یوٹرن، حیراں ہوں عقل کو روئوں

0

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جو لیڈر حالات کے مطابق ’’یوٹرن‘‘ نہ لے، وہ رہنما نہیں، بے وقوف ہوتا ہے۔ ہٹلر اور نپولین نے یوٹرن نہ لے کر بڑی شکست کھائی۔ احمق اپنی بات پر ڈٹ جاتا ہے، جبکہ عقل مند انسان یوٹرن لیتا ہے۔ نواز شریف نے عدالتوں میں یوٹرن نہیں لیا، بلکہ جھوٹ بولا۔ عمران خان کے مطابق کسی قوم کا حقیقی لیڈر وہی ہوتا ہے جو حالات اور ضروریات کے مطابق ہمیشہ یوٹرن لیتا رہے اور اپنی حکمت عملی تبدیل کرتا رہے۔ انہوں نے اپنی عقل و دانش کے مطابق یہ باتیں اسلام آباد کے وزیر اعظم ہائوس میں سینئر صحافیوں سے ملاقات کے دوران کہیں۔ یاد رہے کہ عمران خان کو حزب اختلاف کے رہنمائوں اور عوام کی جانب سے اسی بات پر سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے کہ وہ کوئی بات کہہ کر بہت جلد یوٹرن لیتے ہیں اور پھر اس کے بالکل برعکس بات کر کے اسے درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی بنا پر انہیں ’’یوٹرن ماسٹر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اپنی اس پالیسی پر کسی خفت و ندامت کے بجائے اب انہوں نے تبدیلی کے اپنے اس نعرے کا مفہوم واضح کر دیا ہے، جو وہ ایک مدت سے لگا رہے ہیں۔ اپنی باتوں اور وعدوں سے پھر جانا یوں تو پاکستان کے اکثر سیاستدانوں کا معمول ہے، لیکن عمران خان نے اسے کامیاب رہنمائی کا گر قرار دے کر سیاسی نظریئے میں جس تبدیلی کی بنیاد ڈالنے کی کوشش کی ہے، وہ اگر عام ہو جائے تو اخلاق و کردار کا معیار کیا رہ جائے گا؟ سیاست میں قلابازی کھانے کو کبھی پسندیدہ قرار نہیں دیا گیا۔ اپنی بات سے پھر جانے اور کہہ مکرنی کو ہمیشہ ایک عیب سمجھا گیا، لیکن عمران خان کے فلسفے کے مطابق کسی قوم کا حقیقی رہنما وہی ہوتا ہے جو حالات اور ضروریات کے مطابق ہمیشہ یوٹرن لیتا اور حکمت عملی تبدیل کرتا رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ صحافیوں کے ایک وفد سے گفتگو کے دوران کہیں، جبکہ یوٹرن کے خلاف صحافی ہی ہمیشہ اور سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔ ان کے نزدیک قلابازی کھانا انسان سے زیادہ بندر کی ایک قسم لنگور سے منسوب ہے، جو ایک درخت سے دوسرے درخت کی جانب چھلانگ لگاتے ہوئے آدھے راستے سے پلٹ آنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اب قلابازی کی اس صفت کو کامیاب رہنما کا اصول قرار دیا ہے تو اہل وطن کو ان کی تبدیلی کا اصل مفہوم سمجھ میں آگیا ہے۔ وہ بڑی حیرت سے منتظر ہیں کہ پانچ برسوں میں ان کی اس حکمت کے کیا کیا نتائج سامنے آئیں گے۔ یہ تو شاید ممکن نہیں کہ وزیراعظم عمران خان اچانک کوئی بڑا یوٹرن لے کر کسی روز اعلان کر دیں کہ میں اپنی بات پر ڈٹ جانے والا احمق نہیں، بلکہ نہایت عقل مند انسان کی حیثیت سے اعلان کرتا ہوں کہ اقتدار میں آنا میرے اپنے، پارٹی اور ملک و قوم کے لیے مفید نہیں تھا۔ اس لیے میں واپس اپنے ماضی کی جانب لوٹ رہا ہوں۔ تاہم ایسا ہو جائے تو یوٹرن کے اس سفر میں ان کی سابقہ بیویوں اور بچوں کا بھی بھلا ہو سکتا ہے اور عوام کو بھی کوئی مستقل مزاج رہنما میسر آسکتا ہے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کے لیے عمران خان کا یہ تبصرہ نہایت مضحکہ خیز ہے کہ انہوں نے عدالت میں یوٹرن نہیں لیا، بلکہ جھوٹ بولا۔ گویا ان کے نزدیک یوٹرن لینا سچ بولنے کے مترادف ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ وہ خود اور ان کے نفس ناطقہ فواد چوہدری سمیت تحریک انصاف کے دیگر رہنما یوٹرن لے کر عمران خان کے اس بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کا الزام لگا کر واپس لے لیں۔ یوٹرن اور سچ کو مترادف قرار دینے کے بعد موجودہ حکومت کی آئندہ حکمت عملی اور پالیسیوں میں کہیں ٹھہرائو اور استحکام نظر آئے گا؟ عدالتوں میں اپنے بیان سے پھر جانے والے کسی ملزم کو توہین عدالت کا مجرم قرار دیا جا سکتا ہے؟ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح قول کے سچے ہونے کی عالمگیر شہرت رکھتے تھے۔ ان کا فرمان ہے کہ کوئی فیصلہ کرنے سے قبل سو مرتبہ سوچ لو، لیکن جب ایک فیصلہ کرلو تو اس پر ایک صاحب کردار انسان کی طرح ڈٹ جائو۔ سیاست میں عام طور پر کوئی رہنما اس وقت یوٹرن لیتا ہے جب اس کے کسی غلط فیصلے پر شدید عوامی ردعمل سامنے آتا ہے۔ لیکن یوٹرن کو اپنی حکمت عملی اور ہر پالیسی کا جز قرار دے کر اسے عقل مندی تصور کرنے کو وزیراعظم عمران خان ہی کی عقل و فہم کا شاہکار قرار دیا جا سکتا ہے۔ انبیائے کرامؑ کی تعلیمات، بالخصوص آخری نبی حضرت محمدؐ نے بنی نوع انسان کو صراط مستقیم (سیدھے راستے) پر چلنے کی ہدایت فرمائی ہے اور ہر مسلمان اپنی نمازوں میں اپنے رب سے اس راستے پر قائم رہنے کی دعا مانگتا ہے۔ اس تناظر میں مدینہ کی فلاحی ریاست کو نمونہ قرار دینے والے عمران خان کے مذکورہ بیان پر اہل علم کو توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ وطن عزیز میں کیا کیا گل کھلانا چاہتے ہیں۔ زندگی کی اونچی نیچی راہوں پر مسافر کو بعض اوقات راستہ بدلنے کی ضرورت پیش آتی ہے، لیکن ایک سو اسّی کے زاویے سے یوٹرن لینا کسی عقل مند انسان کی مستقل عادت نہیں ہو سکتی۔ وزیر اعظم عمران خان کے یوٹرن والے افسوسناک بیان سے زیادہ حیرت و تشویش کی بات یہ ہے کہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار، ان کے اعوان و انصار اس بیان کی الٹی سیدھی وضاحتیں پیش کر کے پاکستان کو اقوام عالم میں ایک تماشا بنائے ہوئے ہیں۔ ایک مبصر نے اسے بجاطور پر ’’میڈیا سرکس‘‘ کا نام دیا ہے۔ اردو میں یوٹرن کے کئی معنی ہیں، جس میں اپنی بات سے پھر جانا، پلٹ آنا، قلابازی کھانا، قلب و ذہن تبدیل ہو جانا اور اپنے منصوبے تبدیل کرنا شامل ہے۔ بیان کی وضاحت وزیراعظم پاکستان کب اور کس طرح کریں گے؟ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ یوٹرن پالیسی کے تحت اپنی کسی وضاحت پر کب تک قائم رہیں گے۔ فی الحال تو اہل و فکر و دانش یہی کہہ رہے ہیں: ’’حیراں ہوں عقل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں۔‘‘ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More