مسعود ابدالی
شام کے تنازعے میں ترکی کو مرکزی مقام حاصل ہوتا جا رہا ہے، جبکہ درشت لہجے اور بد اخلاقی کی حد تک بے دھڑک گفتگو کی وجہ سے یورپی اتحادی امریکی صدر سے کنارہ کشی اختیار کر رہے ہیں۔ ستمبر میں جب روس، ایران اور شامی فوج نے شام کے شہر ادلب پر ایک خوفناک حملے کی تیاری مکمل کرلی تھی اور شہر کی تباہی چند دنوں کی بات لگتی تھی، تب صدر اردگان نے ایران اور روس سے کامیاب مذاکرات کے ذریعے نہ صرف یہ حملہ ٹال دیا، بلکہ اب یہ شہر انتہائی پرامن ہے۔ شہری علاقوں سے شامی فوج سمیت تمام متحارب فریقوں نے مسلح دستے نکال لئے ہیں اور شہر کے باہر ایک غیر عسکری علاقہ قائم کردیا گیا، جہاں ترکی اور روس کا مشترکہ پہرہ ہے۔ تباہ حال شہر کی تعمیر نو کیلئے روس اور ترکی نے مشترکہ کوششیں شروع کردی ہیں، جبکہ ترکی کی سماجی انجمنیں زخمیوں کے علاج معالجے اور غذا و دوا کی تقسیم میں مصروف ہیں۔ 10 برس کے بعد اب ادلب میں اسکول کھل گئے ہیں۔
ترک صدر کے مدبرانہ اقدامات کو یورپ میں بھی سراہا گیا اور یورپی یونین نے شام میں امن کے قیام کیلئے ترکی سے براہ راست بات شروع کر رکھی ہے۔ اکتوبر کے اختتام پر استنبول میں ترکی، روس، فرانس اور جرمنی کی چوٹی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں امریکہ کو مدعو نہیں کیا گیا۔ یورپ کے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ روسی صدر پیوٹن اپنے امریکی ہم منصب کو بھی ان اہم مذاکرات میں بلانا چاہتے تھے، لیکن فرانسیسی صدر اور جرمن چانسلر انجیلا مرکل دونوں نے صدر ٹرمپ کو مدعو کرنے کی مخالفت کی۔ ان رہنمائوں کا خیال تھا کہ شام کا معاملہ بے حد حساس ہے اور صدر ٹرمپ کی غیر ذمہ دارانہ بیان بازی کشیدگی میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ کانفرنس کے دوران شام میں ترکی کے کردار کی سب نے تعریف کی اور مشترکہ اعلامئے میں بڑی صراحت سے کہا گہا کہ ’’ترکی ادلب میں اپنی ذمہ داریاں بہت خوبی سے ادا کر رہا ہے۔‘‘
صدر ٹرمپ کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ انہیں شام کے معاملے سے الگ تھلگ رکھا جا رہا ہے۔ چنانچہ اب وہ بھی ترک صدر کی طرف شاخِ زیتون لہرا رہے ہیں۔ ترک صدر کے بارے میں تلخ و تند بیان بازی کرنے والے ٹرمپ کو اب اردگان ایک قابل اعتماد اتحادی لگنے لگے ہیں۔ گزشتہ دنوں اپنی ایک تقریر میں انہوں نے کہا کہ وہ شام کے مسئلے پر ترکی کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔
گزشتہ دنوں جنگ عظیم کے اختتام کی سو سالہ تقریب میں شرکت کیلئے پیرس جاتے ہوئے انہوں نے وہاں صدر اردگان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ترکی شام میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ قیام امن کیلئے ترک اقدامات کی یورپی یونین اور روس بھی حمایت کریں۔ اب تک امریکی صدر کی جانب سے پیرس میں ملاقات کی خواہش پر صدر ایردوان کا ردعمل سامنے نہیں آیا، لیکن خیال ہے کہ ملاقات کے دوران کسی بھی تعاون سے پہلے ترک صدر کردش دہشت گرد YPG ملیشیا کو غیر مسلح کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ داعش کے خلاف جنگ کے نام پر امریکہ اور مغربی ممالک YPG کو اسلحہ دے رہے ہیں اور انقرہ کا خیال ہے کہ یہ اسلحہ ترکی میں دہشت گردی کیلئے استعمال ہوگا۔ ترک سرحد سے متصل شامی شہر عفرین میں امریکہ کی جانب سے برے انجام کی دھمکیوں کے باوجود ترک فوج براہ راست کارروائی کرکے وہاں سے YPG کے گوریلوں کو شہر کی حدود سے پیچھے دھکیل چکی ہے اور اب سارے علاقے میں ترک فوج نے اپنی چوکیاں قائم کر دی ہیں۔ دوسری طرف سیاسی و سفارتی سطح پر بھی ترکوں کی پیش قدمی بہت واضح ہے، جس کی بنا پر صدر ٹرمپ کیلئے اردگان کی بات مان لینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔
بنگلہ دیش: قومی یکجہتی اتحاد کا قیام:
بنگلہ دیش میں انتخابات کا اعلان ہوتے ہی جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) کے 20 جماعتی اتحاد نے ہندوستان مخالف جماعتوں کو ساتھ ملا کر قومی یکجہتی اتحاد قائم کرلیا۔ ’’جاتیو اوکو فرنٹ‘‘ کی ہیئت دیکھ کر ہمیں 1977ء کا پاکستان قومی اتحاد یاد آگیا۔ حسینہ واجد کو توقع تھی کہ گزشتہ عام انتخابات کی طرح اس بار بھی حزب اختلاف انتخابات کا بائیکاٹ کردے گی۔ جماعت اسلامی کی صف اول کی قیادت اور BNP کے بہت سے سینئر کارکن تختہ دار پر چڑھائے جا چکے ہیں۔ خالدہ ضیا اور امیر جماعت اسلامی سمیت دونوں جماعتوں کے رہنما جیلوں میں ہیں۔ لیکن انتخابات کا اعلان ہوتے ہی بعد نماز جمعہ راجشاہی کے مدرسہ میدان میں جاتیہ اوکو فرنٹ کی تاسیس کا پرعزم اعلان کردیا گیا۔ اس اجلاس میں آزادانہ و غیر جانبدارانہ انتخابات کیلئے مطالبات کی ایک 7 نکاتی فہرست پیش کر دی جس میں وزیراعظم حسینہ واجد اور ان کی کابینہ کا استعفیٰ، انتخابات کیلئے نگراں عبوری حکومت کا قیام، پارلیمان کی تحلیل، غیرجانبدار الیکشن کمیشن کا قیام، تمام سیاسی کارکنوں کی رہائی، پولنگ اسٹیشنوں پر فوج کی تعیناتی، ووٹنگ کیلئے الیکٹرانک مشینوں (EVMS)کے بجائے کاغذی پرچہ انتخابات اور روایتی مہر کے استعمال پر زور دیا گیا ہے۔
جماعت اسلامی چونکہ غیر قانونی ہے، اس لئے جماعتی امیدوار BNP کے ٹکٹ پر انتخاب لڑیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر 7 نکاتی مطالبات منظور نہ ہوئے تو کیا پھر بھی جاتیہ اوکو فرنٹ انتخابات میں حصہ لے گا۔ اس کا ایک مبہم سا جواب تاسیسی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے BNP کے معتمد عام مرزا قمر الزماں نے دیا۔ مرزا صاحب کا کہنا تھا کہ انتخابی مہم آمریت کے سناٹے میں نعرہ آزادی بلند کرنے اور جبر کے ساکت تالاب میں تنقید کی کنکریوں سے ارتعاش پیدا کرنے کا ایک موقع ہے۔ فرنٹ غیر ملکی تسلط سے آزادی کیلئے بنگلہ دیشی عوام کی امنگوں کا ترجمان ہے۔
دیوار سے لگی جماعت اسلامی کیلئے یہ قومی دھارے میں شامل ہونے کا نادر موقع ہے۔ عقوبت و جبر کے ماحول میں جاتیو اوکو فرنٹ کی انتخابی مہم صرف اسلامی چھاترو شبر کے جیالے ہی چلا سکتے ہیں اور اس بات کا حکومت مخالف سیکولر، کمیونسٹ اور قوم پرستوں کو اچھی طرح اندازہ ہے۔ گزشتہ کئی سال سے جماعت اور شبر کے کارکن جس پامردی سے بدترین تشدد کا سامنا کر رہے ہیں، اس سے ہر باضمیر آدمی متاثر ہے اور بدترین مخالف بھی جماعت کی ثابت قدمی کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ جیلوں میں ہندوستانی را (RAW) کے تربیت یافتہ اہلکار تعینات ہیں، جنہوں نے تشدد کے نت نئے طریقے وضع کئے ہیں۔ ناخن کھینچنے، بجلی کے جھٹکے، تیزاب کا چھڑکائو، جسم پر شہد مل کر چیونٹیاں چھوڑنا جیسے روایتی طریقوں کے ساتھ اب پیروں کے ٹخنوں سے گٹھنوں تک کا گوشت اتارنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا ہے۔ جسے غالباً TENDON کہا جاتا ہے۔ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہTENDON ہی پٹھوں کو وہ قوت فراہم کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ہڈیاں جسم کا وزن سہار تی ہیں۔ یعنی یہ جوانانِ رعنا اب چلنے پھرنے سے محروم ہو گئے۔ اس بدترین تشدد کے باوجود جماعت اسلامی ایک دن کیلئے بھی عملی طور پر معطل نہیں ہوئی اور ان حالات میں ان کے جماعتی انتخابات بھی باقاعدگی سے ہو رہے ہیں۔
جاتیو اوکو فرنٹ نے منگل سے انتخابی مہم کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔ اس کا پہلا جلسہ ڈھاکہ پھر سلہٹ اور چاٹگام میں ہوگا، جس کے بعد ملک گیر جلوس کا پروگرام ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان انتخابات میں فرنٹ کا کامیابی مشکوک ہے، بلکہ اس بات کا پورا امکان ہے کہ فرنٹ کو زبردستی میدان سے باہر کر دیا جائے، لیکن فرنٹ کی تشکیل کے ساتھ ہی ملک کے طول و عرض میں ہندوستان کے خلاف نفرت کی جو لہر اٹھی ہے، اسے دبانا اب کسی کے بس کی بات نہیں کہ فوج اور قانوں نافذ کرنے والے اداروں میں پھیلی بے چینی بھی بڑی واضح ہے۔
Next Post