تابعین کے ایمان افروز واقعات

0

حضرت عطاء بن ابی رباحؒ کو حق تعالیٰ نے لمبی(با برکت) عمر نصیب فرمائی، جو ایک سو سال تک پہنچی اور ان کی تمام عمر علم و عمل، نیکی اور پرہیز گاری سے بھرپور تھی۔
انہوں نے اپنی زندگی کو خدا کی محبت اور اس کے خزانوں میں رغبت کی وجہ سے لوگوں کے مال و دولت کی حرص سے پاک و صاف بنا رکھا تھا۔ یہاں تک کہ جب ان کا انتقال ہوا تو دنیا کے مال و اسباب کے اعتبار سے تو وہ بہت ہلکے تھے، لیکن اعمال آخرت کا بہت بڑا توشہ اپنے لئے تیار کر چکے تھے، اس کے ساتھ ساتھ تمام اعمال سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے ستر (70) بار عرفات پر کھڑے ہوکر خدا کی رضا اور جنت طلب کرچکے تھے اور اس کی ناراضگی اور جہنم کی آگ سے پناہ مانگ چکے تھے۔
حضرت عطاء بن ابی رباحؒ جو جلیل القدر اور مشہور تابعی ہیں، اپنے وقت کے بہت بڑے عالم و زاہد تھے۔
حضرت عامر تمیمیؒ:
علقمہ بن مرثدؒ فرماتے ہیں کہ دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی فکر میں سب سے بڑھنے والے آٹھ بزرگ گزرے ہیں، جن کے امام (قائد) عامر تمیمیؒ تھے۔
یہ 14 ہجری کی بات ہے کہ امیر المؤمنین خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن خطابؓ کے حکم پر بڑے بڑے صحابہؓ اور جلیل القدر تابعینؒ ’’شہر بصرہ‘‘ کے حدود یعنی سرحدوں کی تعین کرنے میں لگے ہوئے تھے۔
ان کا ارادہ تھا کہ اس نئے شہر کو مسلمانوں کے ان لشکروں کیلئے لشکرگاہ بنادیں جو فارس کے علاقوں میں جہاد، تبلیغ اور خدا تعالیٰ کے کلمے کو بلندہ کرنے کیلئے نکلنے والے تھے۔ کیوں کہ یہی ’’بصرہ‘‘ ایسا مقام تھا، جس میں جزیرۂ عرب کے مختلف علاقوں یعنی علاقہ نجد، حجاز، یمن وغیرہ سے ہجرت کر کے مسلمان آکر یہاں جمع ہوتے تھے اور اسلام پھیلانے کی جماعت میں شمولیت کیلئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔
چنانچہ ہجرت کر کے آنے والے نجد کے مہاجرین میں قبیلہ بنو تمیم کا ایک نوجوان تھا، جو عامر تمیمیؒ عنبری کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ عامرؒ اس زمانے میں انتہائی خوبصورت، چڑھتی جوانی، چمکتا دمکتا چہرہ، پاکیزہ نفس اور پاکیزہ دل تھے۔ جب کہ ’’بصرہ‘‘ اس وقت مسلمانوں کے شہروں میں سے سب سے زیادہ مال و دولت والا شہر تھا، کیونکہ جنگوں میں حاصل ہونے والا مال غنیمت یہیں پر آتا تھا اور یہیں پر خالص سونے کے ڈھیر تھے۔
لیکن اس تمیمی نوجوان عامرؒ کو ان تمام چیزوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ ان تمام اشیاء (یعنی مال و دولت) سے مستغنی تھے، جو لوگوں کے پاس تھیں، بلکہ وہ ان تمام نعمتوں کے شوقین تھے، جو حق تعالیٰ کے پاس تھیں۔
وہ دنیا اور اس کی ظاہری زیب و زینت (سج دھج) سے
منہ موڑ کر حق تعالیٰ اور اس کی رضامندی کی طرف آگے بڑھنے والے تھے۔
اس زمانے میں بصرہ کے گورنر نبی پاکؐ کے جلیل القدر صحابی حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ ہوا کرتے تھے، وہی اس خوبصورت شہر کے والی (حکمران) تھے اور جہاں بھی مسلمانوں کا لشکر جاتا تو وہ مسلمانوں کے لشکر کے (امیر) بھی ہوتے تھے۔ اور بصرہ والوں کے امام و استاد بھی تھے اور خدا تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرنے والے بھی تھے۔
عامرؒ نے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کی مکمل صحبت اختیار کرلی، حالت جنگ میں بھی اور حالت امن میں بھی، حالت سفر بھی اور حالت حضر میں بھی، اسی وجہ سے انہوں نے ان سے قرآن کریم کا علم ایسا تازہ تازہ حاصل کرلیا ، جس طرح رسول اقدسؐ کے قلب مبارک پر نازل ہوا تھا اور ان سے احادیث صحیحہ روایت کیں، جن کی سند براہ راست نبی پاکؐ تک پہنچی تھی اور انہی سے تعلیم حاصل کر کے دین اسلام کے عالم اور فقیہہ بنے۔ پھر جب انہوں نے اس تعلیم کو مکمل کرلیا، جس کا انہوں نے ارادہ کیا تھا تو انہوں نے اپنی زندگی کو تین حصوں پر تقسیم کرلیا۔
1۔ حصہ اول: لوگوں کو دین سکھانے کے لیے، جس میں بصرہ کی مسجد میں لوگوں کو قرآن مجید پڑھاتے تھے۔
2۔ حصہ دوم: عبادت کے لیے جس میں وہ عبادت کرتے اور اپنے رب کے سامنے اس قدر کھڑے رہتے کہ ان کے دونوں پاؤں تھک کر کم زور پڑ جاتے۔
3۔ حصہ سوم: دین کو پھیلانے کے لیے اورخدا کے راستے میں جان و مال کے ساتھ جہاد کرنے کے لیے، جس میں کافروں کو اسلام کی طرف دعوت دیتے اور جو لوگ نہ مانتے ان کو جزیہ کی طرف دعوت دیتے اور جو یہ بھی نہ مانتے تو ان کے لیے تلوار سونت کر خدا کے راستے میں جہاد کرتے۔
(ان تین کاموں کے علاوہ ان کے پاس کسی اور کام کے لیے کوئی وقت نہیں تھا) انہوں نے اپنی زندگی میں کوئی وقت اس کے علاوہ کسی کام کے لیے نہیں چھوڑا تھا، یہاں تک کہ وہ بصرہ کے سب سے بڑے عابد اور متقی کہلائے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More