امت رپورٹ
ایک ایسے وقت میں جب کورونا (کووڈ نائنٹین) کی دوسری شدید لہرنے پورے ملک کو گرفت میں لیا ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کے اقدام نے اس جان لیوا وبا سے نبرد آزما ڈاکٹروں کو مشتعل کردیا ۔
اس اشتعال کا سبب رات کے اندھیرے میں جاری کیا جانے والا آرڈیننس ہے جس کے تحت اسلام آباد کے بڑے سرکاری اسپتالوں میں سے ایک پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (پمز) کی سرکاری حیثیت ختم کر دی گئی ہے اوراب اس اسپتال کو بورڈ آف گورنرزکے ذریعے چلایا جائے گا۔ تاہم پمز گرینڈ ہیلتھ الائنس کے چیئرمین ڈاکٹر اسفندیارنے اس حکومتی اقدام کے خلاف بھرپور احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔ جس کے تحت ہڑتال اور دھرنے کے آپشن استعمال کرنے پر مشاورت کی جارہی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ پمز اسپتال کے بعد وفاقی دارالحکومت کے دیگر سرکاری اسپتالوں پر بھی شب خون مارنے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے۔
پمز کو بورڈ آف گورنرز کے تحت چلانے کے لئے میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشن (ایم ٹی آئی) آرڈیننس لایا گیا ہے۔ قبل ازیں یہ تجربہ خیبرپختون خواہ میں کیا جا چکا ہے جو بری طرح ناکام رہا۔ گزشتہ برس پنجاب کے سرکاری اسپتالوں کو بھی ایم ٹی آئی کے شکنجے میں لینے کی کوششیں شروع کی گئی تھیں۔
اس حوالے سے پنجاب اسمبلی میں بل بھی منظور کرایا گیا۔ تاہم ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اور گرینڈ ہیلتھ الائنس اس راہ میں تاحال رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اب یہ معاملہ عدالت میں بھی پہنچ چکا ہے۔ رواں برس مارچ میں جب سروسز اسپتال لاہور میں گرینڈ ہیلتھ الائنس کا اجلاس ہو رہا تھا تو ٹھیک اس دوران پنجاب اسمبلی نے اس بل کی منظوری دی۔ بعد ازاں گرینڈ ہیلتھ الائنس نے اس بل کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا۔
کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جواد حسن نے کہا کہ ’’حکومت مناسب مشاورت کے بغیر بل منظور نہیں کر سکتی۔ یہ بل غیر آئینی ہے‘‘۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پشاور کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عطاء الرحمن نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پنجاب حکومت نے ایم ٹی آئی بل تو اسمبلی سے منظور کرالیا۔ لیکن وہ تاحال صوبے کے سرکاری اسپتالوں میں اسے نافذ کرنے سے قاصر ہے۔ لیکن حکومت نے اپنی کوششیں ترک نہیں کی ہیں۔
ڈاکٹروں کے احتجاج اورکورونا کی دوسری لہرآنے کی وجہ سے حکومتی کوششیں تاخیرکا شکار ہوئی ہیں۔ پہلے مرحلے میں حکومت پائلٹ پروجیکٹ کے طورپرلاہوراور سیالکوٹ کے اسپتالوں میں یہ تجربہ کرنا چاہتی ہے۔ لیکن ہم حکومت کے ان عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ خیبر پختونخوا میں اس تجربے کی بدولت پہلے ہی پورا ہیلتھ سسٹم تباہ ہو چکا ہے۔ اور سرکاری اسپتالوں کے مریضوں سے مفت علاج کی رعایت چھین لی گئی ہے۔ اب حکومت اسے پورے ملک میں نافذ کرنا چاہتی ہے۔ایم ٹی آئی ایکٹ کا آغاز خیبر پختونخوا سے کیا گیا تھا۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایم ٹی آئی دراصل سرکاری اسپتالوں کو نجکاری میں لینے کی ایک شکل ہے۔ جس کے تحت من پسند بورڈ آف گورنرز کے ذریعے سرکاری اسپتالوں کو چلایا جاتا ہے۔ جبکہ ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر پیرا میڈیکل اسٹاف کی سرکاری حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ اور وہ پنشن سمیت دیگر مراعات سے محروم ہوجاتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ غریب متاثر ہوتا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب ایم ٹی آئی ایکٹ کی کاپی کے مطابق بنیادی طور پر ایم ٹی آئی، بورڈ آف گورنرز کو سرکاری اسپتالوں کا مالی بجٹ اور انتظامی امور چلانے کی مکمل خود مختاری دیتا ہے۔ ایم ٹی آئی کے تحت صوبے کا وزیراعلیٰ سرچ اینڈ نامینیشن کمیٹی تشکیل دیتا ہے۔ جبکہ وزیر صحت، دیگر سرکاری اور غیر سرکاری ارکان کے ساتھ اس کمیٹی کا چیئرمین ہوتا ہے۔ یہ کمیٹی، صوبائی پالیسی بورڈ کے ارکان تجویز کرتی ہے۔ بعد ازاں یہ بورڈ اسپتالوں کی پالیسیاں بناتا ہے اور ان کی نگرانی کرتا ہے۔ بورڈ آف گورنرز کی تقرری بھی سرچ اینڈ نامینیشن کمیٹی کرتی ہے۔
بورڈ آف گورنرز اسپتالوں کا بجٹ، قوانین اور انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیتا ہے۔ جبکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایم ٹی آئی کے نافذ ہونے کے بعد اسپتالوں کے ڈاکٹرز، نرسیں اور دیگر میڈیکل اسٹاف سرکاری ملازمین نہیں رہتے۔
پنجاب میں ایم ٹی آئی ایکٹ نافذ کرنے میں ناکامی کے بعد حکومت نے وفاقی دارالحکومت کے بڑے پمز اسپتال میں آرڈیننس کے ذریعے راتوں رات ایم ٹی آئی نافذ کر دیا۔ جس کے ساتھ ہی ڈاکٹروں نے بھرپور احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
پمزگرینڈ ہیلتھ الائنس کے ترجمان ڈاکٹر حیدر عباسی نے کہا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر کے دوران ایم ٹی آئی لایا گیا۔ خیبر پختون میں ناکام ہونے والے ایم ٹی آئی کو اسلام آباد کے اسپتالوں میں لاکر مسائل بڑھیں گے۔ غریب سے مفت علاج کا حق چھن جائے گا۔ اس سسٹم کے تحت سیاسی مداخلت ہوگی۔ کیونکہ کے خیبر پختون خواہ کے اسپتالوں کو چلانے والے بورڈ آف گورنرز میں بھی حکومت کے من پسند ارکان شامل کئے گئے۔ جس کی وجہ سے صوبے کا ہیلتھ سسٹم تباہ ہوچکا ہے۔
ڈاکٹر حیدر عباسی کے بقول ایم ٹی آئی آرڈیننس نافذ ہونے کے بعد پمز اب سرکاری ادارہ نہیں رہا۔ بلکہ اسے ایک خود مختار کارپوریٹ باڈی بنادیا گیا ہے۔ ڈاکٹروں کی مشاورت کے بغیر راتوں رات ہونے والی اس نجکاری کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔
پمزکے ایک اور ڈاکٹر علی کا کہنا تھا کہ صرف پمز اسپتال کے دو سو سے زائد ڈاکٹرز کے علاوہ نرسیں اور دیگر پیرا میڈیکل اسٹاف کورونا کا شکار ہو چکا ہے۔ اسٹاف کی قلت کے باوجود ڈاکٹر اپنی استطاعت سے بڑھ کر کورونا کی دوسری لہر کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اس قربانی کے باوجود حکومت نے رات کے اندھیرے میں آرڈیننس لاکر ڈاکٹراور دیگر میڈیکل اسٹاف کی سرکاری حیثیت ختم کر دی ہے۔
اس سے کورونا کے خلاف حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ایک ایسے موقع پر ڈاکٹروں کو احتجاج پر مجبور کر رہی ہے، جب کورونا سے نمٹنے کے لئے ان کی شدید ضرورت ہے۔ اس حکومتی اقدام کے خلاف دیگر صوبوں کے ہیلتھ گرینڈ الائنس کے ذمہ داران کے ساتھ بھی رابطہ کیا جائے گا اور بھرپور مہم چلائی جائے گی۔ اس میں دھرنے کا آپشن بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ پمز اسپتال میں چالیس فیصد مریض خیبر پختون سے علاج کرانے آتے ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں محکمہ صحت کے ایک اہم ترین عہدیدار نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ایم ٹی آئی کے خالق وزیراعظم عمران خان کے فرسٹ کزن ڈاکٹر نوشیرواں برکی ہیں۔ جنہیں تحریک انصاف کی حکومت طبی شعبے میں اصلاحات کرنے کے نام پر امریکہ سے لے کر آئی تھی۔ ڈاکٹر نوشیرواں برکی نے، جو ایک امریکی یونیورسٹی سے منسلک ہونے کے علاوہ شوکت خانم اسپتال کے بورڈ آف گورنرز میں بھی شامل رہے، سب سے پہلے یہ تجربہ خیبر پختونخواہ کے سرکاری اسپتالوں میں کیا۔ انہیں ایم ٹی آئی کو نافذ کرانے کے لئے تشکیل کردہ ٹاسک فورس کا سربراہ بنایا گیا تھا۔
عہدیدار کے مطابق ایم ٹی آئی ایکٹ نافذ کرنے کے بعد سے خیبر پختون کے سرکاری اسپتالوں کا نظام تباہ ہوگیا۔ درجنوں ڈاکٹر بددل ہوکر بیرون ملک چلے گئے۔ اور اب تک واپس نہیں آئے ہیں۔ صوبائی محکمہ صحت کے یہ اہم ترین عہدیدار پرویز خٹک سے خاصے قریب ہیں۔ اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر نوشیرواں برکی کا تخلیق کردہ ایم ٹی آئی صحت کے نظام کے لئے ایک وائرس سے کم نہیں۔
اسلام آباد میں موجود ذرائع نے بتایا کہ قبل ازیں ڈاکٹر ظفر مرزا کے دور میں اسلام آباد کے سرکاری اسپتالوں میں ایم ٹی آئی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ لیکن ڈاکٹر ظفر مرزا اس راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ ان کے جانے کے بعد وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت بننے والے ڈاکٹر فیصل سلطان کی موجودگی میں حکومت نے پہلے مرحلے کے طور پر پمز اسپتال میں ایم ٹی آئی آرڈیننس نافذ کرکے اپنے پلان کا آغاز کر دیا ہے۔
ذرائع کا دعویٰ تھا کہ اگرچہ ڈاکٹر فیصل سلطان بھی اس کے حق میں نہیں۔ لیکن مفادات کی مجبوری آڑے آرہی ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر فیصل سلطان شوکت خانم اسپتال کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او) ہیں۔
دو برس قبل جب خیبر پختون کے اسپتالوں کی حالت زار سے متعلق ایک کیس کی سماعت ہورہی تھی تو اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے نوشیرواں برکی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ صوبے میں اسپتالوں کی ابتر حالت کے ذمہ دار عمران خان کے کزن ہیں۔ جبکہ گزشتہ برس خیبر ٹیچنگ اسپتال پشاور کے دورے کے موقع پر مشتعل ڈاکٹروں نے نوشیرواں برکی پر انڈوں سے حملہ کیا تھا۔