سپریم کورٹ آف پاکستان نے بحریہ ٹاؤن کراچی سے متعلق معاملات اور تنازعات کے حل تک بحریہ ٹاؤن پرائیویٹ لمیٹڈ کے کیش اِن فلو کو اپنے کنٹرول میں کرلیا ہے۔ بحریہ ٹاؤن کو اشتہارات شائع کرانے سے روک دیا ہے۔ ساتھ ہی بحریہ ٹاؤن کراچی کو پابند کر دیا گیا ہے کہ وہ کوئی نیا منصوبہ بھی شروع نہ کرے۔ بحریہ ٹاؤن کراچی کے معزز ممبران یعنی الاٹیز کو اقساط کی رقوم سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی رجسٹری میں کھولے گئے اکاؤنٹ میں جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس صورتحال کا بحریہ ٹاؤن کراچی پر انتہائی خوفناک اور گھمبیر اثر پڑا ہے اور فنڈز کی بندش سے بحریہ ٹاؤن کراچی ایک اذیت ناک معاشی، معاشرتی اور انتظامی بحران میں پھنس گیا ہے۔ میں اپنی فیملی کے ساتھ بحریہ ٹاؤن کراچی میں رہتا ہوں اور اس خطرناک بحران کا عینی شاہد ہوں۔ بحریہ ٹاؤن کراچی میں دس ہزار سے زائد گھرانے آباد ہو چکے ہیں، جو بحریہ ٹاؤن کو درپیش بحران کے باعث سخت پریشان ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کی تمام اسٹریٹ لائٹس بند ہیں۔ صفائی ستھرائی کا نظام ٹھپ پڑا ہوا ہے۔ سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کی بندش سے شعبہ باغبانی عملاً مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ گویا بحریہ ٹاؤن کراچی کے مکین ایک طرح محصور بن کر رہ گئے ہیں۔ چونکہ بحریہ ٹاؤن کراچی میں کیش ان فلو نہیں ہو رہا، اس لئے بحریہ ٹاؤن کراچی کے ہزاروں ملازمین کو تنخواہیں ملنا بند ہوگئی ہیں۔ دوسری طرف فنڈز بند ہو جانے سے بحریہ ٹاؤن میں تمام ترقیاتی اور تعمیراتی کام رک گئے ہیں۔ اس کا ہیبت ناک اور منفی اثر لاکھوں محنت کشوں اور کاریگروں کے روزگار پر پڑا ہے۔ یاد رکھئے گا تعمیرات کی صنعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ایک زنجیر کی مانند ہے، جس کی ایک کڑی دوسری کڑی سے ملی ہوئی ہے۔ ایک مزدور یومیہ آٹھ سو سے ایک ہزار روپے تک کماتا ہے۔ دو برس کے بعد وہ ایک کاریگر بن جاتا ہے، جس کی دیہاڑی پندرہ سو روپے سے دو ہزار روپے تک ہوتی ہے۔ دو سال کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد یہ کاریگر روزی روٹی کی تلاش میں خلیج یا مشرق بعید کے ممالک کی طرف نکل جاتا ہے۔ وہاں وہ ہانڈی وال ڈیرے پر اپنے گاؤں گوٹھ کے نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع ڈھونڈتا ہے۔ پاکستان اور کراچی سے شروع ہونے والی یہ زنجیر بیرون ملک سمندر پار افرادی قوت کے ذریعے زرمبادلہ وطن عزیز بھجواتی ہے۔ اس زنجیر پر سنہری رنگ اربوں روپے کی پیداواری صنعت چڑھاتی ہے۔ بحریہ ٹاؤن جیسے میگا پراجیکٹس اس گولڈن چین کو مضبوط کرتے ہیں اور لاکھوں گھروں کے چولہے جلتے ہیں، مگر آج یہ زنجیر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے… ہزار ہا مزدور اور کاریگر بے روزگاری کے عفریت کے پنجے میں پھنس چکے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کراچی سے 55 تعمیراتی صنعتیں بری طرح متاثر ہو چکی ہیں۔ شہر کراچی پر بے تحاشا آبادی کا دباؤ کم کرنے والی نئی ابھرتی ہوئی ہاؤسنگ اسکیم پھولنے سے پہلے ہی مُرجھا رہی ہے۔
’’امت‘‘ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے بارے میں جس مثبت انداز سے کوریج کی ہے، اس سے دل کو ڈھارس بندھتی ہے اور امید پیدا ہوتی ہے کہ یہ عظیم الشان پراجیکٹ موجودہ بحران سے نکل آئے گا۔ 15 نومبر کو ’’امت‘‘ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے حوالے سے ایک تفصیلی نیوز آئٹم چلایا تھا، جس کی روشنی میں میں 28 نومبر کو ’’بحریہ ٹاؤن: خوابوں کی سر زمین‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا۔ ’’امت‘‘ نے عوام اور خواص کو اس اہم خبر سے مطلع کیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کو عالمی کانفرنس منعقدہ جنیوا میں ماحول دوست انٹرنیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ پھر یکم دسمبر کو ’’امت‘‘ نے یہ اطلاع دی کہ انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں عالمی سطح کے اجلاس میں یہ سفارش کی گئی کہ افریقہ کے پسماندہ اور درماندہ ممالک میں 66 ہاؤسنگ اسکیموں کے قیام کے لئے بحریہ ٹاؤن پاکستان کو ذمہ داریاں دی جائیں۔ اس جناتی منصوبے کے لئے ورلڈ بینک فنڈز فراہم کرے گا، اگر امریکہ نے اس معاملے میں کھنڈت نہ ڈالی تو قوی امکان ہے کہ مذکورہ پراجیکٹ بحریہ ٹاؤن پرائیویٹ لمیٹڈ سے مکمل کرائے جائیں۔ آپ کو اور مجھے اس خبر پر فخر کرنا چاہئے کہ انٹرنیشنل لیول پر پاکستان کو اتنا بڑا اعزاز مل رہا ہے۔ میں افسردہ ہوں کہ بین الاقوامی فورمز پر بحریہ ٹاؤن کو عزت اور تکریم دی جا رہی ہے اور پاکستان کے اندر ایک اہم اور کارآمد ادارے پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ ان سطور کے ذریعے میں سپریم کورٹ آف پاکستان، وفاقی اور صوبائی حکومت سے گزارش کرتا ہوں کہ قومی نوعیت کے اس شاندار منصوبے کو ڈوبنے سے بچایا جائے۔ ایسے اقدامات اٹھائے جائیں کہ ایک طرف بحریہ ٹاؤن کے الاٹیز، رہائشیوں اور اس سے منسلک ہزاروں افراد کے انسانی حقوق کا تحفظ کیا جائے تو دوسری طرف بحریہ ٹاؤن کراچی سے قومی اور صوبائی خزانے کے لئے ریونیو بھی حاصل کیا جائے۔ امید ہے کہ ’’امت‘‘ کی آواز متعلقہ اداروں کے ارباب اختیار تک ضرور پہنچے گی۔
٭٭٭٭٭
Prev Post