’’بھارت کے پاس دوسرا راستہ نہیں ہے‘‘

0

پلوامہ حملہ کے بعد جس میں بھارت کے 44 فوجی موت کی گھاٹ اتر گئے، ہمیشہ کی طرح بھارت نے بغیر ثبوت کے اس حملے کے ذمہ داری پاکستان پر لگا دی، حالانکہ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ اگر بھارت کے پاس کوئی ثبوت ہیں جس سے ثابت ہو کہ اس حملے میں کوئی پاکستانی ملوث ہے تو حکومت اس کے خلاف بھرپور ایکشن لے گی۔ پاکستان اور بھارت میں بڑھتی ہوئی کشیدگی دیکھتے ہوئے امریکا، روس، چین، سعودی عرب کے علاوہ اقوام متحدہ نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ بھارت اور پاکستان مل بیٹھ کر اس بڑھتی ہوئی کشیدگی پر قابو پائیں۔ جس طرح گزشتہ چند برسوں سے بھارتی فورسز نے کشمیریوں کی نسل کشی تیز کی ہے اور قتل عام کا سلسلہ دراز ہو رہا ہے، اس نے ہر ایک کشمیری کو بھارت سے مزید متنفر کر دیا ہے اس جدوجہد میں مزید نوجوان شامل ہو رہے ہیں۔ طلبا اپنی تعلیم نامکمل چھوڑ کر عسکریت کی طرف آرہے ہیں۔ اس میں کسی سوجھ بوجھ یا شعور کا کوئی تعلق نہیں، کیوں کہ لاتعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی بندوق اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ درجنوں پی ایچ ڈی اسکالر، اپنے مستقبل سے بے نیاز ہوکر اس میں شامل ہوئے اور شہادت پائی۔ عادل احمد ڈار بھی بارہویں جماعت میں زیر تعلیم تھا۔ فدائی حملہ کوئی آسان مشن نہیں۔ اپنی جان دینا معمولی کام نہیں۔ ایک ایسا نوجوان جس کے سامنے زندگی پڑی ہو، وہ اپنے آپ کو کیسے قربان کرتا ہے۔ اس کی ذہن سازی کسی تنظیم نے نہیں، بلکہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی نے کی ہے۔ کشمیریون کو بھارت نے جوق در جوق بندوق اٹھانے پر مجبور کیا، اگرچہ اقوام متحدہ بھی بندوق اٹھانے کی اجازت دیتا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 3 دسمبر 1982ء میں صاف طور پر بیرونی قبضے کے خلاف آزادی کی جنگ میں مسلح جدوجہد سیمت تمام دستیاب وسائل کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے۔ بھارت نے بھی کشمیر پر جبری قبضہ کر رکھا ہے۔ اس قبضے کو ختم کرنے کے لئے اقوام متحدہ میں بھارتی حکمرانوں نے وعدے کئے۔ سلامتی کونسل کی قراردادیں بھی موجود ہیں۔ لیکن بھارت نے کشمیر میں رائے شماری کرانے کے وعدوں کو پورا نہ کیا۔ بلکہ تحریک میں شامل ہونے والوں کا قتل عام کیا گیا۔ ان کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سینکڑوں نوجوان کو تشدد کے دوران شہید اور معذور کیا گیا۔ گزشتہ برس سینکڑوں نوجوانوں اور بچوں و خواتین تک کو پیلٹ فائرنگ سے بینائی سے محروم کیا گیا۔ کشمیریوں کی بینائی چیھن کر بھارت کس امن اور ترقی کی امید رکھتا ہے؟ کشمیریوں پر گولہ باری کرنے والی فورسز پر کشمیری کیسے گل پاشی کر سکتے ہیں؟ کشمیریوں نے سمجھ لیا ہے کہ بھارت صرف گولی کی زبان سمجھتا ہے۔ مگر کشمیریوں کی گولی ہی نہیں، بلکہ کنکریوں کو بھی بھارت پاکستان کے کھاتے ڈال دیتا ہے۔ حقائق سے جان چھڑا کر بھارت نے دنیا کو بھی اور اپنے عوام کو گمراہ کیا۔ کشمیریوں کے ساتھ دھوکہ دہی کی گئی۔ کشمیر کو عالمی مسئلے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان دوطرفہ مسئلہ بنا کر پیش کیا گیا۔ کشمیریوں کو اپنی مرضی کے فیصلے اختیار دینا تو کجا، اس فیصلے میں شامل تک نہ کیا گیا۔ اس سے بڑی ناانصافی اور کیا ہو سکتی ہے؟
جب آج کا نوجوان اپنے سامنے اپنے والد، بھائی کو قتل ہوئے دیکھتا ہے۔ اپنی ماں بہن کو تذلیل دیکھتا ہے، اپنے لئے تعصب اور امتیازی سلوک دیکھتا ہے تو اس سے بھی انتقام کا جذبہ فطری طور پر بیدار ہو جاتا ہے۔ وہ سب کچھ چھوڑ کر اپنی جان کی پروا کئے بغیر انتقام کے راستے پر گامزن ہوجاتا ہے۔ کشمیریوں کی سوچ پختہ ہو چکی ہے کہ انہوں نے بھارت سے آزادی لینی ہے۔ بیرونی قبضے کو ختم کرنا ہے۔ بھارت طاقت اور تشدد آزما کر تحریک کو ختم کرنا چاہتا ہے، مگر وہ آزادی کے جذبے کو کچل نہیں سکتا۔ اس میں اسے ناکامی ہوئی اور آئندہ بھی ناکامی ہی ہوگی۔ کشمیری اب تنگ آمد بجنگ آمد کے تحت میدان میں ہیں۔ دنیا کی حالت دیکھ کر اور جس طرح افغان قوم نے پہلے سویت یونین اور اب نیٹو افواج کو شکست فاش سے دوچار کیا، اس نے کشمیر کو بھی اس طرف مائل کیا ہے کہ بیرونی قبضے مسلسل جدوجہد سے ختم ہو سکتے ہیں۔
عادل ڈار کا بھارت کو اپنی جان دے کر فدائی حملے سے یہی پیغام ہے کہ وہ کشمیری نوجوان کی اس قربانی کو سمجھے کہ ان کے عزائم کیا ہیں۔ کشمیر سرنڈر یا کسی سمجھوتے پر آمادہ نہیں۔ بھارت کو کسی بھی صورت میں واپس جانا ہوگا۔ بھارتی درندوں پر حملہ کرنے والا عادل احمد ڈار عرف کمانڈر وقاص مقبوضہ کشمیر کا پیدائشی اور رہائشی تھا۔ اس کے والد غلام حسین نے ایک موقع پر کہا کہ عادل احمد ڈار ایک عام سا بچہ تھا، لیکن 2016ء میں اسکول سے واپس آتے ہوئے بھارتی فوج نے اسے اور اس کے ساتھی طالب علموں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کی سخت بے عزتی کی، تب سے عادل ہر بھارتی فوجی سے شدید نفرت کرنے لگ گیا تھا۔
فدائی عادل کے والدین کے اس بیان کے بعد تو نریندر مودی کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق بار بار پاکستان پر حملہ کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ مقبوضہ کشمیر پاکستان کے زیر انتظام ہے؟ کیا کبھی پاکستان نے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیا ہے؟ جب مقبوضہ کشمیر بھارت کے زیر قبضہ ہے۔ بھارت ہی چلا چلا کر کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور بھارت کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے کشمیر پر سخت ترین سیکورٹی انتظامات کر رکھے ہیں۔ بھارت کی تقریباً 8 لاکھ فوج کشمری کے ہر کونے کوچے پر قابض ہے، اس کے باوجود بھی اگر مقبوضہ کشمیر میں جیش محمد جیسی طاقتور تنظیم کے عادل ڈار جیسے جان دینے والے موجود تھے تو اس میں پاکستان کا کیا قصور ہے؟ جب مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے بھارت اور اس کی فوج کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جب کشمیر کے بچے، بوڑھے، جوان، مرد اور عورتیں بھارت کے زیر تسلط رہنے کے لئے کسی بھی صورت تیار نہیں تو پھر بھارتی فوج انہیں بندوقوں کے سائے تلے رکھنے کے حق میں کیوں ہے؟ حال ہی میں بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت نے اپنی فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ پتھر کا جواب گولی سے دیں۔ بھارتی چیف نے یہ حکم دے کر بھارتی فوج کے خلاف سازش کی ہے۔ اگر بھارتی فوج نے کشمیریوں کو نہتا سمجھ کر پتھر کا جواب گولی سے دیا تو یہ ڈریں اس دن سے جب کشمیری گولی کا جواب فدائی حملوں کی شکل میں دینا شروع کردیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارتی مظالم سے تنگ آئے ہوئے کشمیری نوجوان زندگی پر موت کو ترجیح دینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ 70 برسوں سے بھارت نہتے کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ نوجوان، بچے، بوڑھے اور عورتیں سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانگ رہا ہے۔ کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگی کیے ہوئے ہے۔ بھارتی فوج ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کر چکی ہے۔ لاکھوں زخمی اور ہزاروں اپاہج ہوگئے ہیں۔ بے پناہ اور خوفناک بھارتی مظالم کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اب کشمیر کے نوجوان فدائی کارروائیوں کی جانب مائل ہوئے ہیں۔ بھارتی فوج تو سویلین آبادی کو نشانہ بناتی ہے، لیکن اس کے برعکس عادل ڈار جیسے فدائیں مظلوم ہونے کے باوجود اپنے ہوش و حواس قائم رکھتے ہیں اور ردعمل میں عام ہندوؤں پر حملہ آور ہونے کے بجائے اپنی کارروائیوں کا نشانہ ظالم بھارتی فوج کو ہی بناتے ہیں۔
اگر بھارت اپنے فوجیوں کی خیر چاہتا ہے، فدائی حملوں جیسی تباہ کن کارروائیوں سے بچنا چاہتا ہے تو وہ فوری طور پر مقبوضہ کشمیر سے اپنی فوج واپس بلوانے کا اعلان کرے اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل کرتے ہوئے کشمیریوں کو ان کا حق آزادی دے۔ بھارت کے پاس اس حل کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت ان حالات میں امن کے راستے پر چلنے کو ترجیح دے گا یا جنگ کے؟ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More