انسانی ہمدردی

0

جس طرح نیوزی لینڈ کے لوگوں اور ان کی وزیر اعظم جاسنڈا آرڈرن نے سانحہ کرائسٹ چرچ پر مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیا، ان کے غم میں عملی طور پر شریک ہوئے، وہ بہت متاثر کن ہے، انہوں نے اپنے طرز عمل سے مسلمانوں کے دل جیت لئے ہیں، جن دلوں میں اس سانحے کے بعد نفرتیں جگہ بناسکتی تھیں، انہیں محبتوں میں بدل دیا ہے، نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم اور ان کی قوم کو دیکھ کر تو لگتا ہے وہ کسی اور ہی سیارے کی مخلوق ہیں، کیوں کہ ہم نے بالخصوص نائن الیون کے بعد دیکھا ہے کہ یہاں ہر سانحے کو مزید سانحات کا راستہ کھولنے کیلئے استعمال کیا گیا، کسی ایک جگہ انسانی خون گرا تو اس خون کو دوسری جگہ زیادہ مقدار میں گرانے کی کوشش کی گئی، ہر برے عمل کا ردعمل اس سے برے طرز عمل سے دیا گیا، جس کے نتیجے میں دنیا میں قتل و غارت بڑھتی گئی اور اب حال یہ ہے کہ دنیا کا کوئی حصہ دہشت گردی کے عفریت سے محفوظ نہیں رہا، آگ بھڑکانے والے بھی اب اس کی زد میں آچکے ہیں، انسان نے اپنے لئے پوری زمین غیر محفوظ بنالی ہے، کہیں مذہب کے نام پر، کہیں نسل کے نام پر، کہیں رنگ کے نام پر انسان انسان کا خون کررہا ہے، دنیا میں ایسی قوتیں ہیں جو اس آگ کو ٹھنڈا نہیں ہونے دیتیں، اس پر تیل پھینک کر اسے بھڑکاتی رہتی ہیں، لیکن نیوزی لینڈ کے لوگ اور ان کی قیادت باقی دنیا سے بالکل مختلف نکلے، انہوں نے اپنے طرز عمل سے کرائسٹ چرچ سانحے کے ذمہ داروں کے عزائم ناکام بنادئیے، دہشت گرد دنیا میں اور بالخصوص نیوزی لینڈ میں نفرت کا زہر گھولنا چاہتے تھے۔ مذہبی بنیادوں پر تصادم کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے، باقی دنیا میں جاری دہشت گردی کی لہر کو نیوزی لینڈ تک پھیلانا چاہتے تھے، ان کے عزائم تھے کہ مسلمانوں پر حملہ ہوگا، شہادتیں ہوں گی تو وہاں کی مسلم کمیونٹی میں بدلے کی آگ بھڑکے گی، وہ کسی ردعمل کا اظہار کریں گے تو ان کا کام آسان ہو جائے گا، کیوں کہ
ردعمل کے نتیجے میں نیوزی لینڈ کے عوام کو عدم تحفظ کا احساس دلا کر مسلمانوں اور تارکین وطن کے خلاف کیا جا سکے گا، یعنی عمل اور ردعمل کا وہ کھیل نیوزی لینڈ میں بھی شروع ہو جائے گا، جو دنیا کے کئی ممالک میں پہلے سے جاری ہے، ظاہر ہے اس کا زیادہ نشانہ مسلم کمیونٹی نے بننا تھا، مگر ان کی ساری چالیں اہل نیوزی لینڈ نے ناکام بنا دیں، ان کی وزیر اعظم سے لے کر عام شہری تک ہر ایک نے اس سانحے کو نفرتوں کے بجائے محبتیں بڑھانے کا ذریعہ بنا دیا، جس طرح وزیر اعظم جاسنڈا آرڈرن اس سانحے کے بعد سے سیاہ لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں، انہوں نے دوپٹہ پہن کر مسلمانوں سے اظہار تعزیت کیا، لوگوں کے گلے لگ کر روتی رہیں، امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے مدد کی پیشکش پر جواب دیا کہ وہ امریکہ سے کچھ نہیں چاہتیں ماسوائے اس کے کہ مسلم کمیونٹی سے محبت کی جائے اور اب تو انہوں نے کمال ہی کردیا، اپنی پارلیمنٹ میں تلاوت کرا دی، اپنا خطاب السلام علیکم سے شروع کیا، نبی کریمؐ کو خراج تحسین پیش کیا، اس کے بعد تو انہوں نے ساری دنیا کے انسانوں بالخصوص مسلمانوں کے دلوں میں جگہ بنالی ہے، وہ لوگ جو پہلے دن بہت غصے میں تھے، وہ بھی اب جاسنڈا آرڈرن کی تعریف کر رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے عوام اور ان کی وزیر اعظم نے نفرتوں سے بھری اس دنیا میں امید کی شمع روشن کی ہے، دنیا کو مذہب اور رنگ و نسل سے بے نیاز ہوکر انسانیت سے محبت کا پیغام دیا ہے، کاش دیگر عالمی رہنما بھی اسی طرز عمل کا مظاہرہ کرتے تو گزرے برسوں میں دنیا میں جس تیزی سے نفرتیں اور قتل و غارت بڑھی ہے، ایسا نہ ہوتا اور دنیا محفوظ ہوتی، بلکہ امن کا گہوارہ بن جاتی۔ ہمیں آئے روز کرئہ ارض پر کہیں نہ کہیں گرنے والا خون نہ دیکھنا پڑتا۔
نیوزی لینڈ دنیا کے مشرقی کونے پر واقعہ ملک ہے، جس کی آبادی 50 لاکھ سے بھی کم ہے، جرائم تو وہاں نہ ہونے کے برابر ہیں، کسی کا خون بہانے کا تو وہاں کے لوگ سوچ بھی نہیں سکتے، وہاں برسوں قتل کی کوئی واردات رپورٹ نہیں ہوتی، وہاں کیوی پائے جاتے ہیں، جو دنیا میں اور کہیں وجود نہیں رکھتے اور پھر یہ کہ کرکٹ بھی نیوزی لینڈ کی پہچان ہے، یہ سب تو ہم نے پڑھ اور سن رکھا تھا، لیکن وہاں کے لوگ اندر سے اتنے خوبصورت ہیں، یہ اس سانحے کے بعد دنیا کو پتہ چلا، جس طرح نیوزی لینڈ کے عوام مسلم کمیونٹی سے اظہار یکجہتی کررہے ہیں، وزیراعظم سے لے کر عام شہری تک بار بار یہ واضح کر رہا ہے کہ حملہ کرنے والا دہشت گرد آسٹریلوی تھا یعنی وہ اس سے لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں، مسلمانوں پر حملے کو اپنے وجود پر حملے سے تعبیر کر رہے ہیں، خواتین ہوں یا مرد بات کرتے ہوئے آبدیدہ ہوج اتے ہیں، ترکی کی سرکاری خبر ایجنسی نے لوگوں سے بات کی تو کسی ایک نے بھی منفی جواب نہیں دیا، سب اس پر زور دیتے نظر آئے کہ مسلم کمیونٹی بھی ان کے وجود کا حصہ ہے، ان کے بھائی اور بہنیں ہیں، ان کے لئے وہ بانہیں کھول کر رکھیں گے، وہ اس بات پر شرمندگی کا اظہار بھی کرتے نظر آئے کہ ان کے ملک میں مسلم کمیونٹی پر یہ ظلم ہوا۔ حکومت نے اس سانحے کے بعد لاوڈ اسپیکر پر اذان کی اجازت دی تو اسے سننے کیلئے ہزاروں لوگ جمع ہوگئے۔ جبکہ آئندہ جمعہ کی نماز ریڈیو اور ٹی وی پر نشر کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ہالینڈ میں تعلیم کی غرض سے مقیم ایک کیوی باشندہ وہاں کی مسجد میں پھول لے کر پہنچ گیا، نمازیوں سے گلے لگ کر تعزیت کرتا رہا۔ یہ نیوزی لینڈ قوم کی اصل خوبصورتی ہے، انہوں نے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ واقعی انسانیت سے محبت کرنے والی قوم ہیں، اسی لئے انہیں قائد بھی ایسی ہمدرد خاتون ملی ہیں، جس نے سانحے میں بھی اپنے طرز عمل سے ملک کا نام دنیا میں اونچا کر دیا ہے۔
جاسنڈا آرڈرن کی طرح کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو بھی حقیقی معنوں میں انسانیت سے محبت کرنے والے رہنما ہیں۔ انہوں نے بھی اس سانحے پر مسجد میں جا کر مسلم کمیونٹی سے اظہار یکجہتی کیا، امن کا پیغام دیا، اسی طرح جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے شامی مہاجرین کے لئے اپنے دروازے کھولے تھے، جس پر انہیں مہاجرین نے ’’ماں‘‘ کا خطاب بھی دیا تھا، انہوں نے بھی انسانیت سے محبت کا عملی ثبوت دیا تھا، اگر ان تین رہنمائوں کی طرح باقی عالمی رہنما بھی مثبت سوچنا شروع کردیں، انسانیت اور انسانی حقوق کے دعوے نہ کریں، بلکہ عمل کرکے دکھائیں تو یقین مانیں یہ دنیا جنت بن سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More