ناچ نہ جانوں آنگن ٹیڑھا

0

ستائیسفروری 2019ء کو پاکستان ائیر فورس کی جانب سے دو بھارتی طیاروں کی تباہی کے بعد بھارتی حکومت اور ائیر فورس اپنے حواس کھو چکی ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ انڈین ایئر فورس کی جانب سے ایسے دعوے کئے جا رہے ہیں، جن کا حقیقت سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ اول تو انڈین ائیر فورس جو سات سو سے زائد جنگی طیاروں کی حامل ہے، امریکہ سے اس بات کی شکایت کرتی نظر آرہی ہے کہ پاکستان نے بھارت کے خلاف غیر قانونی طور پر ایف 16 طیارے استعمال کئے جو امریکہ نے پاکستان کو صرف اور صرف دہشت گردوں کے خلاف استعمال کرنے کیلئے فراہم کئے تھے، گویا انڈین ائیرفورس نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان ائیرفورس کے امریکی ایف 16 طیاروں کا سامنا کرنے کی ہمت اور حوصلہ نہیں رکھتی اور یہ حقیقت بھی ہے۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے موجودہ حالات میں اپنے ایف 16 طیارے ابھی تک استعمال نہیں کئے، جن کا اعلان آئی ایس پی آر کے جنرل آصف غفور واضح طور پر کر چکے ہیں۔ کیوں کہ موجودہ حالات میں یہ بہترین موقع تھا کہ پاکستان اپنے 17۔JF تھنڈر طیاروں کو حقیقی جنگی ماحول میں آزما کر ان کی صلاحیتوں کو چیک کرے اور پاکستان نے ایسا ہی کیا۔ بلاشبہ پاکستانی تھنڈر طیاروں نے اب یہ ثابت بھی کر دیا کہ وہ بہترین صلاحیتوں کے حامل ہیں، کیوں کہ27 فروری کو پاکستان پر جارحیت کا ارتکاب کرنے والے بھارت کے دو طیاروں میں سے ایک انڈین ائیر فورس کا فخر کہلانے والا روسی ساختہ اسٹیٹ آف دی آرٹ 30 mki۔SU بھی تھا، جو پاکستانی تھنڈر طیارے کے ہاتھوں تباہ ہونے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں گرا تھا۔ واضح رہے کہ ان روسی طیاروں کو air superiority fighter کہا جاتا ہے۔
انڈین ائیر فورس اپنی نا اہلی کو چھپانے کی غرض سے پاکستان کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا بھی کر رہی ہے۔ اس نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ 27 فروری کو انڈین ائیر فورس نے ایک پاکستانی ایف 16 طیارے کو بھی نشانہ بنایا تھا جو پاکستانی علاقے میں گرا، مگر وہ اس بات کا کوئی بھی واضح ثبوت نہ دے سکے۔ بھارت کے اس جھوٹے دعوے کے بعد ایف 16 بنانے والی امریکی کمپنی لاک بیڈ مارٹن نے اس جھوٹے دعوے پر بھارت کے خلاف مقدمہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لاک بیڈ مارٹن کے مطابق پاکستان کے پاس زیر استعمال تمام ایف 16 طیارے گنتی میں پورے اور محفوظ حالت میں ہیں۔ لاک بیڈ مارٹن کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ اس نے بھارت کے خلاف مقدمہ کرنے کا فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ بھارتی دعوے نے ایف 16 طیارے کی ساکھ کو نقصان پہنچایا اور اس کی عالمی ساکھ کو جانتے بوجھتے داؤ پہ لگانے کی کوشش کی گئی۔
انڈین ائیر فورس کے اس دعوے کو ایک برطانوی ویب سائٹ نے ثبوتوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ویب سائٹ کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ بھارت نے طیارے کے جس ملبے کو پاکستانی ایف 16 طیارے کا ملبہ بتایا ہے، وہ دراصل بھارتی ائیر فورس کے مگ 21 طیارے کا ملبہ ہے، کیوں کہ طیارے کے تھرموکپل پر cu کے الفاظ نمایاں نظر آرہے ہیں، جو انڈین ائیر فورس کے graded۔up مگ 21 قسم کے طیاروں پر تحریر کئے جاتے ہیں۔ برطانوی ویب سائٹ کے مطابق ملبے میں طیارے کے انجن کی تصویر سے دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ انجن دراصل مگ 21 طیارے کا ہے، جو امریکی ایف 16 میں نصب انجن سے بہت مختلف ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اپنے ایک بیان میں انڈین ائیر فورس کی نا اہلی کا اعتراف کرلیا۔ انہوں نے کہا کہ آج اگر بھارت کے پاس فرانسیسی رافیل طیارے ہوتے تو صورت حال مختلف ہوتی، لیکن نریندر مودی یہ بھول گئے کہ کسی بھی جدید ترین طیارے کے مؤثر استعمال کرنے کے لئے اصل کردار اس کے ہوا باز کا ہوتا ہے، چنانچہ جو ائیرفورس اسٹیٹ آف دی آرٹ 30۔su طیارہ درست طور پر استعمال کرنے کی صلاحیت نہ رکھتی ہو، وہ رافیل کو کیا استعمال کرے گی؟ انڈین ائیر فورس کی صلاحیتوں کے بارے میں بلند و بانگ دعوے کئے جاتے ہیں، لیکن پاکستان سے ہونے والی تینوں بڑی جنگوں اور پھر 1999ء کی کارگل جنگ کے دوران انڈین ائیرفورس کی بدترین کارکردگی تاریخ کا حصہ ہے۔ انڈین ائیرفورس کی خستہ حالی بھارتی دفاعی منصوبہ سازوں کیلئے ایک بڑی وجہ تشویش ہے، جو اپنے دعوؤں میں کہتے ہیں کہ انڈین ائیر فورس بیک وقت دو فرنٹ کی جنگ لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن اصل میں انڈین ائیر فورس ایک فرنٹ کی جنگ لڑنے کی بھی اہل نہیں۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پاکستان ائیر فورس اپنے طیارے کسی جنگ میں بھارت کے خلاف استعمال نہیں کرسکتی تو یہ ایک غلط تصور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ائیر فورس اپنے ایف 16 طیارے کسی بھی مشن یا کسی بھی دشمن کے خلاف استعمال کر سکتی ہے۔ پاکستان کو جس ملک سے بھی خطرہ ہوگا، وہ اس کے خلاف ایف 16 طیارے استعمال کرے گا۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایف 16 طیاروں کی فروخت کے حوالے سے کئے جانے والے معاہدوں میں اس قسم کی کوئی شق سرے سے موجود ہی نہیں ہے، جو ان طیاروں کے استعمال پر قدغن عائد کرتی ہو۔ جہاں تک دہشت گردی کے خلاف ایف 16 طیاروں کے استعمال ہونے کا تعلق ہے تو یقینا امریکہ نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کیلئے پاکستان کو جدید ترین ایف 16 طیارے بھی فراہم کئے تھے، جبکہ پاکستان کے زیر استعمال ایف16 طیاروں کو بھی جدید آلات کی تنصیب سے اپ گریڈ کیا تھا اور پاکستان نے ان طیاروں کو دہشت گردوں کے خلاف بڑے مؤثر انداز میں استعمال بھی کیا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان اپنے دفاع میں یہ طیارے استعمال نہیں کرسکے گا۔
امریکہ سے پاکستان نے ایف 16 طیارے کسی فوجی گرانٹ کے تحت بطور عطیہ حاصل نہیں کئے، بلکہ امریکہ کو ان کی پوری پوری قیمت ادا کی ہے۔ چنانچہ امریکہ ان طیاروں کے استعمال سے متعلق کوئی پیشگی شرائط عائد نہیں کر سکتا۔ زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان ائیر فورس نے بھارت کے خلاف اپنی کارروائی بھارت کی طرف سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے بعد کی اور جن دو انڈین طیاروں کو مار گرایا، وہ پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہوئے تھے، ناکہ پاکستان نے بھارت کی فضائی حدود میں گھس کر ان طیاروں کو گرایا۔ اگر اس امریکی قانون کو درست تسلیم بھی کرلیا جائے کہ امریکہ اپنے ہتھیاروں کو جارحانہ مقاصد کے تحت استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا تو اول تو پاکستان نے بھارتی طیاروں کو مار گرانے میں امریکی ایف 16 طیارے استعمال ہی نہیں کئے اور اگر بالفرض والمحال یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ پاکستان نے ایف 16 طیارے استعمال کئے بھی ہیں تو یہ محض اپنے دفاع کاحق استعمال کرتے ہوئے کئے ہیں اور بھارت کو اس پر اعتراض کیوں ہے؟
بھارت کو پاکستان کے خلاف شکایتوں کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے، بلکہ اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہئے کہ اگر اس نے پاکستان کی سلامتی کو چیلنج کیا یا اسے خطرے میں ڈالنے کی کوششیں ترک نہ کیں تو اپنی سلامتی کویقینی بنانے کیلئے پاکستان کے پاس جو بھی ہتھیار ہیں، وہ انہیں استعمال کرنے کا نا صرف حق رکھتا ہے، بلکہ ہر قسم کے ہتھیاروں کا استعمال کرے گا، کیوں کہ پاکستان کو یہ حق عالمی قوانین کے تحت حاصل ہے، جسے کوئی بھی چیلنج نہیں کر سکتا۔ اقوام متحدہ کا چارٹر ہر آزاد اور خود مختار ملک کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی سلامتی کو لاحق خطرات کا ہر سطح سے دفاع کرے اور اپنی خود مختاری اور سالمیت کو برقرار رکھے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More