’’اب کسے رہنما کرے کوئی؟‘‘

0

مسعود ابدالی
وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں ایک خط لکھا ہے، جس میں افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان سے اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ وہائٹ ہائوس یا امریکی وزارت خارجہ کی جانب سے اس خط کے بارے میں کوئی خبر یا مندرجات کی تفصیل (تادم تحریر) شائع نہیں کی گئی۔ پاکستان کے دفترِ خارجہ نے امریکی صدر کی جانب سے بھیجے گئے خط کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے افغان تنازعے کا حل تلاش کرنا امریکی صدر کی اولین ترجیح ہے۔ صدر ٹرمپ نے تسلیم کیا کہ افغانستان کی جنگ امریکہ اور پاکستان دونوں کیلئے نقصان دہ ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے خط میں زور دیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کو اپنے تعلقات کی تجدید اور ایک ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
عمران خان نے یہ انکشاف پیر کو پاکستان کے بعض سینئر صحافیوں سے ایک خصوصی ملاقات میں کیا۔ یہ کہتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم حسبِ عادت اپنی تعریف کئے بنا نہ رہ سکے اور فرمایا ’’ماضی میں امریکہ سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا گیا، اب ہم نے امریکہ کو برابری کی بنیاد پر جواب دیا تو ٹرمپ نے خط لکھا۔‘‘
یہ خط عین اس دن موصول ہوا ہے، جب امریکی صدر کے نمائندے برائے افغان مصالحت زلمے خلیل زاد 8 ملکوں کے تین ہفتہ طویل دورے پر روانہ ہوئے ہیں۔ واشنگٹن میں ان کے دفتر نے جو اعلامیہ جاری کیا ہے، اس کے مطابق خلیل زاد صاحب پاکستان، افغانستان، روس اور متحدہ عرب امارات جائیں گے۔ ان کے باقی چار میزبانوں کا اعلان نہیں ہوا۔ لیکن اس سے پہلے کہا گیا تھا کہ امریکی سفارت کار آذربائیجان، تاجکستان، بلجیم اور قطر بھی جائیں گے۔ سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ بلجیم کے دورے کا مقصد نیٹو حکام کو اعتماد میں لینا ہے۔
جیسا کہ عمران خان نے خود بتایا، اس خط میں پاکستان سے طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے کیلئے تعاون کی درخواست کی گئی ہے۔ طبیعت کے اعتبار سے عمران خان اور صدر ٹرمپ میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں ہی تعریف کے خوگر اور انا کے قتیل ہیں۔ صدر ٹرمپ اپنے ساتھیوں کے سامنے شیخی بگھار رہے ہیں کہ ان کی Tough talk سے پاکستان کا مزاج درست ہوگیا تو خان صاحب کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے ٹویٹ کے منہ توڑ جواب نے ٹرمپ بابا کو معقولیت پر مجبور کر دیا۔
تاہم پاکستان کیلئے مذاکرات کے حوالے سے کوئی اہم کردار ادا کرنا ممکن نہیں کہ طالبان پاکستان پر اعتماد نہیں کرتے۔ مولویوں کے پاکستان پر عدم اعتماد یا کم از کم تحفظات کی وجوہات بہت معقول ہیں۔ پرویز مشرف نے جس بے رحمی سے طالبان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا، اس کی چبھن وہ آج تک تک محسوس کررہے ہیں۔ سفارتی تحفظ و استثنیٰ کے باوجود طالبان کے سفیر ملا عبد السلام ضعیف کو انتہائی بے شرمی کے ساتھ امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ ملا صاحب کے مطابق پشاور ایئرپورٹ پر انہیں اعلیٰ پاکستانی حکام سامنے برہنہ کرکے پیٹا گیا۔ ان کی داڑھی نوچی گئی اور افغان قوم کے بارے انتہائی تذلیل آمیز الفظ استعمال کئے گئے۔ اس توہین کو طالبان آج تک نہیں بھولے۔ ابھی کچھ دن پہلے سرکاری طور پر اعلان فرمایا گیا کہ ’’پاکستان کی خواہش ہے کہ امریکہ کامیابی کے بعد افغانستان سے واپس جائے۔‘‘ دشمن کی کامیابی کیلئے دعا گو کو کون ثالث تسلیم کرے گا؟
اس پس منظر میں صدر ٹرمپ کا خط ایک رسمی سی تحریر ہے اور اسی وزن و بحر میں اس کا جواب بھی چچا سام کے حوالے کردیا جائے گا۔ یعنی ہم کو خبر ہے جو وہ لکھیں گے جواب میں۔ جہاں تک دونوں رہنمائوں کی جانب سے ایک دوسرے کا دماغ درست کردینے کا تعلق ہے تو یہ سیاسی جگالی سے زیادہ کچھ نہیں، جسے انگریزی میں Public Consumption کہتے ہیں۔ بقول مشتاق یوسفی جس بات کے جھوٹ ہونے پر کہنے اور سننے والے دونوں یکسو ہوں، اسے دروغ گوئی نہیں سمجھنا چاہئے۔ امن مذاکرات کے بارے میں خوش افزا بات یہ ہے کہ جناب زلمے خلیل زاد کامیابی کے حوالے سے بے حد پر امید ہیں اور ان کے خیال میں طالبان کے ساتھ اپریل 2019ء تک امن معاہدہ طے پا جائے گا۔ لیکن ٹرمپ صاحب تو جھوٹوں کے بادشاہ ہیں۔ ان کے حلف اٹھانے کے وقت سے اس بات کی تحقیقات کی جا رہی ہے کہ کیا گزشتہ عام انتخابات میں روس نے صدر ٹرمپ کی کامیابی میں کوئی کردار ادا کیا تھا۔ تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ اور ایف بی آئی کے سابق رابرٹ موئیلر اس پہلو سے بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ کہیں صدر ٹرمپ خود تو اس سازش یا Collusion کا حصہ نہیں تھے۔ خبر ہے کہ تحقیقات آخری مرحلے میں ہے اور اگلے چند ماہ میں رابرٹ موئیلر اپنی رپورٹ پیش کردیں گے۔ اب تک جو انکشافات ہوئے، ان سے لگتا ہے کہ صدر کے بہت سے قریبی ساتھی جھوٹے اور قانون شکن ہیں۔ چند نے تو جھوٹ کا اقرار کرکے خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
مثال کے طور پر مائیکل فلن (Michael Flynn): پاکستان اور طالبان کے سخت مخالف جنرل مائیکل فلن صدر ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی تھے۔ موصوف نے عدالت کے روبرو اپنے روس سے تعلقات کے بارے میں غلط بیانی (دروغِ حلفی) کا اعتراف کر لیا ہے۔
رک گیٹس (Paul Manafort): ٹرمپ انتخابی مہم کے ڈپٹی چیئرمین رک گیٹس نے یوکرین Ukraine میں مالیاتی لین دین کے بارے میں جھوٹ کا اعتراف کرلیا ہے۔
پال منافورٹ (Michael Cohen): ٹرمپ انتخابی مہم کے سابق سربراہ پال منافورٹ نے بھی یوکرین Ukraine میں مالیاتی لین دین کے بارے میں جھوٹ کا اعتراف کرلیا ہے۔
مائیکل کوہن (Michael Cohen): صدر ٹرمپ کے سابق ذاتی وکیل اور انتہائی معتمد ساتھی مائیکل کوہن نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے ٹرمپ ٹاور ماسکو کے بارے میں امریکی کانگریس کے سامنے جھوٹ بولا تھا۔ ’’اب کسے رہنما کرے کوئی؟‘‘
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More