امت رپورٹ
اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے لاہور جلسے کے بعد فائنل رائونڈ کھیلنے کی تیاری کرلی۔
واضح رہے کہ پی ڈی ایم نے تیرہ دسمبرکو مینار پاکستان کے گرائونڈ میں عوامی طاقت کے مظاہرے کا اعلان کر رکھا ہے۔ یہ ایونٹ اپوزیشن کی جانب سے چاروں صوبوں میں بڑے جلسوں کی سیریزکا آخری جلسہ ہوگا۔
نون لیگی ذرائع کے مطابق اس جلسے میں آئندہ کے فیصلہ کن لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔ پی ڈی ایم میں شامل مختلف پارٹیوں کے بیشتر رہنمائوں کا خیال ہے کہ اسی جلسے میں اسلام آباد کی طرف فیصلہ کن لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان بھی کر دیا جائے۔ اس لانگ مارچ کے حوالے سے مختلف تاریخیں بھی ڈسکس ہو رہی ہیں۔
بیشتر رہنمائوں کا خیال ہے کہ لانگ مارچ بارہ یا تیرہ جنوری کو شروع کیا جائے اور وفاقی دارالحکومت پہنچنے پراس لانگ مارچ کو دھرنے میں تبدیل کر دیا جائے۔ تاہم ذرائع کے بقول لانگ مارچ کی حتمی تاریخ طے کرنے سے قبل موسم اور دیگر معاملات کو بھی مد نظر رکھا جائے گا۔ اس سلسلے میں 13 دسمبر کے لاہور جلسے سے پہلے پی ڈی ایم کا اجلاس ہوگا تاکہ لانگ مارچ کی حتمی تاریخ پراتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔ اور اس کے بعد اس تاریخ کا اعلان لاہور جلسے میں کر دیا جائے۔
ذرائع کے مطابق بڑے شہروں میں جلسوں کی سیریز کا مرحلہ مکمل ہونے پر جنوری تک کے عرصے کے دوران اپوزیشن اپنا مومینٹم برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں بھی تین سے چار تجاویز زیر غور ہیں۔ ان میں سے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ اس ایک ماہ کے دوران چاروں صوبوں میں ایک سے دوسرے شہر تک بڑی ریلیاں نکالی جائیں۔ تاکہ جب لانگ مارچ کی کال دی جائے تو کارکنان پوری طرح چارج ہوں۔
ذرائع کے مطابق لانگ مارچ کے آغاز کے بارے میں بھی تین آپشنز زیر غور ہیں۔ بعض رہنمائوں کا کہنا ہے کہ یہ مرحلہ لاہور سے شروع کیا جائے۔ جبکہ کچھ رہنمائوں کا خیال ہے کہ پشاور یا پھر آزادی مارچ کی طرح لانگ مارچ کا آغاز کراچی سے کیا جائے۔ ایک لیگی عہدیدار کے مطابق نواز شریف کی والدہ کی رحلت کے باعث وقتی طور پر پارٹی قیادت، بالخصوص نواز شریف اور مریم نواز کی سیاسی سرگرمیاں معطل ہوئی ہیں۔ تاہم تیرہ دسمبر کے جلسے تک یہ سرگرمیاں بحال ہو چکی ہوں گی۔
پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو کہا گیا ہے کہ وہ جلسے کی تیاریوں کا سلسلہ جاری رکھیں۔ جو صوبائی صدر رانا ثناء اللہ کی قیادت میں ہو رہی ہیں۔ جبکہ لاہور میں پارٹی کے سرگرم عہدیداران اور کارکنوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ جلسے کی تاریخ قریب آنے پر وہ اس وقت تک روپوشی اختیار کرلیں۔ جب تک جلسہ منعقد نہ ہو جائے۔ تاکہ ممکنہ گرفتاریوں سے بچا جا سکے۔
دوسری جانب پچھلے چند روز سے جنوری میں حکومت کے گھر جانے سے متعلق خبریں چل رہی ہیں۔ مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی جانب سے بھی یہ کہا جا رہا ہے۔ ان خبروں کا بیک گرائونڈ بیان کرتے ہوئے پی ڈی ایم میں شامل ایک اہم پارٹی کے رہنما نے بتایا کہ اپوزیشن اتحاد کی تقریباً تمام پارٹیوں کا اس پراتفاق ہے کہ جنوری میں لانگ مارچ کی شکل میں جو عوامی ریلا نکلے گا۔ اس دبائو کو پی ٹی آئی حکومت برداشت نہیں کر سکے گی۔
مذکورہ رہنما نے ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کیا کہ اپوزیشن کے اس یقین کا تعلق پس پردہ پیشکشوں سے بھی جڑا ہے۔ جس کے تحت اب تک صرف پیغام رسانی ہوئی ہے۔ رہنما کے بقول تاحال اس معاملے میں کوئی بریک تھرو والی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ کیونکہ تمام اپوزیشن پارٹیوں کا اتفاق ہے کہ جنوری میں لانگ مارچ کے موقع پر مضبوط پوزیشن میں آ کر ان پیشکشوں کا جواب اور بات چیت کی جائے۔ تاکہ اپنی شرائط پر معاملہ طے کیا جا سکے۔
جب لاکھوں عوام سڑکوں پر ہوں گے تو دوسرے فریق کے لئے بات ماننے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا۔ اور یہی سب سے مناسب وقت ہوگا۔ پھر یہ کہ رابطے ٹوٹے نہیں ہیں۔ پی ڈی ایم رہنما کا یہ بھی کہنا تھا کہ اپوزیشن پارٹیاں متفقہ فیصلہ کر چکی ہیں کسی بھی ایشو پر حکومت سے کوئی بات نہیں کی جائے گی۔ جیسا کہ گلگت بلتستان الیکشن کے حوالے سے اسپیکر قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا گیا تھا۔ اپوزیشن اتحاد کی یہ توقعات کس قدر پوری ہو سکتی ہیں۔ اس کا حتمی تعین جنوری میں ہو سکے گا۔
تاہم پی ڈی ایم رہنما کا اصرار تھا کہ اپوزیشن کی بڑی پارٹیوں کے درمیان جو تھوڑا بہت اعتماد کا فقدان تھا۔ گلگت بلتستان الیکشن کے نتائج کے بعد وہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ بالخصوص بلاول بھٹو زرداری کی خوش فہمی ہوا ہو چکی ہے۔ اور اب وہ کسی کی بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ بلکہ دیگر اپوزیشن پارٹیوں سے بڑھ کر اب پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف فیصلہ کن مرحلہ شروع کرنے کی خواہش مند ہے۔
ادھر یہ معلوم کرنے کے لئے کہ اپوزیشن کے مجوزہ پلان کو کائونٹر کرنے کے لئے حکومت کیا لائحہ عمل طے کر رہی ہے۔
بعض سیاسی و غیر سیاسی ذرائع کا دعویٰ تھا کہ وزیراعظم عمران خان اس حوالے سے اپنا پلان ترتیب دے چکے ہیں۔ جو یہ ہے کہ اگر اپوزیشن تحریک کے نتیجے میں حکومت گرنے کا خطرہ پیدا ہو گیا تو وہ خود ہی اسمبلیاں تحلیل کر کے قبل از وقت الیکشن کا اعلان کر دیں گے۔ ان ذرائع کے بقول یہ پلان نیا نہیں۔ اس حوالے سے کچھ عرصہ پہلے خبریں بھی چل چکی ہیں کہ وزیراعظم قبل از وقت الیکشن کا آپشن اختیار کر سکتے ہیں۔ تاہم نئی بات یہ ہے کہ اب اس پر سنجیدگی سے کام ہو رہا ہے۔
ذرائع کے بقول وزیراعظم قبل از وقت الیکشن کرانے سے پہلے خاص طور پر پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے خواہاں ہیں۔ تاکہ پارٹی کو گراس روٹ لیول پر مضبوط کر کے عام انتخابات میں اس بلدیاتی ڈھانچے سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ اس مقصد کے لئے پنجاب میں پرانا بلدیاتی نظام تحلیل کر کے گائوں اور دیہات پر مشتمل نیا بلدیاتی سسٹم لایا گیا۔
ذرائع کے بقول حکومت نے رواں برس دسمبر میں پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کرانے کا ذہن بنایا تھا۔ تاہم اپوزیشن اتحاد کی تحریک نے ان تیاریوں کو متاثر کر دیا۔ حکومت سمجھتی ہے کہ موجودہ حالات میں جب مہنگائی اور بے روزگاری کے ایشو کو لے کر اس کی مقبولیت متاثر ہو رہی ہے تو ایسے میں پنجاب کے بلدیاتی الیکشن میں کلین سوئپ سے متعلق اس کا منصوبہ بیک فائرکر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی الیکشن میں فی الحال تاخیری حربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ اگر اکتوبر میں حکومت پنجاب کی کمیٹی دیہات اور محلوں کی حد بندی سے متعلق دستاویزات الیکشن کمیشن میں جمع کرا دیتی تو دسمبر میں بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کا امکان روشن ہو جاتا۔
ذرائع کے مطابق عمران خان کے’’اعتماد‘‘ کا لیول یہ ہے کہ وہ بلدیاتی الیکشن کے علاوہ قبل از وقت عام انتخابات میں بھی دو ہزار اٹھارہ سے زیادہ سیٹیں لینے کا یقین کئے بیٹھے ہیں۔ وزیراعظم اکثر اپنوں سے یہ شکوہ بھی کرتے رہے ہیں کہ انہیں دو تہائی اکثریت نہیں مل سکی۔ لہٰذا وہ اپنے اتحادیوں کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہے ہیں اور ساتھ ہی اہم قانون سازی کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ لہٰذا دوبارہ الیکشن کرا کے وہ اس ہینڈی کیپ والی صورتحال سے نکلنا چاہتے ہیں۔
اسی خیال کے تحت وزیراعظم عمران خان نے خود بھی قبل از وقت الیکشن کے امکان کو رد نہیں کیا تھا۔ ذرائع کے بقول اپوزیشن اور حکومت دونوں کے اپنے اپنے پلان ہیں۔ سرخرو کون ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ اگلے چند ماہ میں ہو جائے گا۔