سابق چیف جسٹس ایڈوینچر کے شوقین تھے۔فائل فوٹو
سابق چیف جسٹس ایڈوینچر کے شوقین تھے۔فائل فوٹو

آخری دن بھی جسٹس ثاقب نثار کو مخالفت کا سامنا- تاریخی فیصلہ دیا

  • میں بھی کچھ ڈیم بنائوں گا۔ جعلی گواہوں کے آگے بند باندھوں گا، مقدمات کا قرضہ کم کروں گا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ۔ فوجی عدالتوں کی مخالفت
  • ازخود نوٹس کا سب سے زیادہ اختیار جسٹس ثاقب نثار نے کیا۔ وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل
  • سپریم کورٹ بار کے صدر کی بھی از خود نوٹس پر تتقید- ججوں کے احتساب پر زور

جسٹس ثاقب نثار کا بطور جج اور چیف جسٹس آف پاکستان آخری دن ایک زائد حوالے سے یاد گار بن گیا۔ نہ صرف چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنی عدالتی زندگی کا اختتام ایک بڑے اور تاریخی فیصلے سے کیا بلکہ انہیں اپنے انتظامی اقدامات پر ساتھی ججوں کی طرف سے آخری دن بھی اختلاف رائے کا سامنا کرنا پڑا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے جو آخری کیس سنا وہ گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق دینے سے متعلق مقدمہ تھا اور ریٹائرمنٹ سے پہلے انہوں نے اس پر فیصلہ بھی دیا۔

گلگت بلتستان کے حقوق کیلئے سپریم کورٹ نے راستہ نکال دیا

تاہم جب ان کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس منعقد ہوا تو سپریم کورٹ کے 17 ججوں میں سے ایک جج جسٹس منصور علی شاہ سبکدوش چیف جسٹس کو خراج تحسین پیش کرنے نہیں آئے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس کی جانب سے بینچوں کی تشکیل پر انتظامیہ اختیارات کے غلط استعمال پر اعتراض اٹھاتے ہوئے گذشتہ دنوں ایک آرڈر لکھا تھا۔

چیف جسٹس کی جانب سے جسٹس فائز عیسیٰ کو بینچ سے نکالنے کیخلاف ساتھی جج کافیصلہ

اسی طرح چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے ان کے دور میں بہت زیادہ ازخود نوٹس لیے جانے کے انتطامی فیصلوں کی بازگشت بھی اسی فل کورٹ ریفرنس میں سنائی دی جب نامزد چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ ان کے دور میں از خود نوٹس کا اختیار بہت کم کیا جائے گا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ جمعہ کو چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھا رہے ہیں۔

فل کورٹ ریفرنس کی تقریب میں سپریم کورٹ کے 16ججز، اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور، پاکستان بار کونسل کے نائب چیئرمین کامران مرتضیٰ اور سابق ریٹائر ججز و صحافی شریک ہوئے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سبکدوش چیف جسٹس کو مقدمات نمٹانے کیلئے ان کی کوششوں اور اہم مقدمات پر تفصیلی خراج تحسین پیش کیا اور بتایا کہ ان کا جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ 20 سالہ ساتھ ہے، 1988 میں لاہور ہائیکورٹ کے دور سے وہ ساتھ ہیں۔

ڈیم بنانے اور قرض اتارنے کے حوالے سے جسٹس ثاقب نثار کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں بھی کچھ ڈیم بنائوں گا، میں جعلی گواہوں اور گواہیوں کے سامنے ڈیم (بند) باندھوں گا، میں مقدمات کا قرض اتاروں گا۔ انسانی حقوق کے حوالے سے چیف جسٹس کی خدمات کو بھی انہوں نے خراج تحسین پیش کیا۔

جمعہ سے بطور چیف جسٹس شروع ہونے والے اپنے دور کے حوالے سے جسٹس آصف سعید نے کہاکہ فوجی عدالتوں میں کسی سویلین کا ٹرائل ساری دنیا میں غلط سمجھا جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کہا جاتا ہے کہ فوجی عدالتوں میں جلد فیصلے ہوتے ہیں تاہم کوشش کی جائے کہ سول عدالتوں میں جلد مقدمات پر فیصلے ہوں۔ انہوں نے خصوصی ٹریبونلز ختم کرنے کی بات بھی کی۔

ہائیکورٹس کو متنبہ کرتے ہوئے نامزد چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتِ عالیہ کو اپنے اختیارات حدود کے اندر رہ کر استعمال کرنے چاہیں۔

نامزد چیف جسٹس نے کہاکہ ان کے دور میں از خود نوٹس کا اختیار بہت کم استعمال ہوگا اور وہ بھی قومی اہمیت کے ایسے معاملات میں جہاں کوئی دوسرا راستہ موجود نہ ہوا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل کا کہنا تھا کہ از خود نوٹس کا اختیار دینے والے  آرٹیکل 184 (3) کا سب سے زیادہ اختیار چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے استعمال کیا، میں بھی دیگر قانون دانوں کی طرح اس آرٹیکل سے اختلاف کرنے والوں میں شامل ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی نیت پر کوئی شعبہ نہیں، انہوں نے غیر معمولی کام کیے لیکن آرٹیکل 184 (3) کی حدود و قیود کا معاملہ حل ہونا چاہیے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے بھی اپنے خطاب میں از خود نوٹس اور ججوں کے احتساب پر بات کی۔

انہوں نے کہاکہ  ازخود نوٹسز کی کثیر تعداد سے عام مقدمات میں تاخیر ہوتی ہے جبکہ ازخود نوٹس کے فیصلے پر نظر ثانی یا اپیل کا حق دیا جانا چاہیے۔

انہوں نے ججز کی تقرری کے طریقہ کار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جج صاحبان کو ہٹانے کے طریقہ کار میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

امان اللہ کنرانی نے کہا کہ اگر خلفاء کا احتساب سر عام ہوسکتا ہے تو قاضی کا احتساب کیوں نہیں ہوسکتا، دوسرے ممالک میں ججز کا محاسبہ پارلیمنٹ کرتی ہے۔

سپریم کورٹ بار کے صدر نے کہا کہ پچھلے کچھ عرصے سے دیکھا جارہا ہے کہ ججز کے لہجے میں ترشی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ جو عدالت اور وکیل کو بنیادی مقصد سے ہٹا دیتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وکیل کو حقائق بیان کرنے اور دلائل دینے کا موقع نہیں دیا جاتا، عدلیہ اور بار ایک گاڑی کے پہیے ہیں لیکن اب ایک پہیہ صرف اضافی دکھائی دیتا ہے۔