموش اپ ڈیٹ میں پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جو ریتھیون (Raytheon) کمپنی کے جدید فضائی میزائل AIM-120C8/D3 خرید رہے ہیں۔

یہ فیصلہ 41.68 ملین ڈالر کے ایک اضافی معاہدے کے تحت کیا گیا ہے، جو پہلے سے موجود 2.51 ارب ڈالر کے عالمی دفاعی منصوبے کا حصہ ہے۔ اس معاہدے میں جاپان، برطانیہ، جرمنی، اسرائیل، ترکیہ، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، سعودی عرب، قطر اور پاکستان جیسے ممالک شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق، ابھی یہ واضح نہیں کہ پاکستان کو کتنے نئے میزائل فراہم کیے جائیں گے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام پاکستان کے ایف-16 بیڑے کی جدید کاری (modernization) کی سمت ایک اہم قدم ہے۔

پاکستان نے 2006–2007 میں “پیس ڈرائیو پروگرام” کے تحت امریکا سے ایف-16 طیارے حاصل کیے تھے، جن کے ساتھ 500 AIM-120C5 میزائل بھی فراہم کیے گئے تھے۔ اب شامل کیا جانے والا AIM-120C8 میزائل دراصل AIM-120D کا برآمدی ورژن ہے، جو اس وقت امریکی فضائیہ کا سب سے جدید ایئر ٹو ایئر میزائل سمجھا جاتا ہے۔

ریتھیون کمپنی نے اس میزائل کی آزمائش 2023 میں مکمل کی تھی اور اسے امریکا کے متعدد اتحادی ممالک کے لیے آرڈر کیا جا چکا ہے۔

دفاعی ماہرین کے مطابق، یہ ممکنہ طور پر ابتدائی مرحلہ ہے جو تربیتی اور انتظامی تیاریوں پر مشتمل ہوگا، لیکن اس پیش رفت سے یہ عندیہ ضرور ملتا ہے کہ امریکا اور پاکستان کے درمیان دفاعی تعاون دوبارہ متحرک ہو رہا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جولائی 2025 میں پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کی واشنگٹن میں امریکی محکمۂ خارجہ سے ملاقات اسی سمت میں ایک اہم پیش رفت ثابت ہوئی تھی۔

امریکی محکمۂ جنگ کے مطابق، یہ منصوبہ دراصل 41.6 ارب ڈالر کے عالمی پروگرام کا حصہ ہے، جس کے تحت 30 سے زائد اتحادی ممالک کو یہ جدید میزائل فراہم کیے جائیں گے تاکہ نیٹو اور انڈو پیسیفک خطے میں فضائی دفاعی تعاون کو مضبوط کیا جا سکے۔

یہ معاہدہ 2030 تک مکمل کیا جائے گا اور اس دوران میزائلوں کی تیاری و ترسیل جاری رہے گی۔

امریکی دفاعی حکام کے مطابق، یہ اقدام عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی کشیدگیوں—خصوصاً روس، چین اور مشرقی یورپ کی صورتحال—کے تناظر میں کیا گیا ہے تاکہ امریکا اور اس کے اتحادی تکنیکی برتری برقرار رکھ سکیں۔