ہائے یہ ماسیاں

0

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی

صبح سے یہ آٹھواں انٹرویو تھا جسے میں بھگتنانے جارہی تھی۔ سات ماسیاں مجھے Rejectکرکے جاچکی تھیں۔ کیونکہ ان کی رائے کے مطابق میرا گھر بڑا تھا۔ اس میں سامان زیادہ تھا۔ کارپٹ پر ویکیوم سے کمر میں درد ہوجاتا ہے۔ بلیچ اور فنائل کے پونچھے سے ہاتھوں میں الرجی ہو جاتی ہے۔ پونچھے کی بالٹی اٹھانے سے گردوں پر بوجھ پڑتا ہے، اس لئے یہ سب کام ماسیوں کے کرنے کے نہیں ہیں۔ میں تو یوں بھی ماسی رکھنے اور اپنے آپ کو ان کا پابند کرنے کی عادی نہیں تھی۔ مگر پچھلے مہینے ساس امی اچانک طوفانی دورے پر آئیں۔ میرے گھر وہ عام طور پر کم ہی آتی ہیں۔ اس سے یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خدانخواستہ میرے اور ان کے تعلقات خوشگوار نہیں۔
ماں جی دراصل اپنے بڑے بیٹے کے پاس امریکہ رہتی ہیں اور شروع سے وہیں رہنے کی عادی ہیں۔ پاکستان میں میرے چار دیور اور چار نندیں ہیں اور سب کے سب ماسیوں کے معاملے میں خود کفیل ہیں۔ مگر میں ذرا وکھری ٹائپ کی ہوں۔ اس لئے بہت صبح اٹھنے کی عادی ہوں۔ بچوں اور شوہر کو اسکول اور دفتر بھیج کر اپنے تمام گھریلو کام نمٹاکر ٹھیک دس بجے اپنے آفس پہنچ جاتی ہوں۔ میرے ساتھ خدا کے کرم سے مسئلہ ذرا کم ہوتا ہے، کیونکہ وقت کا اندازہ لگا کر اپنا ہر کام اسی حساب سے کرتی ہوں۔
ساس امی اس دفعہ جب پاکستان آئیں تو پہلے ایک ایک ہفتہ نندوںاور دیورانیوں کے پاس گزارا اور پھر امریکہ جاتے وقت وہ میری درخواست پر پندرہ دن میرے پاس رکیں۔ میری شدید درخواست اس لئے قبول کی کہ
بقول ان کے تم اتنی مصروف ہوتی ہو کہ تمہارے پاس فضول گوئی کی فرصت نہیں ہوتی اور میں تو فرصت کے لمحات گزارنے آئی ہوں، جب تک پورے خاندان کی کن سوئیاں نہ لوں، امریکہ جانا محال لگتا ہے۔ بھلا بندہ خالی فضول بیٹھ کر تمہارے گھر میں مکھیاں مارتا رہے۔ میں نے ان سے آفس سے ایک ہفتے چھٹی لینے کا وعدہ کیا۔ وہ میرے گھر آئیں۔ دو تین دن تو میرے روز مرہ کے کاموں کا جائزہ اور میری مصروفیت کا تماشا دیکھتی رہیں۔ چوتھے دن بولیں ’’ارے دلہن تم اپنے کاموں کے لئے ماسی کیوں نہیں رکھ لیتیں۔ آخر چھوٹی بڑی دلہن ماسیوں پر ہی پل رہی ہیں‘‘۔
میں نے حیرت سے انہیں دیکھا اور پونچھا لگاتے ہوئے کہا ’’امی مجھے خود کام کی عادت ہے، اس لئے میں ماسی پر نہیں پل سکتی‘‘۔ وہ بے ساختہ ہنس پڑیں۔ ’’ارے بٹیا یہاں تو عورتوں نے اپنے گھر ماسیوں پر چھوڑ رکھے ہیں اور خود لیٹ لیٹ کر جان بنا رہی ہیں‘‘۔
میں نے پونچھا فنائل کے پانی میں ڈبوتے ہوئے کہا ’’امی میرے پاس ماسیوں کے نخرے اٹھانے کی فرصت بھی تو نہیں ہے۔ عورتیں تو دن بھر گھروں میں رہتی ہیں۔ جس وقت ماسی کو سہولت ہوتی ہے، وہ آجاتی ہے۔ آپ اپنی مرضی کا کام اس سے نہیں لے سکتیں اور نہ اسے اپنی مرضی کا وقت دے سکتی ہیں۔ یہ تو اس کی مرضی ہے جب چاہے آئے۔ آئے نہ آئے۔ آپ دوسرے دن اس سے پوچھ نہیں سکتیں کہ کل کیوں نہیں آئی تھیں؟‘‘
وہ چیونگم منہ میں ڈالتے ہوئے بولیں ’’ہاں میں یہی رنگ سب گھروں میں دیکھتی ہوئی آئی ہوں۔ اس لئے تو تمہارے گھر میں یہ صفائی، نظم و ضبط اور سلیقہ اچھا نہیں لگا۔‘‘
میں مسکراتی ہوئی سنک میں رکھے ہوئے برتن دھونے لگی۔ وہ مجھ سے مسلسل اصرار کرتی رہیں۔ ’’بٹیا تم بہت تھک جاتی ہو۔ صبح سے شام تک مشین کی طرح مصروف رہتی ہو۔ شام کو آفس سے آکر بھی بچوں کو کھلانا پلانا، پڑھانا لکھانا پڑتا ہے۔ آئے گئے کی خاطر داری الگ۔ ان کے لئے الگ اہتمام کرتی ہو۔ میری مانو تو کسی ماسی کا انتظام کرہی لو‘‘۔
امی کے کہنے پر مجھے احساس ہوا کہ واقعی میں کیوں اتنا تھکتی ہوں؟ جبکہ میرے آس پاس، میرے خاندان کی تمام خواتین گھر میں رہتے ہوئے عیش کر رہی ہیں، جب چاہتی ہیں اٹھتی ہیں، جب چاہتی ہیں سوتی ہیں۔ بچوں کے اسکول جانے کے بعد سو جاتی ہیں۔ گیارہ بجے ماسی کے آنے پر گھبرا کر اٹھتی ہیں۔ خود ٹی وی دیکھنے بیٹھ جاتی ہیں، ماسیاں اپنے لئے ناشتے کے مرغن پراٹھے پکاتے ہوئے ایک پیالی چائے ان کو بھی بناکر دے دیتی ہیں۔ بچے اسکول سے آتے ہیں تو وہ رات کا بچا ہوا کھانا کھا کر
کارٹون میں لگ جاتے ہیں۔ مائیں ماسی کے جانے کے بعد خواتین کے رسالے پڑھنے کے لئے لیٹ جاتی ہیں۔ پڑھتے پڑھتے پھر جھپکی لگ جاتی ہے۔ مردوں کے دفتروں سے واپسی کا وقت قریب آتا ہے تو موبائل پر ان کی آمد کے وقت سے واقف ہونے کے بعد کھانے کی تیاری شروع ہوتی ہے۔ دن بھر کے آرام کے بعد چہرے پر تازگی ہوتی ہے۔ میک اپ کے بعد چہرہ اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔ شوہر کا مسکرا کر استقبال کرتی ہیں۔ بقول شوہروں کے دن بھر اسی مسکراہٹ کا تو انتظار انہیں گھر کھینچ لاتا ہے۔ کھانے کا ذائقہ کچھ بھی ہو۔ مسکرا مسکرا کر ڈشیں سامنے رکھنے سے یوں بھی ذائقہ کا پتہ نہیں چلتا۔ صرف سامنے والے کی شکل نظر آتی ہے۔
ایک میں ہوں سوکھی سڑک تھکی تھکی۔ ہر وقت کفایت شعاری اور سلیقہ کے چکر میں کبھی اپنا چہرہ دیکھنے کی بھی فرصت نہیں ہوتی۔ میں ایک اخبار کے دفتر میں ملازم ہوں۔ تنخواہ ٹھیک ٹھاک ہے۔ شوہر کی آمدنی گھریلو اخراجات اور میری تنخواہ گھر کے کرائے اور بچوں کی فیس میں خرچ ہو جاتی ہے۔ اچھے اسکولوں میں پڑھانا بھی آج کل بہت مشکل ہے۔
میں نے بڑی سنجیدگی سے ساس امی کے مشورے پر غور کیا اور دوسرے ہی دن آس پاس کے گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں کوبلا بھیجا ۔ پہلی ماسی نے سب سے پہلے مجھ سے سوال کیا ’’آپ کے میاں کیا کام کرتے ہیں؟ کتنے بچے ہیں؟ کھانے میں انہیں کیا پسند ہے؟ آپ کے گھر گوشت زیادہ پکتا ہے یا دال؟ آپ لوگ چاول کے عادی ہیں یا روٹی کے ؟‘‘
میں حیران پریشان اس کی شکل دیکھتی رہی۔ اس سے پہلے کہ میں اس کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کرتی اس نے اپنی ٹوکری میں سے تھرماس نکالی۔ اس میں سے ٹھنڈا پانی پیا اور بولی ’’بھئی صاف بات یہ ہے کہ ہم ان گھروں میں کام کرتے ہیں، جہاں بچے کم ہوں۔ چھوٹے بچے نہ ہوں۔ کیونکہ ان سے گھروں میں گندگی زیادہ ہوتی ہے تو محنت بھی زیادہ کرنا پڑتی ہے۔ چھوٹے بچے کپڑے بھی دن بھر بدلتے ہیں۔ مائوں کو تو پروا ہوتی نہیں ہے۔ وہ تو تسلہ بھر کے کپڑے رکھ دیتی ہیں۔ ہاتھ تو ہمارے ہی ٹوٹتے ہیں نا ؟‘‘
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بولتی، میری ساس امی نے میری مشکل آسان کردی اور اس کو چلتا کردیا۔ دوسری ماسی گردے کی مریضہ تھی، اس نے گھر میں گھستے ہی صوفے پر رکھا ہوا کشن اٹھاکر کمر کے نیچے رکھ لیا اور صوفے سے ٹیک لگاکر بولی ’’تھوڑی دور بھی چلتی ہوں تو گردوں میں درد ہونے لگتا ہے۔ پیاس بھی بہت لگتی ہے، ذرا ٹھنڈا پانی تو پلانا۔ تھوڑا سا لیموں بھی ڈال دینا پانی میں۔ صبح سے ڈکاریں رکی ہوئی ہیں۔‘‘
ساس امی نے اس کو بھی جواب دے دیا۔ تیسری ماسی بہترین لباس میں ملبوس تھی۔ دروازے میں داخل ہوکر سب سے پہلے اس نے تنقیدی نظر چاروں طرف ڈالی۔ پھر بولی ’’مہنگائی کا زمانہ ہے، تمہارا گھر بڑا ہے، جھاڑو پونچھا برتن کپڑے۔ دو ہزار روپے لوں گی۔ بولو دینا ہو تو کل سے آجائوں گی۔ وقت میں اپنی مرضی سے طے کروں گی‘‘۔
میں نے بے بسی سے ساس امی کو دیکھا۔ انہوں نے اشارے سے اس کو جانے کا حکم دے دیا اور میری جان میں جان آئی۔ چوتھی ماسی خوش شکل، خوش لباس اور تروتازہ تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے فیشل کراکے آرہی ہے۔ ابرو تراشیدہ۔ کریم کی خوشبو چہرے سے پھوٹ رہی تھی۔ اس نے آتے ہی کہا ’’میری ساس بیمار رہتی ہیں، میں کئی کئی دن چھٹی کرتی ہوں، لیکن چھٹیوں کے پیسے کوئی نہیں کاٹتا۔ بولو منظور ہے؟‘‘
میری ساس نے یہاں بھی میری مشکل آسان کر دی اور اس کو چلتا کردیا۔ پانچویں ماسی نے گھر میں گھستے ہی پہلے باورچی خانہ دیکھنے کا مطالبہ کیا۔ پھر بولی ’’تمہارا باورچی خانہ چھوٹا ہے اور اس میں گرمی بھی بہت ہے۔ میں برتن نہیں دھوئوں گی‘‘۔ ساس امی نے کہا ’’ہمیں تو سب کام کرانے ہیں۔ برتن جھاڑو پونچھا کپڑے۔‘‘ وہ ہونہہ کہہ کر تنک کر چلی گئی۔ جاتے جاتے کہہ گئی۔ میں بلڈ پریشر کی مریض ہوں۔ گرمی سے میرا بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے اور سر میںدرد ہونے لگتا ہے۔ باورچی خانے میں بڑا پنکھا لگوالو تو مجھے بلوالینا۔ میں برابر میں کام کرتی ہوں۔
چھٹی ماسی نے آتے ہی اطلاع دی کہ وہ السر کی مریض ہے۔ گیس کی بھی شکایت ہے۔ اکثر کمر میں درد رہتا ہے۔ اس لئے تھوڑی تھوڑی دیر بعد اسے کچھ نہ کچھ چائے کے ساتھ کھانا پڑتا ہے۔ اگر تم میرے مرض کو دیکھتے ہوئے میرے بسکٹ یا پراٹھے کا انتظام کرسکو تو ٹھیک ہے۔ میری ساس نے فوراً ہی منع کردیا۔ ساتویں ماسی نے تو گھر میں گھستے ہی بتا دیا کہ میں فنائل اور بلیچ یا کسی قسم کا صابن استعمال نہیں کروں گی۔ میرے ہاتھ میں الرجی ہوجاتی ہے۔ اگر سادے پانی کا پونچھا لگوانا ہے تو بتادو۔ کپڑے میں گن کر دھوئوں گی، نہ کم نہ زیادہ۔ برتن کے لئے ایسا پائوڈر دینا، جو زیادہ تیز نہ ہو، ورنہ ہاتھ ستیاناس ہو جائیں گے۔ بڑھیوں جیسے ہاتھ میرے میاں کو پسند نہیں۔
میری ساس حیرت سے اس کی شکل دیکھنے لگیں۔ اس مرتبہ میں نے اپنی مشکل خود آسان کر دی اور سختی سے کہا ’’میں تو فنائل اور بلیچ کا ہی پونچھا لگواتی ہوں اور صابن سے کپڑے دھلواتی ہوں۔ اگر کام کرنا ہے تو بتائو، ورنہ چلتی پھرتی نظر آئو‘‘۔ وہ تنک کر کمر لہرا کر بڑبڑاتی ہوئی چلی گئی۔
آٹھویں ماسی کو تو دیکھ کر میں خوفزدہ ہوگئی۔ میرا جیسی ادائیں، ریما جیسے لہجے میں انگریزی بولتی ہوئی انتہائی تروتازہ چہرے والی ماسی۔ میں نے بڑی مشکل سے خود پر قابو پاتے ہوئے اسے جواب دیا۔ اس کے جانے کے بعد ساس امی کو دیکھا، جو میرے شانے تھامے جیسے مجھے تسلی دے رہی تھیں۔ ’’کوئی بات نہیں، تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سلی‘‘۔ اور میں سوچ رہی تھی کہ خود کو صحت مند اور تندرست رکھنے کے لئے یہ ضروری تو نہیں کہ ہم ماسیوں کے رحم و کرم پر زندگی گزاریں۔ گھریلو مصروفیت کے ساتھ اگر اپنے لئے بھی تھوڑا سا وقت نکال لیں تو کیا برا ہے۔ مہنگائی کے اس آسیب کو کیا خواتین سلیقہ اور کفایت سے بھگا نہیں سکتیں۔ ماسیوں کے نخرے، ادائیں برداشت کرنا کم از کم میرے لئے تو ناممکن ہے۔ میں تو یہ سب افورڈ نہیں کرسکتی۔٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More