امت رپورٹ
اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل تمام پارٹیوں کے درمیان اس بات پر اتفاق ہوگیا ہے کہ لانگ مارچ شروع ہونے تک کسی سے بھی مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔
اس حوالے سے آگاہ پی ڈی ایم ذرائع نے بتایا کہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران اپوزیشن پارٹیوں کے رہنمائوں کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں کے بعد یہ متفقہ فیصلہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں لندن میں موجود نواز شریف سے بھی مولانا فضل الرحمن اور آصف علی زرداری نے رابطہ کیا۔
ذرائع کے مطابق فیصلے میں طے کیا گیا ہے کہ نہ صرف لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچنے تک حکومت سمیت کسی سے بھی مذاکرات نہیں کئے جائیں۔ بلکہ اس دوران اس حوالے سے اگرکسی پارٹی کو انفرادی طور پر کوئی فون آتا ہے یا رابطہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ فوری طورپراس سے پی ڈی ایم قیادت کو آگاہ کرے گی۔
نون لیگ کے ایک رہنما کے بقول یہ فیصلہ اس لئے کیا گیا ہے کہ پی ڈی ایم قیادت کو ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ لاہور جلسے کے بعد لانگ مارچ تک، درمیان میں لگ بھگ ایک ماہ کا جو گیپ آرہا ہے، اس دوران پی ڈی ایم کی بعض پارٹیوں کو اتحاد سے الگ کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے جس کے تحت انہیں انفرادی طورپرڈیل کی پیشکش کی جائے گی۔
لیگی رہنما کے مطابق زیادہ خدشہ یہ تھا کہ ایک بار پھر پیپلز پارٹی کو دانہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ تاہم اب آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری، دونوں کی جانب سے پی ڈی ایم قیادت کو یہ یقین دہانی کرادی گئی ہے کہ انفرادی طور پرکسی کے ٹیلی فون یا رابطے کا جواب نہیں دیا جائے گا۔
پی پی قیادت کی طرف سے پی ڈی ایم قیادت کو یہ بھی بتایا گیا کہ اس طرح کی ایک پیشکش پہلے ہی آصف زرداری رد کر چکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق لانگ مارچ شروع ہونے یا اسلام آباد پہنچ کر مذاکرات کا فیصلہ اس تناظر میں کیا گیا ہے۔
پی ڈی ایم قیادت سمجھتی ہے کہ مضبوط پوزیشن میں آنے کے بعد ہی اپنی شرائط پر مذاکرات ممکن ہیں۔ اور یہ کہ لانگ مارچ کے اسلام آباد تک پہنچنے کے بعد اپوزیشن، مذاکرات کے لئے بارگیننگ پوزیشن میں آسکتی ہے۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ بلاول بھٹو کی جانب سے استعفوں کے معاملے پر اپنی پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کا اجلاس Formality پورا کرنے کے لیے بلایا جارہا ہے کیونکہ پارٹی آئین کے مطابق تمام اہم فیصلے سی ای سی سے منظور کرائے جانے ضروری ہیں۔ وگرنہ قومی اسمبلی سے استعفے دینے کا فیصلہ پیپلز پارٹی کر چکی ہے۔ سی ای سی اجلاس کا بنیادی ایجنڈا سندھ حکومت کی قربانی دیے کے حوالے سے ہوگا کیونکہ سی ای سی کے بیشتر ارکان، قومی اسمبلی اور باقی تین صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دینے کے حق میں تو ہیں تاہم بعض ارکان کو سندھ اسمبلی سے استعفوں کے معاملے پر تحفظات ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ سندھ حکومت پارٹی کے لیے ایک قلعہ کی حیثیت رکھتی ہے جس نے بالخصوص اٹھارہویں ترمیم کے بعد پارٹی کو وفاق کے بہت سے حملوں سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔
پی پی ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے اگرچہ سی ای سی اجلاس چھبیس دسمبر کو بلانے کا عندیہ دیا ہے۔ تاہم بعض پارٹی رہنما اس سے قبل ہی یہ اجلاس بلانے کے حق میں ہیں۔ سی ای سی میں جو بھی فیصلے ہوں گے۔ ان کا اعلان ستائیس دسمبر کو لاڑکانہ کی ریلی میں کیا جائے گا۔
ادھر لاہور جلسے کے موقع پر بھی پی ڈی ایم نے لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنی تقریر میں یہ بات ضرور دہرائی کہ لانگ مارچ جنوری کے آخر یا فروری کے اوائل میں کیا جائے گا۔ یہ اعلان قبل ازیں پی ڈی ایم کی اسٹیرنگ کمیٹی بھی کرچکی ہے۔ تاہم فروری کے اوائل کی بات نئی ہے۔ اور یہ’’امت‘‘ کی اس خبر کی تصدیق بھی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ سرد موسم کی سختی کو پیش نظر رکھتے ہوئے پی ڈی ایم کے بعض رہنما لانگ مارچ کو کچھ آگے کرنے کے حق میں ہیں۔
ایک جے یو آئی رہنما کے مطابق جنوری کے تیسرے ہفتے تک دیکھا جائے گا کہ اسلام آباد کا موسم مزید کتنا سخت ہوتا ہے۔ اگر موسم موافق ہوا تو پھر تیئیس جنوری کے بعد کی کوئی تاریخ لانگ مارچ کے لئے مقرر کر دی جائے گی۔ تاہم بارشوں کی صورت میں موسم زیادہ سرد ہوگیا تو پھر لانگ مارچ فروری کے اوائل بلکہ فروری کے وسط تک جانا بھی خارج از امکان نہیں۔
ذرائع کے بقول کم از کم تیئیس جنوری سے پہلے لانگ مارچ کا امکان اس لیے بھی نہیں ہے کہ پی ڈی ایم لاہور جلسے کے بعد کا شیڈول ترتیب دے چکی ہے۔ جس کے تحت آخری مظاہرہ تیئیس جنوری کو لاہور میں ہی ہوگا۔ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ سے قبل ملک بھر میں جلسے جلوسوں اور ریلیوں کا جو شیڈول دیا گیا ہے۔
اس کے مطابق پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے انیس دسمبر کو کوئٹہ میں مظاہرے کئے جائیں گے۔ تیئیس دسمبر کو مردان، چھبیس دسمبر کو بہاولپور، اٹھائیس دسمبر کو سرگودھا، دو جنوری کو خضدار، چار جنوری کو کراچی، چھ جنوری کو بنوں، نو جنوری کو گوجرانوالہ، گیارہ جنوری کو حیدرآباد، تیرہ جنوری کو لورالائی/ ژوب، سولہ جنوری کو پشاور، اٹھارہ جنوری کو فیصل آباد، بیس جنوری کو سکھر اور تیئیس جنوری کو لاہور میں مظاہرے اور ریلیاں نکالی جائیں گی۔
دوسری جانب اپوزیشن کی حکمت عملی کو کائونٹر کرنے کے لئے حکومت بہت سے آپشنز پر غور کر رہی ہے۔ اسلام آباد میں موجود باخبر ذرائع نے بتایا کہ لانگ مارچ سے پہلے ایک ماہ کا جو وقت ہے۔ اس دوران اپوزیشن اتحاد کو ڈائیلاگ کے لیے انگیج کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ یہ کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوتیں تو پھر انفرادی طور پر رابطوں کا فارمولہ بھی استعمال کیا جائے گا۔ جس کے لیے حکومت اور ان کے بہی خواہوں کا سرفہرست ہدف پیپلز پارٹی ہے۔ ذرائع کے مطابق اپنا تمام تر سخت موقف بیان کرنے اور جلسوں میں بلاول کی جذباتی تقریروں کے باوجود پی ڈی ایم کی قیادت میں واحد آصف زرداری وہ رہنما ہیں۔ جو مفاہمت کی سیاست پر اب بھی یقین رکھتے ہیں۔ لہٰذا اگر لانگ مارچ سے پہلے پیپلز پارٹی کو انگیج کرلیا جاتا ہے تو پھر پی ڈی ایم کے حتمی مرحلے کو کمزور بنایا جا سکتا ہے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک ماہ کے دوران اگر مذاکرات کی تمام کوششیں ناکام رہتی ہیں اور پی ڈی ایم لانگ مارچ سے قبل ڈائیلاگ نہ کرنے کے اجتماعی فیصلے پر قائم رہتی ہے تو پھر آخری آپشن کے طور پر مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمن سمیت دیگر قابل ذکر رہنمائوں کو تین تین ماہ کے لیے نظر بند کیا جا سکتا ہے۔
ذرائع کے بقول پولیٹیکل ڈائیلاگ کی کوششیں ناکام ہونے کی صورت میں یہ آخری حکومتی آپشن ہوگا۔ لانگ مارچ سے قبل پی ڈی ایم کو جہاں سیاسی طور پرانگیج کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ وہیں جلسے جلوسوں کے دوران ریاست اور اداروں کے خلاف ہونے والی تقریروں پر بغاوت کے مقدمات بنانے کا سلسلہ بھی شروع کیا جائے گا۔ تاہم بات چیت کے لیے ماحول سازگار رکھنے کی خاطر فوری گرفتاری سے گریز کیا جائے گا۔ جب یقین ہوجائے گا کہ اپوزیشن سے مذاکرات کرنا ممکن نہیں اور وہ لانگ مارچ پر مصر ہے تو پھر نہ صرف ایم پی او کے تحت پی ڈی ایم کی مرکزی قیادت کو نظر بند کرنے کے آپشن کو اختیار کیا جائے گا۔ بلکہ بغاوت کے مقدمات میں نامزد رہنمائوں کو بھی گرفتار کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق سی آر پی سی کے تحت سیکریٹری داخلہ اور صوبوں کے چیف سیکریٹریز کو اسی لئے نئے اختیارات دیئے گئے ہیں۔ جس کے تحت وہ اب ریاست کے خلاف اکسانے والی تقاریر پر بغاوت کا مقدمہ درج کرا سکیں گے۔ آنے والے دنوں میں ان اختیارات کا وسیع استعمال دیکھنے کو مل سکتا ہے۔