رپورٹ:حسام فاروقی
رواں سال کراچی میں گداگروں کے14بڑے گروپوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، جن میں سے 8 کا تعلق سندھ اور6 کا تعلق پنجاب سے ہے۔
پنجاب سے تعلق رکھنے والے گروپوں کو جنوبی پنجاب کے علاقوں رحیم یار خان، صادق آباد، علی پور، راجن پور، خان پوراورملتان کے نواحی علاقوں سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے گروپوں کو چلانے والے ٹھیکے داروں کا تعلق تھرپارکر، بدین، کشمور، شہداد کوٹ، ٹھٹہ اور ٹنڈو محمد خان سے ہے۔
اس نیٹ ورک کو سرپرستی فراہم کرنے میں پنجاب کی کچھ سیاسی شخصیات اور پنجاب پولیس کے بعض افسران بھی ملوث ہیں، جنہوں نے گداگر مافیا کی سیٹنگ سندھ کی بعض سیاسی شخصیات اور پولیس افسران سے کروا رکھی ہے جس کی وجہ سے یہ مافیا اس وقت حیدرآباد اور کراچی میں اپنی ایک ’’سرکار‘‘ بنائے بیٹھی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی سے یہ گداگر مافیا سالانہ 18 ارب روپے سے زیادہ بھیک اکھٹی کرتی ہے۔ کراچی میں رواں سال کی ابتدا میں لاک ڈائون کے دوران شہریوں کی انسانی ہمدردی کو بنیاد بنا کر اچھی خاصی کمائی کرنے کے ارادے سے 50 ہزار کے قریب گداگر جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ سے آئے تھے جو تاحال کراچی میں موجود ہیں اوراگلے رمضان کے سیزن تک کراچی میں ہی پڑائو رکھنے کی منصوبہ بندی کیے ہوئے ہیں۔
اگر ایک اندازہ لگایا جائے کہ ہر بھکاری یومیہ ایک ہزار روپے بھی بٹورتا ہے تو ماہانہ وہ 30 ہزار روپے اکھٹا کر لیتا ہے، جو سالانہ 3 لاکھ 60 ہزار روپے بنتے ہیں۔ اگراس رقم کو 50 ہزار بھکاریوں سے ضرب دی جائے تو یہ 18ارب روپے بنتے ہیں۔ اس میں آدھے پیسے بھکاریوں کی جیبوں میں جاتے ہیں اور آدھی رقم ان کا ٹھیکیدار وصول کرتا ہے۔ جس کا کام ان بھکاریوں کو جگہیں فراہم کرنا، پولیس سے بچانا، دیگر بھکاریوں کے گروپوں سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کام میں بعض سیاسی شخصیات کے ساتھ کچھ پولیس افسران بھی ملوث ہیں، جنہیں بھکاری مافیا کو آپریٹ کرنے والے ڈان ہر ماہ باقاعدگی سے بھتہ پہنچاتے ہیں۔ ’’امت‘‘ نے گداگروں کے منظم نیٹ ورک سے تحقیقات کیں تو انکشاف ہوا کہ گداگری کے ٹھیکے، جرائم پیشہ افراد اور پولیس دیتی ہے۔ اس کام کے لئے پولیس ایسے شخص کو استعمال کرتی ہے جو خود گداگری کے پیشے سے منسلک ہوتا ہے یا پھر گداگروں کا سردار ہوتا ہے، جس کو گداگر ’’ٹھیکیدار‘‘ کا نام دیتے ہیں۔
شہر میں مقامی گداگر ٹھیکیدار نظام کے تحت کام کررہے ہیں۔ جبکہ بیرون شہر سے آنے والے گداگروں کے بھی ٹھیکیدار ہوتے ہیں۔ اس دھندے سے وابستہ افراد بتایا کہ کراچی میں اس سال بھی گداگر مافیا ٹھیکیداری نظام کے تحت اپنا نیٹ ورک چلا رہی ہے۔ اس نظام کے تحت بھیک مانگنے والے بھکاریوں کو ٹریفک اور علاقہ پولیس تنگ نہیں کرتی۔
رمضان المابرک سے چند روز قبل کراچی کے مقامی گداگروں کو یہ کہہ کر ان کی مخصوص جگہوں سے ہٹا دیا جاتا ہے کہ نئے ٹھیکے پر فلاں نے بیٹ اٹھالی ہے اور اب وہ پورے علاقے میں جہاں جس کو چاہئے گا، بٹھائے گا۔ پھر ٹھیکیدار اپنے مخصوص گداگروں کو بہترین جگہوں پر بٹھا دیتا ہے جہاں سے وہ روزانہ ہزاروں روپے بھیک اکھٹی کرتے ہیں۔ یہ گداگر یومیہ آٹھ گھنٹے کی اجرت پر بیٹھتے ہیں ان میں سے بعض 600 تا 800 روپے دیہاڑی لیتے ہیں۔ جبکہ اوور ٹائم لگانے والے گداگر کو اضـافی کمائی کا 20 فیصد حصہ ملتا ہے۔
اس طرح اگر پورے ماہ کا حساب لگایا جائے تو اندازاہ ایک گداگر 30 سے 35 ہزار روپے کمالیتا ہے۔ ذرائع کے مطابق اچھے اور منافع بخش مقامات کی گداگر مافیا کی جانب سے سخت نگرانی کرائی جاتی ہے کہ ہمارے بٹھائے ہوئے گداگر کتنی کمائی کررہے ہیں۔ اس کیلئے گداگر مافیا نے خفیہ نیٹ ورک بھی بنایاہوا ہے۔ اس نیٹ ورک میں با اثر افراد شامل ہوتے ہیں جو گداگر مافیا کو فون پر تمام جگہوں کی رپورٹ کرتے ہیں۔ گداگر مافیا کی جانب سے پرانے اور نئے گداگروں دونوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اگر جگہ کے معاملے پر آپس میں کسی نے جھگڑا کیا تو اسے سخت سزا دی جائے گی۔
رواں سال مارچ کے مہینے میں اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب سے جو گداگر کراچی آئے تھے، انہیں مچھر کالونی، موسی کالونی، لاسی گوٹھ، خدا کی بستی، اورنگی ٹائون، تین ہٹی کے قریب لیاری ندی کے ساتھ، ابراہیم حیدری، اور شہر کے مضافات میں واقع کچی آبادیوں یا گوٹھوں میں کرائے کے مکان لے کر دیے گئے تھے، جہاں یہ تاحال مقیم ہیں۔ اس کے ساتھ کئی گداگروں نے فلائی اوور پلوں کے نیچے بھی ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
ذرائع کے مطابق کراچی میں گداگری کرنے والے ایک گروپ کا ٹھیکیدار لالو نامی شخص ہے جو ماضی میں ان گداگروں کی ٹھیکیداری کرنے والے راجو نامی ٹھیکیدار کا بیٹا ہے۔ راجو کے مر جانے کے بعد اس کی گدی اب لالو نے سنبھال لی ہے۔
راجو کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ تھرپارکر کا رہنے والا تھا اور گداگری کا منظم نیٹ ورک چلاتا تھا۔ اب اس کا بیٹا لالواس نیٹ ورک کو آپریٹ کر رہا ہے، جس نے کراچی میں ٹھیکہ فروخت کرنے والوں سے رابطے کر کے شہر کی بہترین جگہیں خریدلی ہیں۔ اس کے پاس ٹاور کا علاقہ ہے۔
ذرائع کے مطابق لالو ٹھیکیدار کے50 سے زائد کارندے ہیں جو گداگروں کو جگہوں پر چھوڑ کر ان کی نگرانی کرتے ہیں اور ات گئے انہیں ایک منی بس میں بھر کر واپس ان کی رہائش گاہوں پر چھوڑتے ہیں۔ اسی طرح کینٹ اسٹیشن کے پل کے نیچے اور ناظم آباد سات نمبر میں بھی اندرون پنجاب سے آئے ہوئے گداگروں نے ڈیرے ڈال لئے ہیں۔
تحقیقات میں گداگر مافیا کے 8 بڑے ٹھیکیداروں کا سراغ ملا ہے، جنہوں نے شہر کی معروف جگہوں کو فروخت کیا ہے۔ ایک گداگر خانو کو کچھ رقم کا لالچ دے کر رابطہ کیا گیا تو اس نے بتایا کہ صدر کے علاقے کا ٹھیکہ اس کے سردار لالو کے پاس ہے۔ لالو نے کسی اسلم نامی شخص سے یہ جگہ لی ہے۔ خانو کا کہنا تھا کہ اس نے یومیہ ایک ہزار روپے لالو کو دینے ہوتے ہیں اور اس سے زیادہ جتنے کما لے وہ اس کے ہوتے ہیں۔ لالو کے پاس نعمان سینٹر کا ایک مخصوص علاقہ ہے جہاں وہ کسی دوسرے گداگر کو بھیک مانگنے نہیں دیتا۔
خانو کا کہنا تھا کہ اسے یہاں آئے ہوئے پانچ ماہ ہوئے ہیں اور ابھی دھندا کچھ اچھا نہیں ہے۔ اس کو کہا گیا تھا کہ یہاں کوئی دوسرا بھکاری نہیں آئے گا۔ لیکن یہاں تو روزانہ 6 سے 12 لوگ آجاتے ہیں، جنہیں بھگانا پڑتا ہے جس میں اس کی مدد علاقہ پولیس بھی کرتی ہے۔ اسی طرح اسلم کے حوالے سے پتہ چلا کہ اس کا تعلق صدر کے ایک جرائم پیشہ گروہ سے ہے جو صدر میں بھتہ وصولی کا سیٹ اپ بھی چلاتا رہا ہے۔
اسلم کو ’’باگا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ وہ پولیس کیلئے بیٹ جمع کرتا ہے اور گذشتہ کئی برس سے صدر کے علاقے میں بطور بیٹر کام بھی کرتا رہا ہے۔ ’’امت‘‘ کو سروے کے دوران معلوم ہوا کہ شہر میں گداگروں کے 8 ٹھیکیدار لالو، انوچل، سیٹھ کمہار کا بیٹا شنکر، فراز، شکیل احمد، نوید گجر، طفیل عرف طیفا اور امداد عرف مداری ہیں۔
پنجاب سے گداگروں کے چھ گروپ لاک ڈائون کا فائدہ اٹھانے گداگری کیلئے کراچی آئے تھے جو تاحال کراچی میں ہی مقیم ہیں۔ ان گروپوں کے سربراہ نوید عرف نیدا، چوہدری ناصر، شانی، وقار سیٹھ عرف پائپ والا، تنویر عرف ٹنڈا اور یعقوب بالا ہیں۔ ان گداگروں کو کراچی پولیس کے کچھ افسران اور شہر کی بعض با اثر شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہے۔
گداگروں کی بڑی تعداد کا تعلق اندرون سندھ اورجنوبی پنجاب سے ہے۔ یہ لوگ گداگری کی آڑ میں ہر طرح کے جرائم بھی کرتے ہیں۔ ان گداگروں میں اکثر کا تعلق ہندو برادری کی بھیل، کولہی، میگھواڑ اور باگڑی قوموں سے ہے، جنہوں نے اپنے نام مسلمانوں والے رکھے ہوئے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ کراچی میں گداگروں کا سب سے بڑا گروپ طفیل عرف طیفا کا ہے۔ اس میں 800 سے زائد گداگر ہیں۔ طیفا کے پاس 200 عورتیں اور 150 چھوٹے بچے بھی ہیں۔ ٹھیکیدار طفیل عرف طیفا شہر میں بڑے ٹھیکے خرید کر اپنے کارندوں سے گداگری کراتا ہے۔ اس کا ٹھکانا سہراب گوٹھ میں ہے جہاں پانچوں اضلاع سے بھیک مانگ کر آنے والے گداگروں سے روزانہ کا حساب لیا جاتا ہے۔
طیفا کے گروہ کے ایک گداگر منصور نے بتایا کہ وہ 8 سال سے بھیک مانگ رہا ہے اور روزانہ چار ہزار روپے تک کما لیتا ہے۔ کمائی کا آدھا حصہ طیفا کو دینا ہوتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بھکاری اس کام کے ساتھ ساتھ منشیات کی ترسیل کا بھی ایک اہم ذریعہ ہیں۔ انہیں کسی بھی مقام پر کوئی بھی قانون نافذ کرنے والا ادارہ چیک نہی کرتا۔ جس کی وجہ سے یہ منشیات کی بھاری کھیپ بھی با آسانی ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل کر دیتے ہیں۔ اس کا علم پولیس کو بخوبی ہے مگر وہ ہر ماہ آنے والے بھتے کے عوض ان کے اس جرم پر خاموش رہتی ہے۔
رمضان المبارت میں بھکاریوں کی تعداد کراچی میں لاکھوں میں ہوتی ہے۔ اگرجلد اس سلسلے میں پولیس اور حکومت نے کوئی مضبوط لائحہ عمل طے نہیں کیا تو ہر سال کراچی کے شہری اس ہی طرح ان بھکاریوں کے ہا تھوں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر لٹتے رہیں گے اور یہ بھکاری مافیا دن رات مزید سے مزید طاقتور ہوتی چلی جائے گی۔
اس حوالے سے موقف جاننے کیلئے کراچی پولیس افسران سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بعد میں کال کرنے کا کہہ فوری طورپرموقف دینے سے گریزکیا۔