اسلامی ریاست کا اہم قدم: فحاشی کی روک تھام (حصہ اول)

0

مسلم معاشرہ پاکیزہ اور خرابیوں سے پاک معاشرہ ہوتا ہے۔ اس لئے اس معاشرے میں تمام معاملات کی بنیاد حسن طن پر ہونا چاہئے۔ سوء ظن صرف اس حالت میں جائز ہے، جبکہ اس کے لئے کوئی واضح ثبوت اور ایجابی بنیاد ہو۔ ہر شخص کو بے گناہ تصور کیا جانا چاہئے۔ جب تک کہ اس کے مجرم ہونے یا اس پر جرم کا شبہ کرنے کا کوئی معقول اور واضح ثبوت نہ ہو اور ہر مسلمان کو اس وقت تک سچا سمجھنا چاہیے جب کہ اس کے بے اعتباری کی کوئی دلیل نہ ہو۔ جو لوگ مسلم معاشرے میں بداخلاقی پھیلانے اور امت مسلمہ کے اخلاق پر دھبہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں ان کو سزا دینا لازمی ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ بداخلاقی کی ترغیب دینے والے، اس کے لیے جذبات کو اکسانے والے قصوں، بدکاری کے اڈے چلانے والوں اور برہنہ تصاویر، گانوں اور جنسی جذبات کو ابھارنے والے ہر عمل پر سزا دے۔ وہ کلب یا ہوٹل اور دوسرے ادارے بھی ان کی زد میں آجاتے ہیں جن میں مخلوط رقص اور مخلوط تفریحات کا انتظام کیا جاتا ہے۔ یہ سب لوگ مجرم ہیں اور نہ صرف آخرت میں، بلکہ دنیا میں بھی انہیں سخت سزا ملنی چاہئے۔ لہٰذا اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ اشاعت فحش کے ان تمام ذرائع اور وسائل کا سدباب کرے۔ قانون تعزیرات میں ان تمام افعال کو مستلزم سزا، قابل دست درازی پولیس ہونا چاہئے۔ جن کو قرآن میں جرائم کہا گیا ہے اور ان کے ارتکاب کرنے والے سزا کے مستحق ہیں۔ کیوں کہ اس طرح کی ایک ایک حرکت کے اثرات معاشرے میں کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں۔ بے شمار افراد کو متاثر کرتے ہیں اور مجموعی طور پر ان کا کس قدر نقصان اجتماعی زندگی کو اٹھانا پڑتا ہے۔ شیطان مسلمانوں کو برائیوں کی نجاستوں میں آلودہ کرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ کسی لمحے ذرا سی کمزوری انسان کو اس کے شکنجے میں کسنے کے لئے تیار رہتی ہے۔ خدا کا فضل اور رحمت ہی اسے شیطان سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا ان سات کبیرہ گناہوں میں سے ہے جو ’’تباہ کن ہیں‘‘ حضرت حذیفہؓ کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ایک پاک دامن عورت پر تہمت لگانا سو برس کے اعمال کو غارت کردینے کے لئے کافی ہے۔ ’’خدا تعالی نے خبیث عورتوں کے لئے خبیث مرد اور خبیث مردوں کے لیے خبیث عورتیں بنائی ہیں۔ پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے ہیں۔‘‘ (القرآن) فحاشی اور بدکاری کے سدباب کے لئے سب سے اہم چیز عورت کا پردہ ہوتا ہے۔ ہر شخص بلا تکلیف دوسرے کے گھر میں بلا اجازت گھستا نہ چلا جائے۔ اجنبی عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کی دید سے اور آزادانہ میل جول سے روکا جائے۔ عورتوں کو محرموں کے سوا غیر محرموں کے سامنے زیب و زینت کے ساتھ آنے سے منع کیا جائے۔ قحبہ گری کا سختی سے انسداد کیا جائے۔ مردوں اور عورتوں کو مجرد نہ رہنے دیا جائے۔ عورتوں کی بے پردگی اور معاشرے میں بکثرت لوگوں کو کنوارا رہنا مناسب نہیں۔ اس اجتماعی ماحول میں ایک غیر محسوس شہوانیت ہر وقت جاری و ساری رہتی ہے اور اسی شیطانی جذبے سے مغلوب ہوکر لوگوں کی آنکھ، کان، زبانیں، دل سب کے سب کسی نہ کسی فتنے کو پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔ شریعت اسلامی اس کی سزا مقرر کردینے پر اکتفا نہیں کرتی، بلکہ وہ اسباب کا سد باب کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ جو کسی شخص کو اس برائی میں مبتلا ہونے پر اکساتے ہیں، یعنی شریعت جرم کے ساتھ اسباب جرم، محرکات جرم اور وسائل جرم، ذرائع جرم پر بھی پابندیاں لگاتی ہیں، تاکہ آدمی کو جرم کی حد تک پہنچنے سے کافی پہلے ہی روک دیا جائے۔ شریعت صرف محتسب نہیں، بلکہ وہ ہمدردی، مصلح اور مددگار بھی ہے۔ اس لئے وہ تمام تعلیمی، اخلاقی اور معاشرتی تدابیر اس غرض کے لئے استعمال کرتی ہے کہ لوگوں کو برائیوں سے بچنے میں مدد کی جائے۔ اس لئے کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے صاحب خانہ کی اجازت لینا ضروری ہے۔ اس کے لئے کسی دوسرے کے گھر میں جھانکنا، دوسرے کا خط بغیر اجازت پڑھنا بھی ممنوع ہے۔ ہزیل بن شرحبیلؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرمؐ کے ہاں حاضر ہوا اور عین دروازے کے سامنے کھڑے ہوکر اجازت مانگنے لگا۔ آپؐ نے فرمایا ’’پرے ہٹ کر کھڑے ہو، اجازت مانگنے کا حکم اس لئے ہے کہ نگاہ نہ پڑے۔‘‘ (ابوداؤد)
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More