میئر کراچی تاجروں کو رام کرنے میں مسلسل ناکام

0

محمد علی اظہر
کھوڑی گارڈن اور آرام باغ میں مسمار کی گئی مارکیٹوں کے تاجروں نے بھی میئر کراچی کی جانب سے اعلان کردہ متبادل جگہ لینے سے انکار کر دیا۔ جبکہ جناح مارکیٹ کے تاجروں نے بھی نئی الاٹ کی گئی دکانوں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ تینوں مارکیٹوں کے عہدیداران اور تاجروں کا موقف ہے کہ انہیں ایسے علاقوں میں دکانوں کے نام پر خالی زمین دی جا رہی ہے، جہاں جرائم پیشہ عناصر سرگرم ہیں اور جگہ بھی چھوٹی ہے، جس کے باعث کاروبار کرنا ممکن نہیں۔ واضح رہے کہ تینوں مارکیٹوں میں مسمار کی گئی دکانوں کی تعداد 402 ہے۔ ان کی جگہ کھوڑی گارڈن اور معراج مارکیٹ کے متاثرین کو پی آئی ڈی سی نالے کے ساتھ پلاٹ دے کر ’’مہربانی‘‘ کی گئی ہے۔ جبکہ جناح مارکیٹ کے تاجروں کو کھپانے کیلئے سولجر بازار کے ایک پارک کا انتخاب کیا گیا ہے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ تاجروں کی کشادہ دکانوں کے بدلے انہیں تنگ اور انتہائی چھوٹی دکانوں کی پیشکش کی گئی ہے، جسے کاروباری حضرات نے مسترد کردیا ہے۔
’’امت‘‘ سے گفتگو میں آرام باغ تاجر اتحاد کے چیئرمین حافظ سید کلیم الدین کا کہنا تھا کہ ’’معراج مارکیٹ کے متاثرین کو ایسی جگہ نہیں چاہیئے جو نالے کے ساتھ ہے۔ ہماری 176 دکانیں آرام باغ پارک کے باہر اور اطراف واقع تھیں، جنہیں محض چند گھنٹوں کے نوٹس پر گرا دیا گیا۔ حالانکہ ہمیں 1992ء میں ریگولائز کیا گیا تھا اور باقاعدہ الاٹمنٹ لیٹر بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ 176 میں سے تقریباً 100 دکانیں الیکٹرک کی تھیں، جہاں ہزاروں لڑکے ریپئرنگ اور وائنڈنگ وغیرہ کا کام کرتے تھے، وہ سب بے روزگار ہوگئے ہیں۔ اب ہمیں پی آئی ڈی سی نالے پر 4×6 سائز کی جگہ دی گئی ہے، جہاں دکان کی تعمیر الگ جھنجھٹ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہاں کاروبار نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ علاقہ محفوظ نہیں ہے۔ تاجروں کو فکر رہے گی کہ رات کو ان کا سامان چوری نہ ہوجائے۔ دوسری
جانب آرام باغ پارک کے اندر اب بھی ایک غیر قانونی عمارت موجود ہے، جسے توڑا نہیں گیا۔ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پارک میں 10×10 کا کمرہ بنانے کی اجازت ہے، مگر آرام باغ پارک میں اس کے علاوہ ایک اور بلڈنگ بنی ہوئی ہے، جو کینٹین کے طور پر بنائی گئی تھی۔ یہ بلڈنگ آج بھی موجود ہے۔ اسے مسمار کیوں نہیں کیا گیا؟ یہ اندھا قانون ہے۔ ہم نے دو ماہ پہلے میئر کراچی کو خط لکھ کر اپنے مسائل سے آگاہ کیا تھا اور ملاقات کیلئے وقت مانگا تھا۔ روزانہ یاد دہانی بھی کراتے ہیں، لیکن کوئی سننے والا نہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمیں عمر فاروق مارکیٹ کے پاس جگہ دی جائے۔‘‘
معراج مارکیٹ کے ایک تاجر محمد ایوب بھی متاثرین میں شامل ہیں۔ پنکھوں کا کام کرنے والے محمد ایوب نے بتایا کہ ’’پی آئی ڈی سی نالے والی جگہ کاروبار کیلئے مناسب نہیں ہے۔ ہمیں 4×4 کی دکانیں دی جا رہی ہیں، جبکہ ہماری مسمار شدہ دکانوں کا سائز 4×8 تھا۔ 4×4 سائز کی دکانوں میں ہم اپنا کاؤنٹر رکھیں گے یا کام کریں گے؟ ہمیں فرنیچر مارکیٹ کے ساتھ ہی دکانیں دی جا رہی ہیں، جو ہمیں نہیں چاہئیں، ہمیں ہماری الیکٹرک کی مارکیٹ میں ہی دکانیں دی جائیں۔‘‘ ریحان صغیر نے کہا کہ ’’معراج مارکیٹ میں میری دو دکانیں تھیں، چلتا ہوا کام چند گھنٹوں میں ختم کر دیا گیا۔ پی آئی ڈی سی نالے پر جگہ کی خبر ملنے پر ہم نے پہلے ہی وہاں منتقل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔‘‘ ایک اور تاجر محمد عرفان نے بتایا کہ ’’فی الحال کچھ دکانداروں کو ان کے ان کے مارکیٹ کے مخلص ساتھیوں نے ہی جگہ دی ہے تاکہ ان کا کام نہ رُکے۔‘‘
انجمن تاجران کھوڑی گارڈن کے صدر شوکت ابراہیم کا کہنا تھا کہ ’’میئر اپنا وعدہ بھول گئے ہیں۔ میئر کراچی کا وعدہ تھا کہ جن کی دکانیں توڑی گئی ہیں کہ ان کو قریب میں ہی نئی جگہ دی جائے گی، جو پورا نہیں ہوسکا۔ نومبر میں کھوڑی گارڈن پارک کے اطراف واقع ہماری 129 دکانیں مسمار کی گئی تھیں۔ ان کے نعم البدل کے طور پر پی آئی ڈی سی نالے پر جو جگہ دی جا رہی ہے اس کا ہماری مارکیٹ سے کوئی مقابلہ نہیں ہے، بلکہ وہ کوڑیوں کے دام ہے۔ یہی نہیں، 129 کے بجائے 127 دکانوں کی بیلٹنگ کی گئی ہے۔ دراصل سلطان آباد کے قریب واقع یہ جگہ ہمارے کسی کام کی نہیں۔ ہم مارکیٹ میں بیٹھ کر کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے بہت سی جگہوں کی طرف شہری انتظامیہ کی توجہ مبذول کرائی۔ لیکن نشاندہی کی باوجود ہمیں ایک نالے کا راستہ دکھا دیا گیا، جو غیر قانونی ہے۔ دکانیں مسمار کئے جانے کے بعد میئر کراچی کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ہم آپ کا مسئلہ دو روز میں حل کریں گے لیکن اب اس بات کو بھی تین مہینے گزر گئے ہیں۔‘‘
آرام باغ پر واقع جناح مارکیٹ کے جوائنٹ سیکریٹری محمد نعیم خان نے بتایا کہ ’’یہاں 1948 سے ہماری دکانیں قائم تھیں۔ اس لحاظ سے یہ ملک کی سب سے پرانی مارکیٹ ہے۔ 2003ء میں ہمیں ریگولائز کیا گیا اور اس کے فوری بعد ہم سے 2017ء تک کا کرایہ بھی وصول کیا گیا۔ لیکن نوٹس دیئے بغیر ہی ہماری دکانوں کو مسمار کر دیا گیا۔ گزشتہ برس 9 نومبر کو اینٹی انکروچمنٹ کے بشیر صدیقی کی نگرانی میں آنے والی ٹیم نے ہمارے تاجروں کو 3 گھنٹے کا نوٹس دیا۔ اس موقع پر ہم نے کے ایم سی حکام اور دیگر سے درخواست کی کہ چونکہ اگلے روز 12 ربیع الاول ہے، اس لئے ہمیں کچھ مہلت دی جائے، مگر ہماری ایک نہ سنی گئی۔ اگر کسی کرائے دار سے بھی گھر خالی کرایا جاتا ہے تو ایک دو مہینے کی مہلت دی جاتی ہے۔ جناح مارکیٹ کی کُل 100 دکانیں تھیں، جنہیں کچھ ہی گھنٹوں میں مسمار کر دیا گیا۔ 100 میں سے 53 فوٹو فریمنگ کی دکانیں محمد بن قاسم روڈ، جبکہ کپڑوں، پیکو اور رنگائی والے تاجروں کی 47 دکانیں رابسن روڈ اور روپ چند بیلا رام روڈ کی پٹی پر قائم تھیں۔ اب ہمیں 8’x8′ سائز کی دکانوں کے بدلے سولجر بازار میں جگہ دی گئی ہیں، جو ایک پارک کے اندر ہے۔ یہ دکانیں 4×6 سائز کی ہیں، جو ہماری دکانوں کا آدھا بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اس جگہ پر تحفظات ہیں۔ اس حوالے سے ہم نے میئر کو درخواست بھی لکھی ہے لیکن وہ ملاقات کا وقت نہیں دے رہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ جو دکانیں مسمار کی گئی ہیں اسی سائز کی دکانیں دی جائیں۔ سولجر بازار کے پارک میں اگر 8’x8′ کی جگہ الاٹ کی جائے گی تو مارکیٹ کا اندرونی حصہ کم پڑجائے گا۔ لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمیں شہاب الدین مارکیٹ، پارکنگ پلازہ یا ایکسپریس وے پر دکانوں کیلئے پلاٹ دیا جائے، جو کاروبار کرنے کیلئے مناسب بھی ہے۔‘‘
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More