مروہ تولا اور ارجمند کی شادی 2017 میں ہوئی تھی۔(تصویر حریت ڈیلی، ترکی)
مروہ تولا اور ارجمند کی شادی 2017 میں ہوئی تھی۔(تصویر حریت ڈیلی، ترکی)

’دہشت گرد‘ بیوی کا شوہر پر ریپ کا الزام

ترکی میں ایک شادی شدہ جوڑے کی عدالتی جنگ بڑے پیمانے پر زیر بحث ہے جس میں بیوی نے شوہر پر تشدد کے علاوہ جنسی زیادتی کے الزامات لگائے ہیں جبکہ شوہر نے بیوی کو دہشت گرد تنظیم کا رکن ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

مروہ تولا نے اپنے شوہر ارجمند تولا کے خلاف 20 مقدمات دائر کیے جن میں سے کچھ چل رہے ہیں۔ اب تک ارجمند کو 6 ماہ جیل کی سزا ہوچکی ہے۔

32 سالہ مروہ اسکول ٹیچر ہے۔ اس نے 2017 میں دوسری شادی ارجمند سے کی۔ خود ارجمند کی بھی یہ دوسری شادی ہے۔ دونوں کی پہلی شادیوں سے سات سات برس کی ایک ایک بیٹی ہے۔

مروہ کا الزام ہے کہ اس کے شوہر نے شادی کے پہلے دن ہی اس پر تشدد کیا اور اس کا ریپ کیا۔ جس کے بعد بھی وہ اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا رہا ہے۔

چھ ماہ تک یہی سلسلہ جاری رہا جس کے بعد مروہ نے ایک دارالامان میں پناہ لی اور کچھ عرصے بعد اپنے والدین کے یہاں منتقل ہوگئی تاکہ شوہر سے محفوظ رہ سکے۔

مروہ کا کہنا ہے کہ اس نے شادی محبت میں نہیں بلکہ مجبوری میں کی تھی اور تشدد کے باوجود وہ ایک دفعہ شوہر کے معافی مانگنے پر اسے معاف کر چکی ہے۔

لیکن کچھ ہی عرصے بعد ارجمند نے پھر اسے نشانہ بنایا اور اس کی ناک توڑ ڈالی۔

مروہ کے بقول ارجمند کا کہنا تھاکہ چونکہ وہ اس کی بیوی ہے لہٰذا وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ مروہ نے الزام عائد کیا کہ ارجمند دیگر خواتین کو بھی اسی طرح نشانہ بنا چکا ہے۔

مروہ کے ان الزامات کو ترک میڈیا نے نمایاں کیا ہے اور اسے کچھ ٹی وی چینلز نے اپنے پروگراموں میں بھی بلایا۔

دوسری جانب ارجمند تولا نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مروہ صرف رقم اینٹھنے کے لیے یہ دعوے کر رہی ہے۔

ارجمند نے اپنے مؤقف میں مروہ کو فتح اللہ گولن کی تحریک کا رکن قرار دیا ہے جسے ترکی میں دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے۔

شوہروں پر ریپ کے مقدمات درج کرنے کے قانون کا مطالبہ اگرچہ بالعموم آزاد خیال خواتین کرتی ہیں تاہم مروہ حجاب لیتی ہے۔

ارجمند نے مروہ پر کرد دہشت گرد تنظیم پی کے کے سے روابط کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ ارجمند کا ایک انکل پی کے کے کا رکن ہے۔

ارجمند کا کہنا ہے کہ مروہ اس معاملے کو اچھال کر ہمدردیاں حاصل کر رہی ہے۔

جس مقدمے میں عدالت نے ارجمند کو سزا سنائی اس میں دیگر الزامات مسترد ہوگئے صرف تشدد ثابت ہوسکا۔

اپنے خلاف الزامات پر مروہ کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ اس نے فتح یونیورسٹی سے ڈگری لی لیکن چونکہ وہ تمباکو نوشی کرتی ہے اس لیے اس کے گولن تحریک میں شامل ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

مروہ تولا طلاق کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ارجمند کے مطابق مروہ نے کیس سے دستبرداری کیلئے اس سے 6 لاکھ ترکش لیرا (تقریبا ڈیڑھ کروڑ پاکستانی روپے) کا مطالبہ کر رکھا ہے۔