انڈسٹریل زون میں واقع قیمتی پلاٹ بابر غوری کے دور میں الاٹ کیے گئے، ایم کیو ایم کے سابق وفاقی وزیر نے رشتہ داروں، پارٹی ذمے داروں اور کارکنوں کو بھی نوازا، بیشتر پلاٹ فروخت کیے جاچکے، تحقیقات شروع نہ ہوسکی
انڈسٹریل زون میں واقع قیمتی پلاٹ بابر غوری کے دور میں الاٹ کیے گئے، ایم کیو ایم کے سابق وفاقی وزیر نے رشتہ داروں، پارٹی ذمے داروں اور کارکنوں کو بھی نوازا، بیشتر پلاٹ فروخت کیے جاچکے، تحقیقات شروع نہ ہوسکی

پورٹ قاسم اتھارٹی کے 7 ارب روپے مالیت کے 40 پلاٹوں کی فائلیں غائب

سید نبیل اختر

پورٹ قاسم اتھارٹی کے 7 ارب روپے مالیت کے 40 پلاٹوں کی فائلیں غائب کی جا چکی ہیں۔ انڈسٹریل زون کے ان قیمتی پلاٹوں کے حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ بابر غوری دور میں الاٹ کئے گئے تھے۔ جن میں سے بیشتر مارکیٹ میں فروخت کئے جاچکے ہیں۔ انڈسٹریل مینجمنٹ کے ریکارڈ میں کئی ایسے پلاٹوں کا اندراج بھی ہے۔ جو فرضی ناموں پر الاٹ کئے گئے۔ تاکہ انہیں فروخت کیا جا سکے۔ گزشتہ 9 برس کے دوران مختلف افراد کے نام پر الاٹمنٹ سے قبل سرکاری نرخ کے علاوہ بھاری رشوت بھی وصولی کی گئی۔ افسران کی ملی بھگت سے گھگھر پھاٹک سے پورٹ قاسم انڈسٹریل زون میں الاٹمنٹ کی منتقلی بھی کی گئی۔ اراضی معاملہ نمٹانے کیلئے 40 پلاٹوں کی فائلیں غائب کر دی گئیں۔ انتظامیہ نے سرچ میمو جاری کردیا ہے۔
پورٹ قاسم اتھارٹی میں انڈسٹری کا تجربہ رکھنے والے سرمایہ کاروں کو 2010ء سے اب تک سینکڑوں پلاٹ سبسڈی پر دیئے گئے ہیں۔ اس اراضی پر کئی سرمایہ کاروں نے سرکاری خزانے کو ادائیگیاں کر کے فیکٹریاں اور ویئر ہاؤسز بھی بنائے۔ تاہم بابر غوری کے دور میں کچھ پلاٹ ایسے افراد کے نام پر الاٹ کئے گئے۔ جن کا سرمایہ کاری سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ مذکورہ الاٹمنٹ فرضی ناموں پر کی گئی۔ تاکہ الاٹمنٹ کے بعد انہیں فروخت کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں پورٹ قاسم اتھارٹی کو معاملے کی تحقیقات کرانا ہوگی۔ تاکہ سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کو بے نقاب کیا جا سکے۔ ذرائع نے بتایا کہ بابر غوری دور میں مذکورہ جعلسازی کیلئے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا گیا۔ جس کے پاس کسی سرکاری ادارے میں انتظامی امور کا کوئی تجربہ ہی نہیں تھا اور اسے غیر قانونی طور پر ترقی دے ڈائریکٹر انڈسٹریل مینجمنٹ کی اہم ذمہ داری سونپ دی گئی۔ پورٹ قاسم اتھارٹی نے ان دنوں سرمایہ کاروں کیلئے سبسڈی کے تحت پلاٹ الاٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور اسی ضمن میں دو ایکڑ کے پلاٹ کی سرکاری قیمت 20 لاکھ روپے مقرر کردی گئی۔ من پسند افراد کو نوازنے کیلئے مقررہ قیمت ہی وصول کی جاتی رہی۔ جبکہ دیگر سرمایہ کاروں سے پلاٹ کی الاٹمنٹ کیلئے فی پلاٹ پچاس لاکھ روپے تک وصول کئے گئے۔ چونکہ پلاٹ کی قیمت ایک کروڑ روپے یا اس سے بھی زائد تھی۔ جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں اور انڈسٹریلسٹ کو رشوت کی رقم زیادہ نہ لگی اور ایک برس کے دوران ہی 100 سے زائد افراد کو پلاٹ الاٹ کر دیئے گئے۔ اس منصوبے میں متحدہ کے کارکنوں اور ذمہ داروں کو بھی سبسڈی کے تحت گھگھر پھاٹک کے اطراف پلاٹ الاٹ کئے گئے۔ جنہیں یقین دہانی کرائی گئی کہ انہیں جلد پورٹ قاسم کے اطراف مہنگی اراضی پر منتقل کرا دیا جائے گا اور کچھ ہی ماہ میں اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچا بھی دیا گیا۔ اس سارے معاملے کو ڈائریکٹر انڈسٹریل مینجمنٹ نے ہینڈل کیا۔ جسے بابر غوری کے حکم پر تعینات کیا گیا تھا۔ پورٹ قاسم اتھارٹی کے ایک ذمہ دار افسر نے انکشاف کیا کہ ڈائریکٹر ویجی لنس کے گھر میں کام کرنے والی خاتون رحمت بی بی کے نام پر بھی انڈسٹری لگانے کی غرض سے ایک پلاٹ الاٹ کرایا گیا تھا۔ جسے بعد میں فروخت کر دیا گیا۔ اسی طرح بابر غوری کے رشتہ داروں اور اس کی پورٹ قاسم میں تعینات ٹیم نے اپنی اہلیہ کے ناموں پر بھی گھگھر پھاٹک کے اطراف پلاٹ الاٹ کرائے تھے۔ پھر ان کی جانب سے درخواستیں جمع کرائی گئیں کہ وہاں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے انڈسٹری لگانا ممکن نہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں بھی پورٹ قاسم کے کسی انڈسٹریل زون میں جگہ دے دی جائے۔ بابر غوری کے حکم پر ہی انہیں پورٹ قاسم میں پلاٹ ٹرانسفر کے احکامات تھما دیئے گئے اور ریکارڈ کے مطابق مذکورہ درخواست گزاروں نے اراضی پر انڈسٹری لگانے کے بجائے انہیں مہنگے داموں فروخت کر دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اسکینڈل میں ملوث ملزمان نے اراضی کی فروخت سے اربوں روپے کمائے ہیں اور ان کے خلاف کوئی محکمہ جاتی انکوائری بھی مکمل نہیں کی جا سکی۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ معاملے کو دفن کرنے کیلئے مافیا نے ملی بھگت کرکے مذکورہ پلاٹوں کی فائلیں ہی غائب کردیں یا چرالیں۔ تاکہ سرکار کے پاس کوئی ثبوت ہی نہ رہے۔ مذکورہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب انتظامیہ کی جانب سے 40 انڈسٹریل پلاٹوں کی 115 ایکڑ اراضی کی فائلوں کی گمشدگی کا ایک ہی وقت میں سرچ میمو جاری کیا گیا۔ یہ میمو انڈسٹریل مینجمنٹ کے ڈائریکٹر مغیث الورا فصیح کے دستخط سے جاری کیا گیا ہے۔ مکتوب NO.PQA/ET-I/2020 میں کہا گیا کہ شعبہ جات میں فائلوں کی نقل و حمل کی وجہ سے 40 انڈسٹریل پلاٹوں کی فائلیں دیگر دستاویزات کے ساتھ مکس ہوگئی ہیں، جو مل نہیں رہیں۔ اس سلسلے میں شعبہ جات کے ڈائریکٹر جنرلز افسران کو پابند کریں کہ اگر انہیں یہ فائلیں مل جائیں تو انڈسٹریل مینجمنٹ میں واپس جمع کرادیں۔ مکتوب کی ایک نقل چیئرمین پورٹ قاسم اتھارٹی اور تمام ڈائریکٹر جنرلز کو بھیجی گئی۔ اس مکتوب کے ساتھ ایک فہرست بھی بھجوائی گئی۔ جس میں پلاٹوں کے کرنٹ الاٹیز کے نام، پلاٹ نمبر، ایریا اور ایکڑ کی تفصیلات لکھی گئیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پلاٹوں کے سرچ میمو جاری ہونے کا مطلب یہی ہے کہ مذکورہ پلاٹ ٹھکانے لگانے کی تیاری مکمل کی جاچکی ہے۔ ’’امت‘‘ کو پورٹ قاسم اتھارٹی کے ذرائع سے مذکورہ پلاٹوں کی تفصیلات ملی ہیں۔ جن کے مطابق میسرز محسن برادرز کو پلاٹ نمبر 8-04 کیلئے 4 ایکڑ راضی الاٹ کی گئی تھی۔ کیمیکل ایریا میں محمد الیاس معراج کو پلاٹ نمبر B-7 کیلئے 4 ایکڑ۔ میسرز نور محمد ٹیکسٹائل کو پلاٹ نمبر D-2 کیلئے ڈھائی ایکڑ۔ میسرز سید محمد یوسف اینڈ کو، کو پلاٹ نمبر ای 108 کیلئے ایک ایکڑ۔ روپن مل کو پلاٹ نمبر ای 114 کیلئے ایک ایکڑ۔ میسرز کوسوم انٹرنیشنل کو پلاٹ نمبر ای 128 کیلئے ایک ایکڑ۔ میسرز ایس ایس کارپوریشن کو پلاٹ نمبر ای 161 کیلئے ایک ایکڑ۔ میسرز فوکس ایپریل کو پلاٹ نمبر ای 163 کیلئے ایک ایکڑ۔ میسرز محمد انیس ولد محمد داؤد کو پلاٹ نمبر ای175 کیلئے ایک ایکڑ۔ میسرز وانا اینڈ کمپنی کو پلاٹ نمبر ای 298 کیلئے ایک ایکڑ۔ میسرز فورو فوڈ انڈسٹری کو پلاٹ نمبر ای 308 کیلئے ایک ایکڑ۔ میسرز کوثر ٹریڈ ڈسٹری بیوٹر کو پلاٹ نمبر ای 325 کیلئے ایک ایکڑ۔ میسرز ٹرپل اے انٹرنیشنل کو پلاٹ نمبر ای 330 کیلئے ایک ایکڑ۔ میسرز بلال انٹر پرائزز کو پلاٹ نمبر ای 34 کیلئے ایک ایکڑ اور میسرز عبدالمجید انڈسٹریز کو پلاٹ نمبر ای 74 کیلئے ایک ایکڑ اراضی الاٹ کی گئی تھی۔ دستاویزات کے مطابق گم شدہ فائلوں میں سب سے زیادہ اراضی میسرز پی اینڈ جی پرائیوٹ لمیٹڈ کو دی گئی۔ جو پلاٹ نمبر ایس پی 01 کیلئے 25 ایکڑ تھی۔ اس کے علاوہ میسرز شمس اسٹیل کو پلاٹ نمبر EIZ/LL/G-06 کیلئے 10 ایکڑ اراضی ا لاٹ کی گئی۔ اسی طرح میسرز محمد جاوید کو پلاٹ نمبر ایف 20 کیلئے 2 ایکڑ۔ میسرز الیاس سنز اینڈ انڈسٹری کو پلاٹ نمبر ایف 37 کیلئے دو ایکڑ۔ میسرز دی کیٹررزکو پلاٹ نمبر ایف 84 کیلئے دو ایکڑ۔ میسرز ایم ایچ مہدی اینڈ سنز کو پلاٹ نمبر ایف 90 کیلئے دو ایکڑ۔ منیر احمد کو پلاٹ نمبر W1/27&28 کیلئے دو ایکڑ۔ شیراز احمد کو پلاٹ نمبر W1/29&W1/30 کیلئے دو ایکڑ اراضی الاٹ کی گئی تھی۔ میسرز علی اسٹوریج کو پلاٹ نمبر W1/B-103 کیلئے ایک ایکڑ۔ میسرز مواکا موٹرز کو پلاٹ نمبر W1/B-170 کیلئے ایک ایکڑ۔ میسرز نارتھ گیٹ کو پلاٹ نمبر W1-B171 کیلئے ایک ایکڑ۔ مسیرز سارا انٹر پرائز کو پلاٹ نمبر W1/B-179 کیلئے ایک ایکڑ۔ میسرز باسط اینڈ کمپنی کو پلاٹ نمبر W1/B-180 کیلئے ایک ایکڑ۔ میسرز عرفان سلیم کو پلاٹ نمبر W1/B-193 کیلئے ایک ایکڑ۔ میسرز حسن ٹریڈرز کو پلاٹ نمبر W1/B-201 کیلئے ایک ایکڑ۔ پروین علی کو پلاٹ نمبر W2/B-11 کیلئے ایک ایکڑ اور میسرز ٹرمینل ون کو پلاٹ نمبر بی 16 کیلئے 4 ایکڑ اراضی الاٹ کی گئی۔ انڈسٹریل مینجمنٹ کی جانب سے گمشدہ فائلوں میں 5 ایکڑ اراضی کی ایک فائل بھی شامل ہے۔ جو پلاٹ نمبر ڈی 25 اور 26 کیلئے بلال ایسو سی ایٹس کو الاٹ کی گئی تھی۔ اسی طرح فرخ مظہر اور شہزاد مظہر کو پلاٹ نمبر ای 132 کیلئے ایک ایکڑ۔ میسرز برما اینڈ کمپنی کو پلاٹ نمبر ای 99 کیلئے ایک ایکڑ۔ میسرز ایس ایس جی سی ایل پی جی پرائیویٹ لمیٹڈ کو پلاٹ نمبر کیو پی فائیو (ایل پی جی) کیلئے 5 ایکڑ۔ میسرز احمد انٹرنیشنل ٹریڈنگ کو پلاٹ نمبر W2/1/38 کیلئے ایک ایکڑ۔ میسرز ایم ایم کموڈیٹیز کو پلاٹ نمبر 93، 94، 95 اور 96 کیلئے 4 ایکڑ۔ آغا خیر محمد کو پلاٹ نمبر CP 1/5 کیلئے 990 اسکوائر میٹر۔ جبکہ میسرز اسپیڈی ٹریکرر کنٹینر ٹرمینل کو پلاٹ نمبر POZ/SP-06 کیلئے 20 ایکڑ اراضی الاٹ کی گئی تھی۔ مذکورہ فہرست کے جاری ہوتے ہی شعبہ جات میں ان فائلوں کی ڈھونڈ مچ گئی۔ لیکن 19 روز گزرنے کے باوجود اب تک کسی بھی ڈیپارٹمنٹ سے کوئی ایک بھی فائل نہیں مل سکی۔ ذرائع کے مطابق اربوں روپے مالیت کے پلاٹوں کی اوریجنل فائلیں گم ہونے کے باوجود اعلیٰ انتظامیہ نے انڈسٹریل مینجمنٹ کے افسران کے خلاف کوئی کارروائی شروع نہیں کی اور نہ ہی چیئرمین نے اس سلسلے میں تحقیقات کا کوئی حکم صادر فرمایا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کی ایف آئی اے یا نیب سے تحقیقات ہونی چاہیئں۔ تاکہ خزانے کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ان کا تعین کرکے ان کیخلاف کارروائی کی جاسکے۔