افغان جنگ کی شکست اور ٹرمپ کی فرسٹریشن

0

عقل و خرد سے عاری اور سیاسی تدبر سے یکسر محروم امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے فوکس ٹی وی سے اپنے ایک حالیہ انٹرویو کے دوران ایک بار پھر پاکستان پر الزامات عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے امریکی امداد کے باوجود امریکہ کیلئے کچھ نہیں کیا ہے، ہم نے پاکستان کی امداد بند کر دی ہے اور اب ایسا نہیں چلے گا۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب ٹرمپ نے پاکستان کے افغانستان کے حوالے سے کردار پر تنقید کی ہے، اس سے قبل بھی وہ اسی طرح کے حماقت خیز بیانات دیتے رہے ہیں۔ ٹرمپ کے پاکستان کے خلاف یہ بیانات دراصل ان کی مایوسی کے عکاس ہیں۔ ان کی فرسٹریشن کے آئینہ دار ہیں۔ کیونکہ افغانستان میں سترہ سال سے جاری جنگ میں تمام تر قوت اور جنگی حکمت عملی اختیار کرنے کے باوجود امریکہ افغانستان کے خاک نشین طالبان کے ہاتھوں عبرت ناک شکست سے دوچار ہو چکا ہے، لیکن اس کا دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کا غرور اور اس کی انا اسے شکست تسلیم کرنے سے مسلسل روک رہی ہے، لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ دنیا اس حقیقت سے اب آگاہ ہو چکی ہے کہ امریکہ افغانستان میں بدترین اور شرمناک شکست سے دوچار ہو چکا ہے۔
افغانستان میں امریکی شکست پر ٹرمپ کی جھنجھلاہٹ اس لئے بھی ہے کہ انہوں نے اپنے صدر منتخب ہونے کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ افغانستان کی جنگ ضرور جیتے گا۔ چنانچہ وہ اپنے اس کھوکھلے دعوے کے بعد امریکی عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں نہیں رہے۔ امریکہ نے حالیہ دنوں میں افغانستان میں زبردست بمباری کی ہے، لیکن اس خوفناک بمباری کے باوجود طالبان نے غزنی پر قبضہ کر لیا اور ان کے زیر قبضہ علاقوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ کے تھنک ٹینکس بھی اس بات کا اعتراف کرتے نظر آرہے ہیں کہ طالبان کا زور روز بروز بڑھ رہا ہے، جبکہ امریکہ کی حمایت یافتہ کٹھ پتلی اشرف غنی حکومت صرف صدارتی محل تک ہی محدود ہے، کیونکہ اب کابل بھی طالبان کے حملوں سے محفوظ نہیں رہا۔ امریکہ نے بھی اس بات کا ادراک کر لیا ہے کہ افغانستان کا مسئلہ بات چیت کے ذریعے ہی حل ہوگا، کیونکہ فوجی کارروائی کسی بھی سیاسی حل کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔
ٹرمپ کے انٹرویو پر پاکستان نے جس طرح کا ردعمل دیا ہے، اس نے اس حقیقت کو آشکارہ کر دیا ہے کہ پاکستان کی سول حکومت اور مسلح افواج اس اہم ترین مسئلہ پر ایک پیچ پر ہیں اور اب پاکستان اپنے تمام تر فیصلے اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کرے گا۔ پاکستانی ردعمل نے امریکہ پر یہ بھی ظاہر کر رہا ہے کہ اب پاکستان اس کے حلقہ اثر سے باہر آچکا ہے اور اب وہ تمام تر فیصلے امریکی مفادات میں نہیں، بلکہ اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کرے گا۔ سویلین حکومت کے بعد آرمی چیف کا بیان بھی ظاہر کرتا ہے کہ فوج اور حکومت میں مکمل ہم آہنگی اور اب پاکستان امریکہ کے دباؤ کو قبول نہیں کرے گا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا بیان ناصرف بروقت ہے بلکہ انتہائی درست سمت ایک قدم بھی ہے، جس کے بعد امریکہ کو اچھی طرح احساس ہوگیا ہوگا کہ اب پاکستان آنکھیں بند کرکے اس کی ہر بات پر عمل نہیں کرے گا۔ پاکستان کی پالیسی درست سمت میں ایک اہم قدم ہے، کیونکہ ماضی میں پاکستان نے اپنے مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ہمیشہ امریکی مفادات کا خیال رکھا، جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ امریکہ پاکستان پر الزامات عائد کرتا چلا آرہا ہے اور مستقل طور پر پاکستان کو افغانستان کے حوالے دباؤ میں لینے کی کوشش کر رہا ہے۔
دہشت گردی کے حوالے سے جنگ کی ابتدا سے لیکر اب تک پاکستان کے حوالے سے امریکی کردار کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ پہلے تو امریکہ نے دھونس اور دھمکیوں کے ذریعے پاکستان کو زبردستی اس جنگ میں شامل کرایا، جو کسی بھی اعتبار سے پاکستان کی جنگ نہ تھی۔ لیکن امریکہ نے پاکستان کو اس جنگ میں اپنے اتحادی کے طور پر شامل کرکے دہشت گردی کی یہ جنگ پاکستان منتقل کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ چنانچہ امریکہ نے افغانستان کی جنگ کے حوالے سے پاکستان کی اہمیت اور ضرورت کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو نان نیٹو اتحادی کا درجہ دیا، کیونکہ اس کے مفادات کا یہی تقاضا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکہ پاکستان کو اپنا فطری اتحادی کہتا تھا، کیونکہ پاکستان کی مدد و ضمانت کے بغیر امریکہ ایک دن بھی افغانستان میں قیام نہیں کرسکتا تھا اور امریکہ کو اپنی افواج اور اپنے نیٹو اتحادیوں کے لیے پاکستان کی سرزمین کا استعمال کرنا تھا، جو اس نے بھرپور طریقے سے کیا اور اب بھی کر رہا ہے۔
جوں جوں یہ جنگ آگے بڑھتی گئی اور امریکہ کے نقصانات میں اضافہ ہونے لگا اور طالبان کو دبانے میں اسے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا تو اس کی مایوسی اور جھنجھلاہٹ میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ بارک اوباما انتظامیہ نے اپنے دوسرے دور میں ایک نئی افغان پالیسی اختیار کی جس کو اسٹک اینڈ کیرٹ کا نام دیا گیا، جو بری طرح ناکام رہی۔ اس پالیسی کا مقصد افغان جنگ کے حوالے سے پاکستان پر بتدریج دباؤ میں اضافہ کرنا تھا، لیکن پاکستان اس پالیسی کو بھانپ گیا، کیونکہ امریکہ کا مقصد پاکستانی فوج کو افغانستان کی جنگ میں الجھانا تھا، جس میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ دوم یہ کہ امریکہ نے پاکستان میں اپنے اسٹرٹیجک اثاثے تحریک طالبان پاکستان کو سپورٹ کرنا شروع کیا، تاکہ اس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ دہشت گردی کرکے پاکستان کو دباؤ میں لیکر اپنی بات ماننے پر مجبور کیا جا سکے، لیکن پاکستانی حکومت نے دہشت گردی کے ہاتھوں ہونے والے اربوں ڈالرز کے اقتصادی اور معاشی نقصانات اور ہزاروں انسانی جانوں کے اتلاف کے باوجود دہشت گردی کے آگے جھکنے کے بجائے اس سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔
افواج پاکستان دہشت گردی کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہوگئیں۔ انہوں نے پاکستان کی تاریخ کے کامیاب آپریشنز کئے، جن کے بعد دہشت گردوں کے قدم اکھڑ گئے اور ان کی کمر ٹوٹ گئی۔ دہشت گردوں کے خلاف افواج پاکستان کی شاندار کامیابیوں کے بعد امریکہ کے سینے پر سانپ لوٹنے لگا اور وہ اس تاسف میں مبتلا ہوگیا کہ اس کی فوج کو تو تمام جدید ترین ہتھیاروں اور قوت کے باوجود کامیابی نصیب نہیں ہو رہی تو افواج پاکستان نے کس طرح دہشت گردوں کے خلاف تاریخی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
امریکہ کو شاید اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ افواج پاکستان جذبہ ایمان اور پاکستان کی محبت سے سرشار ہیں، ان کے فوجی شہادت کی تمنا لیکر میدان جنگ میں لڑتے ہیں، جبکہ امریکی فوج زرہ بکتر اور فولاد کی دیوار کے پیچھے چھپ کر لڑتے ہیں۔ پاکستانی فوج فضائی بمباری کے بعد دشمن کو ادھ موا کرنے کے بعد نہیں لڑتی، بلکہ اپنی جنگی صلاحیتوں سے دشمن کو ادھ موا کرتی ہے۔ افغانستان کی جنگ میں تو امریکہ کو پانچ ہزار سے بھی کم جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے، جبکہ افواج پاکستان نے دہشت گردی کی اس جنگ میں امریکہ کے مقابلے میں تین گنا قربانیاں دی ہیں۔
ٹرمپ کی مایوسی اپنی جگہ، پاک فوج کرائے کی فوج نہیں، جو دوسروں کی جنگ لڑے گی۔ وہ اپنے ملک کی سلامتی اور تحفظ کے لئے لڑتی ہے۔ اگر امریکی فوج افغانستان میں شکست کھا رہی ہے تو اس کی ذمہ داری پاکستان یا افواج پاکستان پر کس طرح عائد کی جا سکتی ہے۔ امریکہ کو اپنی فوج کی صلاحیتوں کو دیکھنا ہوگا، جو مھٹی بھر حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھی موثر کارروائی کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی اور امریکہ اس ناکامی کا الزام بھی افواج پاکستان پر عائد کرتا ہے، جو صریحاً غلط اور بے بنیاد ہے۔ امریکہ نے ڈرون حملوں کے ذریعے لاتعداد افراد کو ہلاک کیا ہے، اگر امریکہ حقانی نیٹ ورک سے خوفزدہ ہے تو کیوں انہیں ڈرون حملوں کا نشانہ بناتا؟ حقیقت یہ ہے کہ حقانی نیٹ ورک افغانستان میں ہی آپریٹ کرتا ہے اور اس نے افغانستان میں امریکی فوج کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔
امریکی فوج کی تاریخ شکستوں سے بھری پڑی ہے۔ اس نے ویت نام میں برسوں جنگ لڑی، ہر قسم کے ہتھیاروں خصوصاً خطرناک اور مہلک کیمیاوی مادے کا بھرپور استعمال کیا۔ دنیا کی خوفناک ترین کارپٹ بمباری کی، مگر ویت نامیوں کے عزم اور حوصلوں کو شکست نہ دے سکا اور نتیجتاً اسے ویت نام میں شکست کھا کر اور بے عزت ہو کر نکلنا پڑا، لیکن امریکہ نے اس شکست سے کوئی سبق نہ سیکھا، وہی غلطی افغانستان میں دہرائی اور اب سترہ برس کی بے مقصد جنگ کے بعد امریکہ کی شکست واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے۔ افغانستان کی جنگ کو یقینی طور پر جیتنے کا دعویٰ کرنے والے امریکی صدر ٹرمپ یہ کیوں بھول گئے کہ آخر کار امریکہ کو افغانستان میں تمام تر جدید ہتھیاروں اور خوفناک قوت کے باوجود شکست کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟ امریکہ کی ویت نام اور افغانستان کی جنگوں میں شکست کی وجہ بڑی سادہ سی ہے اور وہ یہ کہ امریکہ نے یہ جنگیں اپنی سلامتی اور دفاع کے لیے نہیں لڑیں، بلکہ ان جنگوں میں امریکی فوج غاصب اور جارح تھی، جس نے ویت نام اور افغانستان میں جارحیت کی۔ طالبان اور ویت نام کی فتح کی وجہ یہ تھی کہ یہ دونوں غاصب قوت اور جارح کے خلاف نبرد آزما رہے، اپنی دھرتی کے تحفظ کے لیے جنگ لڑی، لہٰذا ان کے جذبے اور امریکی فوج کے جذبے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ طالبان امریکی فوج کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جان کی پروا نہیں کرتے، جبکہ امریکی فوجی کا اس جنگ میں اپنی جان بچانا سب سے اہم مقصد ہوتا ہے، کیونکہ وہ یہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ یہ جنگ امریکہ کے دفاع یا تحفظ کی نہیں، بلکہ بے مقصد جنگ ہے۔
ٹرمپ کو اس بات کا بھی ادراک نہیں کہ پاکستان کی مدد و تعاون کے بغیر امریکہ سترہ برس افغانستان کی جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔ سلالہ واقعہ کے بعد جب پاکستان نے امریکہ اور نیٹو کی فوجی سپلائی کو روکا تو امریکہ کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوگیا تھا۔ امریکی فوج اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ پاکستان کی سرزمین اس کے سمندر اور اس کی فضائی حدود کے استعمال کے بغیر وہ افغانستان میں ایک دن بھی نہیں لڑ سکتی۔ امریکہ کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ افغانستان سے القاعدہ کے خاتمے میں پاکستان کا کردار انتہائی اہم رہا ہے۔ القاعدہ کی اہم قیادت پاکستانی تعاون کے باعث ہی پکڑی گئی یا ماری گئی۔ امریکہ افغانستان میں جو کارروائی بھی کر رہا ہے، اس میں پاکستان کا تعاون انتہائی اہم ہے۔ اگر آج پاکستان اپنا تعاون ختم کر دے تو افغانستان میں موجود امریکی فورسز کو باحفاظت نکلنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ ٹرمپ کے احمقانہ بیان پر پاکستان کے شدید ردعمل اور افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے انتباہ کے بعد اب امریکی اسٹیبلشمنٹ اور پنٹاگون نے کہا ہے کہ پاکستان امریکہ کا اہم اتحادی ہے اور افغانستان کی جنگ میں پاکستان کے تعاون کو امریکہ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ پنٹاگون نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ پاکستان اب بھی جنوبی ایشیا میں امریکہ کا ایک اہم اتحادی ہے اور پر امن افغانستان کے لیے پاکستان کا کردار کلیدی نوعیت کا ہے۔ امریکی محکمہ دفاع اور اسٹیبلشمنٹ کے ان بیانات کے پیچھے یہ حقیقت کارفرما ہے کہ اب ان دونوں کو اچھی طرح سے یہ اندازہ ہو چکا ہے کہ پاکستان کو ڈرا دھمکا کر اور دباؤ میں لیکر اپنی مرضی کے مطابق کام نکلوانا اب ممکن نہیں رہا ہے اور اگر افغانستان سے امریکی فورسز کی باعزت اور باحفاظت واپسی درکار ہے تو یہ اہم کام پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More