سیاسی دکھڑے

0

شیراز چوہدری
پنجابی کی کہاوت ہے ’’روندی یاراں نوں لے کے ناں بھرواں دا‘‘۔ یعنی اصل میں غم تو یار کا ہے، لیکن نام بھائیوں کا لے کر رو رہی ہے۔ یہ کہاوت ایسے مواقع کے لئے ہے، جب آپ کا اصل دکھڑا ایسا ہو کہ جسے آپ سامنے نہ لاسکتے ہوں، کیوں کہ اس سے آپ کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن دکھ ایسا ہے کہ اس کے اظہار کے بغیر بھی نہیں رہ سکتے، لہٰذا اسے کسی اور کا نام لے کر بیان کر دیا جائے تاکہ ایک طرف لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکے اور دوسری جانب جنہیں پیغام پہنچانا ہو، ان تک پیغام بھی پہنچ جائے، پیپلز پارٹی کے رہنما آج کل جس طرح جوش خطابت کا اچانک مظاہرہ کرنے لگے ہیں، اس میں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی لگتا ہے، ان کا دکھ تو اصل میں یہ ہے کہ ان کی قیادت جعلی اکاوئنٹس کے اسکینڈل میں پھنس چکی ہے، ویسے تو پی پی پی کے قائد آصف زرداری نے اپنے بارے میں یہ تاثر قائم کر رکھا ہے کہ ان سے بڑا کوئی کھلاڑی نہیں، ان کے اس تاثر پر اپوزیشن کی جماعتیں اور میڈیا کا حصہ بھی ایمان لاتا ہے، لیکن جس طرح جعلی اکاوئنٹس کا اسکینڈل سامنے آیا ہے، اس میں اپنے خلاف دستاویزی شواہد چھوڑے گئے ہیں، وہ دیکھ کر تو تاثر نظر کا دھوکہ ہی لگتا ہے، بلکہ ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو پہلے بھی پی پی پی قیادت کے خلاف جو اسکینڈل بنتے رہے ہیں، ان میں وہ پھنستی رہی ہے، سرے محل تو جان کو اٹک گیا تھا، یہ تو ہمارا قانونی نظام ہی ایسا ہے کہ اس میں ہر بڑا بندہ آسانی سے نکل جاتا ہے اور اگر کہیں رکاوٹ آجائے تو پرویز مشرف جیسے حکمران این آر او جیسے کالے قانون لا کر اسے دور کر دیتے ہیں۔ پی پی پی قیادت نے سب پر بھاری ہونے کا جو تاثر اور نعرہ دیا ہوا ہے، اس میں جان ہے یا نہیں، یہ حقیقت ہے کہ عوام میں پی پی پی کے بارے میں تاثر یہی ہے کہ یہ اسکینڈل میں لپٹی میں ہوئی جماعت ہے، اسے جب بھی موقع ملا، اس نے نئے اسکینڈلز کے لئے ہی اسے استعمال کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی بننے اور اس میں آئی ایس آئی کے ایک افسر کی شمولیت سے قبل پی پی پی قیادت پھر بھی کچھ مطمئن تھی، اسے اطمینان تھا کہ ایف آئی اے کے افسران کو وہ کسی نہ کسی طرح قابو کر ہی لیں گے، ویسے بھی تفتیش سندھ میں ہو رہی تھی، جہاں ان کی اپنی حکومت ہے، جہاں چیف جسٹس کے چھاپے کے باوجود شراب کو شہد میں بدلا جاسکتا ہے، وہاں اور بھی بہت کچھ بدلنا ممکن ہوگا، نئی آنے والی پی ٹی آئی حکومت ن لیگ کی طرح پی پی پی کیلئے فرینڈلی نہ بھی ہو، تب بھی پارلیمنٹ اور میڈیا پر اس کے خلاف شور شرابا کرکے کچھ دبائو پیدا کرلیا جائے گا، لیکن آئی ایس آئی کے اعلیٰ افسر کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں شمولیت کے بعد پی پی پی کو اپنے لئے سیاسی اندھیرے نظر آنے لگے ہیں، اس لئے ایک بار پھر سندھ اور بھٹو کارڈ استعمال کرنے کی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی جب یہ کارڈ باہر نکالے، سمجھ جائیں کہ وہ کسی بڑی مشکل میں ہے۔
جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے بنائی ہے، تحقیقات میں آئی ایس آئی کے افسر کو شامل کیا گیا ہے، اب پیپلز پارٹی ان دو اداروں کے خلاف تو زیادہ بولنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، کیوں کہ وہ جنرل راحیل شریف کے دور میں اس طرح کی غلطی کا نتیجہ بھگت چکی ہے اور یہ بھی جانتی ہے کہ مزید ایسی غلطی کی گنجائش نہیں ہے، لہٰذا اس نے لسانی کارڈ کھیلنا شروع کردیا ہے، یہ جو سندھ اسمبلی میںپی پی پی کے رکن سہیل انور سیال نے تقریر کی ہے، بلاول بھٹو کو جو ایک ماہ میں ہی پی ٹی آئی حکومت ناکام نظر آنے لگی ہے، دیگر رہنما جو بھٹو اور سندھ کارڈ استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ان سب کے پیچھے اصل معاملہ جعلی اکاوئنٹس کیس ہی ہے، جس کا ظاہر ہے نام نہیں لیا جاسکتا، اس لئے بات گھما پھرا کر کی جا رہی ہے، تاکہ لوگ سمجھ نہ سکیں اور جنہیں پیغام دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان تک پیغام بھی پہنچ جائے۔ سندھ کارڈ استعمال کر کرکے پی پی پی تین صوبوں میں خرچ ہو چکی ہے، اب اس کے پاس سندھ ہی رہ گیا ہے، لیکن کیا کیا جائے کہ مشکل ہی ایسی ہے کہ بچائو کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا، اس لئے ایک بار پھر اس کارڈ کو استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اگرچہ اس بار آگے سے یہ آواز آنے کا امکان زیادہ ہے کہ آپ اپنا بیلنس استعمال کر چکے ہیں ، لہٰذا کال نہیں ملائی جاسکتی۔
پوری دنیا میں کسی رہنما پر کوئی الزام بھی لگ جائے تو وہ منظر عام پر آنے سے کتراتا ہے، کنارہ پکڑ لیتا ہے، عہدے چھوڑ دیتا ہے، لیکن یہ کمال ہمارے جمہوری نظام کا ہے کہ یہاں سیاسی رہنما بڑے فخر سے یہ بیان کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کی قیادت نے اتنے برس جیل کاٹی تھی، جیسے وہ کرپشن الزامات پر نہیں، عوامی حقوق کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے جیل میں رہے ہوں، سندھ اسمبلی میں جس طرح پیپلز پارٹی کی قیادت کے ایک قریبی رکن نے لسانی کارڈ استعمال کیا، اسے دیکھ کر کچھ لوگوں کو حیرانی بھی ہوئی، کیوں کہ ابھی دو تین ماہ قبل الیکشن سے پہلے تو پیپلز پارٹی کراچی میں اپنی سیاسی فتح کے جھنڈے گاڑنے کے دعوے کر رہی تھی، کراچی کے اردو بولنے والوں کو اپنے ساتھ ملانے کی باتیں کر رہی تھی، لیکن صرف ایک اسکینڈل سے بچنے کی کوشش میں اس نے لسانی کارڈ نکال لیا۔ اس سے لگتا ہے کہ پی پی پی کو یہ یقین ہے کہ وہ تین صوبوں ہی نہیں بلکہ سندھ کے شہری علاقوں سے بھی مستقل فارغ ہوچکی ہے۔
پی پی پی کے بعض رہنما جمہوریت کی بڑی پگ پہننے کی کوشش کرتے ہیں، ان میں رضا ربانی سرفہرست ہیں، جو اپنے آپ کو اصولوں کا پیکر بھی ظاہر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، لیکن افسوس کہ ان کی جمہوریت اور اصول پرستی صرف پارٹی مقاصد کے لئے ہوتی ہے، سندھ اسمبلی میں جس طرح لسانیت کا مظاہرہ کیا گیا، جس طرح آئین کی خلاف ورزی کی گئی، اس پر ان کی اصول پرستی نہیں جاگی، اسی طرح سینیٹ میں ہارس ٹریڈنگ کا اعتراف بھی ان کی ’’جمہوریت پسندی‘‘ کو بیدار نہیں کرسکا، لیکن اگر یہی کام کسی ایسی جماعت کے رکن نے کیا ہوتا جو پی پی پی کی مخالف ہے، تو پھر رضا ربانی اب تک آئین اور جمہوریت پسندی کے کئی لیکچر دے چکے ہوتے۔ لیکن کیا کیا جائے جناب آخر سینیٹ کی نشست بھی بچانی ہوتی ہے۔ اس لئے یہ جمہوریت پسندی اور اصول پرستی صرف دوسروں کے لئے ہے، اس کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا، جن کے ووٹوں کے وہ خود محتاج ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More