حسن اخلاق نے دل بدل دیا

0

حصہ اول
سناء کا تعلق مصر کے قبطی عیسائیوں سے ہے۔ پھر رب تعالیٰ نے اسے اسلام قبول کرنے کی سعادت بخشی۔ وہ اسلام کی حقانیت سے کیسے آگاہ ہوئی۔ سچائی تک پہنچنے کیلئے کن مراحل سے گزری۔ اُسے کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، خود سناء کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:
میں نے ایک عیسائی قبطی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ہمارے خاندان میں اپنے مذہب کے بارے میں انتہا درجے کا تعصب پایا جاتا تھا۔ ہمارے گھر کے بڑوں کا ہمہ وقت موضوع سخن اسلام اور مسلمان دشمنی ہوتا تھا۔ میرے والدین مجھے باقاعدگی سے ہر اتوار کو چرچ بھیجتے۔ میں پادری کے ہاتھوں پر بوسہ دیتی۔ چرچ سروسز میں حصہ لیتی۔ پوجا پاٹ کے بعد پادری ہمیں لیکچر دیتا کہ قبطی عیسائیوں کے علاوہ سب لوگ گمراہ ہیں۔ ہمارے علاوہ سب لوگ حق تعالیٰ کے غضب کا شکار ہیں، کیونکہ سب ملحد اور بے دین ہیں۔
میں پادری کی باتوں کو دوسرے بچوں کی طرح سرسری انداز میں سنتی۔ جس انداز کا تعصب وہ ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتے تھے، وہ کبھی پیدا نہ ہو سکا اور ہم اپنی مسلمان سہیلیوں اور کلاس فیلوز کو دشمن کے روپ میں دیکھنے پر کبھی خود کو آمادہ نہ کر پائے۔ چرچ سے نکلتے ہی کھیلنے کیلئے میں سیدھی اپنی ایک مسلمان سہیلی کے ہاں چلی جاتی۔ اب میں آہستہ آہستہ بڑی ہو رہی تھی۔ میری آنکھیں مزید کھلنے لگیں، مجھے اپنی مسلمان سہیلیوں کی عادات و اطوار بہت اچھے لگتے۔ وہ میرے ساتھ بہنوں کی طرح پیش آتیں۔ مذہبی فرق کے باوجود انہوں نے کبھی تعصب یا نفرت کا اظہار نہیں کیا۔ بعد میں مجھے پتا چلا کہ یہ قرآن مجید کا حکم ہے کہ جو کافر مسلمانوں سے دشمنی نہیں رکھتے، مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار نہیں ہیں، اُن سے محبت اور مودت سے پیش آیا جائے۔
میری ایک مسلمان لڑکی سے بڑی گہری دوستی تھی۔ ہم ہر وقت اکٹھی رہتیں، کلاس میں بھی ہماری نشستیں ساتھ ساتھ تھیں۔ صرف ہم دینی پیریڈ میں الگ ہوتیں۔ مسلمان لڑکیوں کو اسلامیات کی ٹیچر پڑھاتیں اور ہمیں ایک عیسائی ٹیچر ایک کتاب پڑھاتی۔ میں بادل ناخواستہ ہی اس پیریڈ میں بیٹھتی۔ میرا دل چاہتا کہ میں یہ پیریڈ بھی اپنی مسلمان سہیلی کے ساتھ پڑھوں۔ میرا ارادہ تھا کہ میں اپنی اس عیسائی اُستانی سے ایک سوال پوچھوں: ہم لوگ مسلمانوں کو ملحد اور بے دین سمجھتے ہیں، حالانکہ اُن کا اخلاق، کردار اور رویہ انتہائی مثالی ہے۔ یہ تضاد کیسے ممکن ہے؟
ایک دن میں نے ہمت کر کے یہ سوال پوچھ ہی لیا۔ توقع کے عین مطابق معلمہ کو یہ سوال سن کر شدید غصہ آیا، لیکن وہ اپنا غصہ دباتے ہوئے، ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ سجائے کہنے لگی: تم ابھی بہت چھوٹی ہو، تمہیں دنیا کے بارے میں کچھ خبر نہیں ہے۔ ان چھوٹی چھوٹی نمائشی باتوں سے تمہیں مسلمانوں کے بارے میں دھوکے میں نہیں آنا چاہئے۔ ہم بڑے جانتے ہیں کہ مسلمانوں کی اصل حقیقت کیا ہے۔
میں اس غیر منطقی جواب سے قطعی مطمئن نہ ہوئی، لیکن پھر بھی اپنی معلمہ کے ڈر کی وجہ سے خاموش رہی۔ اچانک مجھے ایک انتہائی اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہونا پڑا۔ میری عزیزاز جاں سہیلی جس سے جدائی کا میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی، وہ اپنے والدین کے ساتھ قاہرہ جا رہی تھی۔ اُس دن ہم سب سہیلیاں رو رہی تھیں، خصوصاً میرے آنسو تو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ میری سہیلی بھی مجھ سے جدائی پر بڑی دکھی تھی، ہم نے بہت سے تحائف اور یادگار چیزوں کا تبادلہ کیا۔ ایک دوسرے سے رابطہ رکھنے کے وعدے کیے۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More