کوتاہی ٔ ذوقِ عمل…

0

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ملک میں ہونے والے آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے یک نکاتی خونی منشور پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔ اس کا نعرہ ہے: ’’ہندوستان صرف ہندو کا ہے۔‘‘ اس نعرے پر اس نے انتخابی بساط بچھائی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف مذہبی انتہا پسندی اور پاکستان کو ٹارگٹ بنا کر مودی اور اس کے بغل بچے ترشول لہرا رہے ہیں۔ کشمیر میں جاری جہادِ آزادی کو آتنگ واد قرار دے کر مودی کی خونریز اسکیم پوری دنیا میں ننگی ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ ہو یا پھر او آئی سی یا یورپی یونین کے ممبران یا اسکینڈے نیویا کے ممالک، روس، چین اور افغانستان سب کے سامنے مودی سرکار عریان ہو چکی ہے… مگر عالمی ضمیر مردہ ہو چکا ہے۔ وہ اس خطے کی نازک صورت حال کو سنبھالنے اور مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کے لئے اس ردعمل کا اظہار نہیں کر رہا، جو اقوام متحدہ کے منشور میں درج ہے۔ گویا کھلی ہیں ہر گھر کی کھڑکیاں، لیکن گلی میں جھانکتا کوئی نہیں ہے… اصل یہ ہے کہ مشروب، شباب، کباب اور مال و زر کا سپلائر ہندوستان عالمی سیاست کو مدہوش کر کے اپنی مطلب براری میں نہایت شاطر ملک ہے۔ پھر انٹرنیشنل لیول پر اسلحہ ساز ملکوں کو اپنا مال بیچنے کے لئے منڈیاں چاہئیں۔ خون کی ندیاں بہا کر مال کمانے کے لئے مسلمان ممالک ان کے لئے آئیڈیل مارکیٹیں ہیں۔ دنیا کا نقشہ اٹھا کر دیکھ لیجئے، ہر وہ سرزمین لہو رنگ ملے گی، جہاں توحید اور رسالت کے ماننے والے رہتے بستے ہیں…
عالمی استعمار اور ہنود و یہود و نصاریٰ کی نظروں میں پاکستان سب سے زیادہ کھٹکتا ہے۔ کیونکہ یہ واحد اسلامی ایٹمی قوت ہے۔ اس کا وجود نظریۂ اسلام کے ساتھ جڑا ہوا ہے… پاکستان کی بقاء اور استحکام نہ صرف بائیس کروڑ نفوس کے لئے ناگزیر ہے، بلکہ کل عالم اسلام کے تحفظ کا بھی ضامن ہے۔ پاکستان کی حفاظت خود پاکستانیوں کی ذمہ داری ہے… اس لئے ریاستی و حکومتی پالیسی سازوں اور عوام پر لازم ہے کہ وہ چالاک، مکار اور عیار پڑوسی ہندوستان پر عملی نظر رکھیں اور خود کو غزوئہ ہند میں شریک کرلیں۔ غزوئہ ہند سلطان محمود غزنویؒ کے سومناتھ کا بت پاش پاش کرنے کے بعد شروع ہو چکا ہے اور حق تعالیٰ نے چاہا تو اس کا اختتام ہندوستان پر پاکستان کی فتح پر ہوگا۔ ’’تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں… ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں‘‘ کے مصداق پوری قوم کو ہمہ وقت اپنے کمینہ دشمن سے برسرپیکار رہنا ہوگا۔ اصغر حسین اصغر گونڈوی نے کیسی پیاری بات کہی تھی کہ…
یہاں کوتاہی ٔ ذوق ِعمل ہے خود گرفتاری
جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیاد ہوتا ہے
خدا پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے جانباز مجاہد پوری طرح چوکنے اور ہوشیار ہیں اور بزدل دشمن کو نیست و نابود کرنے کو ہمہ وقت تیار ہیں۔
یہ ہوائوں کے مسافر یہ سمندروں کے راہی
میرے سر بکف مجاہد، میرے صف شکن سپاہی
مجھے یہ بات دیکھ کر سخت افسوس ہوتا ہے کہ عوام کی صفت پرواز میں سخت کوتاہیٔ ذوق عمل پایا جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ شرک اور طاغوتی رسوم و رواج میں جکڑا ہوا ہے۔ شادی بیاہ کے معاملات ہوں یا رہنے سہنے اور لباس کے انداز اور طور طریقے ہوں یا پھر کھانے پینے اور بات چیت کرنے ڈھنگ ہوں، سب پر دشمن ملک کا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ اس کی فلمیں ہوں یا تجارتی منڈیوں کی تلاش، ہماری حکومت اور عوام اس جارح ملک کے ساتھ پیار اور تعاون و دوستی کی پینگیں بڑھانے کے خواہش مند ؕہیں۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا تھا کہ…
تو اے مولائے یثربؐ! آپ میری چارہ سازی کر
میری دانش ہے افرنگی، میرا ایمان ہے زُناری
پاکستانی سماج میں محض نعرے بازی اور جذباتی حمیت کا چلن ہے۔ اس کے برعکس ہمارا رہن سہن اور طرز بود و باش ان جیسا ہے، جن کے ساتھ ہماری جنگ چل رہی ہے… معاشرے میں بے حیائی، گالم گلوچ، الزام تراشی، رشوت ستانی، سودی لین دین، زمینوں پر قبضے، لالچ، حرص، ہوس، طمع اور وراثت کے حقوق کی پامالی کا چلن عام ہے۔ یہی وہ اعمال خبیثہ ہیں، جو قوم میں کوتاہی ٔ ذوقِ عمل کا سبب بنتے ہیں۔
یاد رکھئے گا کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے۔ اس حالت میں اسراف، ناجائز ذرائع سے کمائی، عیش و آرام اور آپس میں لڑائی جھگڑا ہمارا اتحاد پارہ پارہ کر دے گا… آپ اپنا معاشرتی اور سیاسی تقابل ہندوستان سے کریں تو ایک واضح فرق نظر آئے گا۔ فرق یہ ہے کہ ہماری تینوں مسلح افواج انڈین فورسز سے بدرجہا اعلیٰ اور کمٹڈ ہیں۔ البتہ معاشرت اور سیاست میں ایک جیسی گندگی ہے۔ لازم ہے کہ ہمیں خود کو انڈین کلچر سے جدا کرلینا چاہئے۔ ہماری پرواز بلند، نگاہ تیز، اور روح اسی وقت پاک ہوگی، جب ہم اپنے دین کے راستے پر چلیں گے۔ سادگی، عاجزی، اکل حلال اور شیریں مقال ہمارا قومی شعار ہوگا۔ سچائی، دیانت داری اور خوش اخلاقی کے اوصاف ہمارے ساتھ ہوں گے۔
میری اس تحریر کو زاہد ِ خشک یا واعظ ِ تنگ نظر کی تقریر جان کر نظر انداز مت کیجئے گا، بلکہ اس پر غور فرمایئے گا کہ کیا ہم واقعی سنجیدہ اور پر خلوص ہیں کہ غزوئہ ہند کے مجاہدین بن جائیں؟ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم اس دور میں جی رہے ہیں، جس میں کفر و شرک کے ساتھ آخری معرکہ شروع ہوگیا ہے۔ جان جانِ آفریں کے سپرد کردی تو شہادت کے رتبے پر فائز ہوں گے اور اگر زندہ رہے تو غازیانِ اسلام کی صفوں میں جگہ ملے گی۔ آپ سے گزارش ہے کہ عطیہ خداوندی سرزمین پاکستان کی حفاظت اور سلامتی کے لئے دعا فرمایئے گا۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ اس سے پیار کریں اور ذوقِ عمل میں کوتاہی نہ کریں۔ خدا پاک نے چاہا تو صیاد ہمارا بال بھی بیکا نہیں کرسکے گا۔
(نوٹ: اٹھارہ مارچ کو میرے بڑے بھائی محترم جناب خالد صدیق مرحومؒ کو ہم سے بچھڑے ہوئے پانچ سال پورے ہوگئے۔ برائے مہربانی ان کی کامل مغفرت اور بلند درجات کے لئے دعا فرمایئے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More