عشق رسالت کی آگ بھڑک اٹھی

0

مولانا ضیاء اللہ صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’مجھے وہاڑی کے ایک گاؤں سے بڑا محبت بھرا خط لکھاگیا کہ مولانا صاحب ہمارے گاؤں میں آج تک سیرۃ النبی پر بیان نہیں ہوا۔ ہمارا بہت دل کرتا ہے، آپ ہمیں وقت عنایت فرما دیں، ہم تیاری کر لیں گے۔‘‘
میں نے محبت بھرے جذبات دیکھ کرخط لکھ دیا کہ فلاں تاریخ کو میں حاضر ہو جاؤں گا۔
دیئے گئے وقت پر میں فقیر ٹرین پر سے اتر کر تانگے پر بیٹھ کر مذکورہ گاؤں پہنچ گیا تو آگے میزبانوں نے مجھے ہدیہ پیش کر کے کہا: مولانا بہت معذرت! آپ جا سکتے ہیں، ہم سیرۃ النبیؐ پر کوئی بیان نہیں کروانا چاہتے۔‘‘
میں نے وجہ پوچھی تو گائوں والوں نے بتایا کہ ’’ہمارے گاؤں میں 90 فیصد قادیانی ہیں۔ وہ ہمیں دھمکیاں دے رہے ہیں کہ نا تو تمہاری عزتیں نہ مال نہ گھر بار محفوظ رہیں گے، اگر سیرۃ النبیؐ پر بیان کروایا تو۔ انہوں نے کہا کہ مولانا! ہم کمزور ہیں، غریب ہیں، تعداد میں بھی کم ہیں، اس لیے ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے، لہٰذا آپ مہربانی کر کے واپس چلے جائیں۔‘‘
مولانا کہتے ہیں کہ میں نے لفافہ واپس کر دیا اور کہا کہ بات تمہاری ہوتی یا میری ہوتی تو واپس چلا جاتا، بات مدینے والے آقاؐ کی عزت کی آگئی ہے، اب بیان ہوگا ضرور۔
یہ سن کر وہ گھبرا گئے کہ آپ تو چلے جائیں گے اور مسئلہ تو ہمارے لئے ہوگا۔
میں نے کہا: ’’اس گاؤں کے آس پاس کوئی ڈنڈے والا ہے؟‘‘
انہوں نے بتایا کہ گاؤں سے کچھ دور نورا ڈاکو ہے۔ پورا علاقہ اس سے ڈرتا ہے۔
میں نے کہا کہ چلو مجھے لے چلو نورے کے پاس۔
وہ مجھے گئے اور ہم جب نورے کے ڈیرے پر پہنچے تو ہمیں دیکھ کر نورا بولا اج کھیر اے مولوی کیوں آگئے نے؟ (خیر ہے مولوی صاحب کیوں آئے ہو؟)
میں نے کہا کہ بات حضور اقدسؐ کی عزت کی آ گئی ہے، تم کچھ کرو گے؟ میری بات سن کر نورا بجلی کی طرح کھڑا ہوا اور اس کے تن بدن میں عشق رسالت کی آگ بھڑک اٹھی۔ کہنے لگا: ’’میں ڈاکو ضرور آں پر بے غرت نئی آں۔‘‘ (میں ڈاکو ضرور ہوں، لیکن بے غیرت ہرگز نہیں)
ہم نے ساری صورتحال سے نورے کو آگاہ تو وہ ہمیں لے کر چل نکلا۔ مسجد میں 3 گھنٹے بیان کیا میں نے۔ اور نورا ڈٹ کر کھڑا رہا۔ آخر میں نورے نے یہ کہا کہ اگر کسی نے مسلمانوں کی طرف آنکھ اٹھا کربھی دیکھا تو نورے سے بچ نہیں سکے گا۔
بیان کے بعد میں واپس آگیا۔ کچھ ماہ بعد میرے گھر پر ایک آدمی آیا۔ سر پر عمامہ، چہرے پر داڑھی اور زبان پر درود پاک کا ورد۔ میں نے پوچھا: ’’کون ہو؟‘‘
وہ رو کر بولا ’’مولانا میں نورا ڈاکو ہوں۔ جب اس دن میں واپس گھر کو لوٹا جا کر سو گیا۔ آنکھ لگی ہی تھی پیارے مصطفی کریمؐ آقائے نامدار میری خواب میں تشریف لائے۔ میرا ماتھا چوما اور فرمایا: ’’آج تو نے میری عزت پر پہرا دیا ہے، میں اور میرا خدا تم پر خوش ہوگئے ہیں۔ خدا نے تیرے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیئے ہیں۔‘‘
نورے نے بتایا کہ مولانا صاحب اس کے بعد میری آنکھ کھلی تو سب کچھ بدل چکا تھا۔ اب تو ہر وقت آنکھوں سے آنسو ہی خشک نہیں ہوتے۔ مولانا صاحب! میں آپ کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں۔ آپ کی وجہ سے تو میری زندگی ہی بدل گئی اور میری آخرت سنور گئی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More