متحدہ سربراہ کسی معروف سیاسی چہرے کو بھارت مستقل قیام کراکے’’را‘‘ کے پلان پر عمل کے خواہاں تھے-فائل فوٹو
متحدہ سربراہ کسی معروف سیاسی چہرے کو بھارت مستقل قیام کراکے’’را‘‘ کے پلان پر عمل کے خواہاں تھے-فائل فوٹو

الطاف حسین نے’’را‘‘ کی ہدایت پرکیا پلان بنایا تھا‘‘

امت رپورٹ
برصغیر کی تقسیم غلط ثابت کرنے سے متعلق اپنے گھنائونے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے الطاف حسین کراچی سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھارت منتقل کرنا چاہتے تھے۔

متحدہ سربراہ کی کوشش تھی کہ پارٹی کے کسی اہم رہنما کو مستقل طورپربھارت میں قیام کرایا جائے۔ جو ان مہاجرین کی واپسی کو خوش آمدید کہے۔ کیونکہ جاوید لنگڑا جیسے دہشت گردوں کے بھارت میں قیام سے مقاصد پورے نہیں ہورہے تھے۔ لہٰذا مطلوب مقصد کے حصول کے لیے کسی سیاسی چہرے کی ضرورت تھی۔ جو پارٹی عہدیدار ہو اور پارلیمنٹ کا رکن بھی رہ چکا ہو۔

اس سلسلے میں پہلے عمران فاروق کو بھارت مستقل یا طویل قیام کے لیے راضی کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انکار پر یہ مقصد خالد مقبول صدیقی کے ذریعے حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ خالد مقبول صدیقی نے بھارت میں پاکستان مخالف تقریرتوکردی لیکن مستقل قیام پرآمادہ نہیں ہوئے اور وہاں سے امریکہ پہنچ گئے تھے۔ یہ انکشافات پارٹی کے ایک ایسے سابق عہدیدار نے کیے ہیں جو ان معاملات کا عینی شاہد ہے۔

واضح رہے کہ چند روز پہلے مصطفیٰ کمال نے کہا تھا کہ حال ہی میں گرفتار ہونے والا’’را‘‘ کا ایجنٹ، خالد مقبول صدیقی کا تیس برس پرانا ساتھی ہے۔ چیئرمین پی ایس پی کا یہ بھی کہنا تھا کہ خالد مقبول صدیقی بھارت میں اپنا پاکستانی پاسپورٹ پھاڑ کر بھارتی پاسپورٹ پر امریکہ گئے تھے۔

سابق ایم کیو ایم عہدیدارکے مطابق انہیں یہ تو نہیں معلوم کہ خالد مقبول صدیقی بھارتی یا پاکستانی پاسپورٹ پر دہلی سے امریکہ گئے تھے۔ لیکن وہ اس بات کا عینی شاہد ہے کہ پچانوے اور چھیانوے میں کراچی کے لوگوں کو منڈی کی طرح بنکاک میں جمع کیا جاتا تھا، اور وہاں سے انہیں بھارت روانہ کردیا جاتا۔ اس سارے معاملے میں خالد مقبول صدیقی کلیدی رول ادا کر رہے تھے۔ جبکہ الطاف حسین کی ہدایت پر لندن سے یہ سلسلہ ندیم نصرت چلا رہے تھے۔ کراچی سے بنکاک پہنچائے جانے والوں کو عالیشان ہوٹلوں میں ٹھہرایا جاتا تھا۔ ان میں بہت سے لوگ بھارت نہیں جانا چاہتے تھے۔ ایسے لوگ پارٹی کی مرکزی قیادت کے زیر عتاب آجاتے تھے۔ ان کی فنڈنگ روک دی جاتی اور وہ ہوٹل کا کرایہ دینے سے بھی قاصر ہوجاتے۔ لہٰذا ان کے پاس صرف ایک آپشن باقی بچتا تھا کہ وہ پاکستان میں اپنے کسی عزیز سے رابطہ کرکے واپسی کے ٹکٹ کے پیسے منگوائیں یا بھارت چلے جائیں۔ زیادہ تر نے بھارت جانے کا آپشن اختیار کیا۔

سابق عہدیدار نے بتایا کہ کراچی سے بنکاک پہنچنے والوں میں ایم کیو ایم کے مرحوم کونسلر اسلم سبزواری کا بیٹا اور ایم کیو ایم پاکستان کے موجودہ رہنما فیصل سبزواری کا بھتیجا بھی شامل تھا۔ سابق عہدیدار بتاتے ہیں۔ ’’میں ان دنوں بنکاک میں ہی تھا۔ اور میں نے ایسے لوگوں کو واپس پاکستان بھیجنے کا ٹاسک سنبھال رکھا تھا، جو بھارت جانے سے انکاری تھے اورانہیں لندن سے آنے والی ہدایات پر پہنچایا گیا تھا۔

اس معاملے پر میری کئی بار ندیم نصرت سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔ بالآخر طویل بحث و مباحثہ کے بعد الطاف حسین قائل ہوگئے تھے کہ جو بھارت جانے پر راضی نہیں، اسے کسی دوسرے ملک یا واپس پاکستان بھیج دیا جائے۔ ایک روز ایک ساتھی نے اسلم سبزواری کی اہلیہ کا پیغام مجھ تک پہنچایا کہ ان کے بیٹے کو بھی بنکاک پہنچایا گیا ہے۔ لیکن ہم اسے بھارت نہیں بھیجنا چاہتے۔ لہٰذا کسی طرح اسے واپس پاکستان بھیج دیا جائے چونکہ میں اسلم سبزواری کی اہلیہ کو بھابھی کہتا تھا اور ان کی بہت تعظیم کرتا تھا۔ لہٰذا میں نے ساتھیوں کو ان کے بیٹے کا پتہ لگانے کی ہدایت کی۔ کیونکہ بنکاک کے مختلف ہوٹلوں میں کراچی سے لانے والوں کو ٹھہرایا گیا تھا۔ تاہم ایک دو روز کی تلاش کے بعد اسلم سبزواری کے بیٹے کا سراغ مل گیا اور میں نے اسے واپس پاکستان بھجوادیا‘‘۔

سابق عہدیدار کے مطابق دراصل کراچی سے بنکاک لائے جانے والوں میں بڑی تعداد ایم کیو ایم کے کارکنوں، ووٹرز اور ان کے ہمدردوں کی تھی۔ انہیں کراچی میں جاری آپریشن سے بچانے کے نام پر بنکاک لایا جاتا تھا اور پھر یہاں سے بھارت منتقل کر دیا جاتا۔ جو لوگ انکار کرتے ان کے ہوٹلوں کے کرائے اور کھانے پینے کا خرچہ روک لیا جاتا تھا۔ جبکہ راضی خوشی بھارت جانے والوں کو کچھ دن عیاشی کے لیے بنکاک کے تفریحی مقام پٹایا (Pattaya) بھیج دیا جاتا تھا۔ پٹایا بنکاک سے قریباً سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

سابق عہدیدار نے بتایا کہ ’’را‘‘ کی ہدایت پر الطاف حسین نے یہ پلان بنایا تھا کہ کراچی سے ایسے اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد کو بھارت بھیجا جائے۔ جن کے آبا و اجداد قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرگئے تھے۔ تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ ان مہاجرین کے ساتھ پاکستان میں بہت زیادہ ظلم کیا جارہا ہے ۔ اوراب یہ لوگ تقسیم پاکستان کو ایک غلطی تسلیم کرتے ہیں۔ لہٰذا دوبارہ بھارت میں بسنا چاہتے ہیں۔ آگے چل کر مشرف دور میں اس حوالے سے الطاف حسین کی دہلی میں تقریراسی پلان کا حصہ تھی۔

سابق عہدیدار کے مطابق لیکن پلان کو موثر بنانے کے لئے کسی ایسے معروف پارٹی رہنما کا بھارت میں مستقل قیام ضروری تھا۔ جو کراچی سے آنے والے ان سینکڑوں افراد کا استقبال کرتا۔ ان سے پاکستان کے خلاف پریس کانفرنسیں کراتا۔ ان پریس کانفرنسوں میں پاکستان میں ہونے والے مظالم سے متعلق پروپیگنڈہ بیان کیا جاتا۔ کیونکہ جاوید لنگڑا اور اس جیسے دیگر لوگوں کے بھارت میں مستقل قیام سے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو پارہے تھے۔ کیونکہ ان پر دہشت گردی کا لیبل تھا۔ لہٰذا اس منصوبے کے لئے ایک معروف سیاسی چہرے کی ضرورت تھی۔ اس کے لئے الطاف حسین نے پہلے عمران فاروق کو راضی کرنے کی کوشش کی۔ لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ یہ وہ وقت تھا جب سن انیس سو ننانوے میں عمران فاروق لندن پہنچے تھے۔

ایم کیو ایم کے کارکنان اور ہمدردوں کو بنکاک سے بھارت بھیجنے کا سلسلہ مشرف دور کے ابتدائی برسوں تک جاری رہا تھا۔ عمران فاروق کے انکار کے بعد یہی کام خالد مقبول صدیقی سے لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ تاہم وہ بھی آمادہ نہیں ہوئے۔ بطور وزیر خالد مقبول صدیقی بھارت گئے ضرور اور پاکستان کے خلاف پریس کانفرنس بھی کی۔ لیکن پھر وہاں سے امریکہ چلے گئے۔ یوں پارٹی کے کسی اہم رہنما کو بھارت میں مستقل قیام کراکے تقسیم ہند کو غلطی ثابت کرنے سے متعلق ’’را‘‘ اور الطاف کا مشترکہ پلان ناکام ہوگیا۔
ایم کیو ایم کے سابق عہدیدار بتاتے ہیں ’’بھارت بھیجے جانے والوں میں دوسری کٹیگری دہشت گرد اور ٹارگٹ کلرز کی تھی۔ جنہیں بھارت لے جاکر ٹریننگ کیمپوں میں مزید تربیت دی جاتی تھی۔ ان میں صولت مرزا بھی شامل تھا۔ ایک روز میرے پاس صولت مرزا کا بھائی آیا اور کہا کہ ایم کیو ایم نے صولت مرزا کو بھارت بھیج دیا ہے۔ ہم اسے واپس لانا چاہتے ہیں۔ جس پر میں نے انہیں آگاہ کیا کہ جو بھارت چلا گیا۔ اسے واپس لانے کے لئے میں کچھ نہیں کرسکتا۔ تاہم بنکاک سے ایسے بہت سے لوگوں کو میں واپس پاکستان بھیج چکا ہوں۔ جن کی فیملی یا وہ خود بھارت نہیں جانا چاہتے تھے‘‘۔

سابق عہدیدار کے مطابق بعد ازاں صولت مرزا کی ٹریننگ کیمپ چلانے والے بھارتی فوج کے کمانڈنگ آفیسر سے لڑائی ہوگئی۔ اس کی شکایت لندن پہنچی تو اسے وہاں سے جنوبی افریقہ بھیج دیا گیا۔ کیونکہ واپس پاکستان بھیجنے کی صورت میں وہ سارے رازاگل سکتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں اسے گرفتار کرلیا گیا تھا اوروہ پھانسی جیسے انجام سے دوچار ہوا۔ گرفتاری سے پہلے صولت مرزا جنوبی افریقہ سے بنکاک آیا ہوا تھا۔ جو ایک زمانے میں ایم کیو ایم کا سب سے سرگرم مرکز بن گیا تھا۔

سابق عہدیدار کے مطابق مشرف حکومت میں اقتدار کا حصہ بننے کے بعد ایم کیو ایم کی ریاست مخالف سرگرمیوں میں تیزی آگئی تھی۔ ان دنوں لندن میں اپنے قریبی ساتھیوں کو الطاف حسین برملا کہا کرتے تھے کہ پارٹی پر امریکہ اور بھارت کا ہاتھ ہے۔ مشرف حکومت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ لہٰذا اس دور میں ایم کیو ایم نے ڈٹ کر حکومتی مراعات بھی حاصل کیں اور ساتھ ہی اپنی ریاست مخالف سرگرمیاں بھی تیز کر دی تھیں۔ مشرف دور میں ہی الطاف حسین نے دہلی میں تقریرکرتے ہوئے برصغیر کی تقسیم کو ایک عظیم غلطی قرار دیا تھا۔ اس کے باوجود دہلی میں پاکستانی سفارتخانے میں انہیں پرتکلف ظہرانہ دیا گیا۔

سابق عہدیدار کے مطابق بالخصوص نائن الیون کے بعد پاکستان میں اسلام پسندوں کے خلاف امریکہ کو ایم کیو ایم جیسی سیکولراوراسلام بیزار پارٹی کی ضرورت تھی۔ امریکہ کے کہنے پر ہی مشرف نے ایم کیو ایم کو حکومت کا حصہ بنایا تھا لہٰذا ایم کیو ایم کی ریاست مخالف سرگرمیوں کے بارے میں سب کچھ جانتے ہوئے بھی وہ خاموش رہا کرتے تھے۔

سابق عہدیدار نے انکشاف کیا کہ پارٹی کی ریاست مخالف سرگرمیوں سے بددل ہوکر ایک روز انہوں نے اس سارے معاملے سے مشرف کے قریبی ساتھی راشد قریشی کو آگاہ کیا تو وہ الٹا اس پر برہم ہوگئے اور کہا کہ ایم کیو ایم ایک بڑی سیاسی پارٹی ہے۔ جس کا کراچی میں خاصا اثرورسوخ ہے۔ ساتھ ہی تاکید کی کہ ایم کیو ایم کے خلاف کام نہ کریں۔