اہل علم جانتے ہیں کہ قرآن کریم میں حق تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر ان کا نام لے کر اتنی کثرت سے کیا ہے جو کسی دوسرے پیغمبر کا نہیں کیا۔ خاص طور پر مکی زندگی میں جو قرآن نازل ہوا، اس میں پچھلی امتوں کا تذکرہ بہت زیادہ ہے۔ مدنی سورتوں میں اتنا نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ عرب کے کفار اور مشرکین پیغمبروں سے تو واقف تھے، مگر مرنے کے بعد پیدا ہونے والی زندگی کے منکر تھے۔ البتہ پچھلے پیـغمبروں کے بارے میں بہت سے جاہلانہ عقائد اور خیالات رکھتے تھے۔
حق تعالیٰ نے آنحضرت علیہ الصلوٰۃ و السلام پر پچھلے پیغمبروں کے حالات بیان کر کے ان کے عقائد کی اصلاح کی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے واقعے کو خاص طور پر قرآن کریم کی کئی سورتوں میں بیان فرمایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے بعد ان کی تربیت بھی فرعون کے ہاتھوں کروائی۔ فرعون کی جھوٹی خدائی کا خاتمہ اسی بچے کے ذریعے ہونا تھا جو اس کے محل میں پرورش پا رہا تھا۔ حق تعالیٰ شانہٗ نے اس طرح اپنی قدرت ظاہر فرمائی کہ فرعون کے ہاتھوں ہی اس کے دشمن کی پرورش فرمائی۔
دربہ بست و دشمن اندر خانہ بود
یعنی اس نے دروازہ بند کر لیا اور دشمن گھر کے اندر پرورش پا رہا تھا۔
حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے لکھا ہے کہ ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حق تعالیٰ نے ایسا حسین بنایا تھا کہ ہر شخص جو ان کو دیکھتا، ان پر محبت آجاتی تھی۔‘‘ قرآن کریم میں ارشاد ہے (مفہوم یہ ہے) ’’میں نے تجھ پر اپنی محبت ڈال دی ہے اور تجلی طور کے بعد تو یہ کیفیت ہوئی کہ کسی کو نگاہ بھر کر آپ کا چہرہ دیکھنے کی تاب نہ تھی۔‘‘ (مواعظ اشرفیہ۔ ج۔229-5)
اس تمہید کے بعد اس تحریر کا اصل مقصد بیان کرتا ہوں۔ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے درمیان ہونے والا دلچسپ مکالمہ، جو بہت سے نکات پر مشتمل ہے۔ یہ پورا مکالمہ حق تعالیٰ شانہٗ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے۔
فرعون دہری تھا
فرعون اصل میں دہری تھا۔ وہ کہتا تھا کہ خدا کوئی چیز نہیں، بس جو کوئی کسی کی تربیت کرتا ہے، وہی اس کا رب ہے۔ اولاد کو ماں باپ پالتے ہیں تو والدین ان کے رب ہیں۔ بادشاہ رعایا کی تربیت کرتا ہے، وہ رعایا کا رب ہے اور بادشاہ سب سے بڑا حاکم ہے تو وہ سب سے بڑا رب ہے اور میں چونکہ بہت تربیت کرنے والوں سے بڑا ہوں، اس لیے میں سب سے بڑا رب ہوں۔ ’’میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں۔‘‘ (القرآن) اس لیے وہ خدا ہی کا منکر تھا۔
مکالمہ فرعون و موسیٰؑ
فرعون کو جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعوت توحید دی تو اس نے کہا: رب العالمین کیا چیز ہے؟ اس نے ’’ما‘‘ کا لفظ اختیار کیا، جو عربی میں چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ من رب العالمین نہیں کہا کہ رب العالمین کون ہے۔ یعنی اس کم بخت کا خدا کا کنہ (ذات کی حقیقت) کے بارے میں سوال تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ منکر صانع تھا، یعنی خدا تعالیٰ کی تخلیق کا منکر تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس احمقانہ سوال کا جواب دیا۔ ’’خدا وہ ہے جو آسمان اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، سب کا تربیت کرنے والا ہے، اگر تم یقین کرو۔‘‘ علم باری تعالیٰ کے لیے اتنا جان لینا کافی ہے۔
آپؑ نے اس جواب میں یہ تنبیہہ کی کہ تمہارا سوال کنہ باری کے میں احمقانہ سوال ہے، کیونکہ ذات باری کی حقیقت اس کی مصنوعات ہی کے ذریعے معلوم ہو سکتی ہے۔ اگر ذات کی حقیقت کے ادراک کا امکان ہوتا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام حقیقت ہی سے جواب دیتے۔
فرعون یہ جواب سن کر تمسخر کے لہجے میں:
’’اپنے پاس والوں سے کہا: سنتے بھی ہو، کیسا جواب دیا۔‘‘ یعنی میں تو کنہ (حقیقت) کو پوچھتا ہوں اور یہ اسباب سے جواب دے رہے ہیں۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کے جواب میں بھی کنہ بیان نہیں کی، بلکہ ایک وجہ اور بیان کر دی۔ فرمایا:
’’خدا وہ ہے جو تمہارا رب ہے اور تمہارے گزشتہ باپ دادوں کا بھی رب ہے۔‘‘
عقلی دلائل
فرعون اس پر جھلا کر کہنے لگا کہ ’’اے لوگو! تمہاری طرف جو رسول بھیجا گیا ہے وہ تو دیوانہ ہے۔‘‘ میرا سوال کچھ ہے، ان کا جواب کچھ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ان جوابات سے ایک حقیقت تو یہ واضح ہوئی کہ کنہ باری کا
ادراک ممکن نہیں۔ دوسرے جو جوابات دیتے وہ وجود باری تعالیٰ کے ثبوت کے لیے بالکل کافی اور مشاہد تھے۔ پھر اس کے کہنے کے مطابق اگر تربیت کرنے والا ہی خدا ہوتا ہے تو بتائو کہ یہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان جو اشیا ہیں، ان کو کس نے پیدا کیا؟ ظاہر ہے تم نے تو ان چیزوں کو پیدا نہیں کیا؟ بتائو! آسمان میں سورج اور چاند، ستارے ہوا، پانی اور آگ وغیرہ اشیا کس نے پیدا کیں؟ تم ان کے خالق ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے، کیونکہ یہ چیزیں کسی کے تابع نہیں ہیں۔ (سوائے حق تعالیٰ کے) اور مخلوق کا خالق کے تابع ہونا ضروری ہے۔ جب ان کا کوئی رب نہیں اور کسی نہ کسی رب کا ہونا ضروری ہے، لہٰذا کوئی اور ہی ان کا رب ہو گا۔
اس کے علاوہ زمین جو کچھ اگاتی ہے۔ پھل ہیں، سبزیاں ہیں، درخت ہیں، غذائیں ہیں، جو کچھ تم کھاتے ہو، وہ کس نے پیدا کئے۔ اگر کہو کہ کاشتکار نے پیدا کئے تو کاشتکار نے تو صرف بیج ڈالا اور مٹی کو کرید کر پانی ڈال دیا۔ مٹی سے باہر نکلنے والی کونپل کہاں سے آگئی؟ اس میں کاشتکار کا کیا دخل ہے؟ اگر دخل مانتے ہو تو ہونا یہ چاہئے کہ جتنا وہ چاہے اتنا پھل پیدا ہوا کرے، حالانکہ اس کی مرضی کے مطابق پیداوار نہیں ہوتی۔ بلکہ بعض اوقات ساری زراعت سوکھ کر بے کار ہو جاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ کوئی اور ہستی ہے جس کے قبضے میں ساری چیزیں ہیں۔
اس جواب کے بعد فرعون کچھ لاجواب ہوا تو پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مذاق اڑانے لگا۔ حضرت موسیٰؑ نے اس سے مرعوب ہوئے بغیر فرمایا کہ
(1) ’’تم کہتے ہو کہ ماں باپ اولاد کے رب ہیں اور
بادشاہ رعایا کا رب ہوتا ہے تو ذرا یہ بتائو کہ ماں باپ کے مرنے کے بعد اولاد کیوں زندہ رہتی ہے۔ یہ عجیب تماشا ہے کہ رب تو مر جائے اور اس کے پیدا کئے ہوئے بندے زندہ رہیں۔ اسی طرح حاکم بھی مرتے رہتے ہیں، پھر رعایا کیوں زندہ رہتی ہے، اپنے رب کے مرتے ہی پوری رعایا کو بھی مر جانا چاہئے؟
(2) پھر اگر ماں باپ اولاد کے خالق ہیں تو سب سے پہلا باپ جو دنیا میں آیا۔ اس کا خالق کون تھا؟ اگر وہ خود اپنا خالق تھا تو مر کیوں گیا؟ اس نے اپنے آپ کو زندہ کیوں رکھا؟ کیونکہ اس کا وجود تو اس کے اختیار میں تھا، وہ اپنے وجود کو کیوں باقی نہ رکھ سکا۔ کیونکہ موت کسی کو پسند نہیں ہوتی، ہر شخص کو طبعاً اس سے کراہت ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ تمہارا اور تمہارے آبائو اجداد کا وجود تمہارے اور ان کے اختیار میں نہیں ہے، لہٰذا نہ یہ اپنے خالق ہو سکتے ہیں، نہ کسی غیر کے۔ تو معلوم ہوا کہ تمہارا اور تمہارے آبائو اجداد کا رب کوئی اور ہے۔ بس وہی رب العالمین ہے۔
(3) فرعون جب اس پر بھی لاجواب ہو گیا اور وہی مرغی کی ایک ٹانگ ہانکتا رہا کہ یہ تو بالکنہ کا جواب نہیں ہوا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تیسری وجہ اور بیان فرما دی۔ (قرآن میں حق تعالیٰ نے فرمایا)
’’(خدا وہ ہے) جو ہر مشرق اور ہر مغرب کی اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کی تربیت کرتا ہے۔ اس کی بھی اگر تم کو عقل ہو تو (اسی سے سمجھ لو)۔‘‘
کیونکہ سورج کے طلوع و غروب پر اور موسموں کی تبدیلیوں پر کسی انسان کو اختیار نہیں ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ گرمی کی تپش سے اور سردی کی جما دینے والی ٹھنڈک سے محفوظ رہے۔ پھر اگر تم اپنے آپ کو رب کہتے ہو تو ان موسموں کو، رات اور دن کے تغیرات کو کیوں نہیں روک سکتے؟ خدا تو وہ ہے جو کبھی نہ سوتا ہے، نہ کھاتا، پیتا ہے۔ تم پر نیند کیوں غالب ہو جاتی ہے؟ خدا تو کبھی مغلوب نہیں ہوتا۔ وہ تو ہر چیز پر اختیار اور قدرت رکھتا ہے۔ بس وہی رب العالمین ہے۔
(4) اب تک تو فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جوابات اپنی جھلاّہٹ کے باوجود غور سے سنتا رہا، لیکن اب غصہ اس پر غالب آرہا تھا۔ تو اس نے اپنی شاہی قوت سے کام لینا چاہا اور کہا:
بس بس زیادہ نہ بولو۔ ’’اگر میرے سوا کسی کو خدا بتائو گے تو میں تمہیں جیل خانے میں بھجوا دوں گا۔‘‘ (القرآن)
حضرت موسیٰ علیہ السلام یہاں بھی اس سے دبے نہیں، بلکہ فرمایا:
’’اگر میں کوئی صریح دلیل پیش کر دوں؟‘‘ (القرآن)
مطلب یہ کہ اگر میں کوئی ایسا عمل ظاہر کر دوں جس سے رب العالمین کی قدرت اور میری رسالت کا حق ہونا سب کے سامنے آجائے، تب بھی تو نہ مانے گا اور خواہ مخواہ اپنی بات پر اڑا رہے گا؟ اس کے بعد فرعون نے کہا: کہ اگر نبی ہو تو پھر اپنا کوئی معجزہ دکھلائو۔ آپؑ نے اپنے معجزے دکھلائے۔ اپنے عصا کو زمین پر ڈال دیا، وہ زندہ اژدھا بن گیا، جس کو دیکھ کر فرعون ڈر کر بھاگنے لگا، اسی سے اس کی ساری خدائی ڈھیلی ہو گئی۔
بعد کے واقعات: فرعونیوں پر طرح طرح کے عذاب کا آنا اور پھر آخر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اسی عصا کے ذریعے فرعون اور اس کے ساتھیوں کا غرق ہونا۔ یہ سب اکثر لوگ جانتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حق کی فتح اور فرعون کو باطل کی شکست ہوئی۔
قرآن کا اعلان ہے:
ترجمہ: ’’اے رسول کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو مٹنے ہی کے لیے ہے۔‘‘ (سورۃ الاسراء، آیت 81)
٭
٭٭٭٭٭
Next Post