فائل فوٹو
فائل فوٹو

بت پرستی کے قلعے میں شگاف

ہندو نوجوان پانی کا برتن لے آیا۔ حضرت شیخ حسین زنجانیؒ نے چند آیات الٰہی پڑھ کر پانی پر دم کردیا۔ پھر ہندو نوجوان سے فرمایا: ’’یہ پانی اپنے باپ کو پلادو۔ طبیب حقیقی شفا بخشے گا‘‘۔ یہ کہہ کر حضرت شیخ حسین زنجانیؒ اپنی خانقاہ کی طرف لوٹ آئے۔ دوسرے دن وہی ہندو نوجوان آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور قدموں پر گر کر کہنے لگا ’’بے شک! آپ سچے سنت ہیں۔ میرا باپ جو کل تک اپنی جگہ سے جنبش نہیں کرسکتا تھا، اب وہ پلنگ سے اٹھ کر اپنے قدموں پر کھڑا ہونے لگا ہے۔ کچھ دن بعد آپ کے سلام کے لیے حاضر ہوگا‘‘۔
اس واقعہ کے بعد بت پرستوں کے حلقے میں ایک شور سا مچ گیا، بہت سے بیمار ہندو آپؒ کی خانقاہ کے دروازے پر سر جھکائے ایستادہ نظر آنے لگے۔ حضرت شیخ حسین زنجانیؒ انہیں پانی دم کرکے دیتے اور پھر مریض چند ہی روز میں صحت یاب ہوجاتا۔ حضرت شیخؒ کی یہ کرامت دیکھ کر لاہور کے باشندے آپؒ کو ’’مسیحا‘‘ کہہ کر پکارنے لگے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے بت پرستوں کی صفیں ٹوٹنے لگیں اور کافرانہ عقائد کے مضبوط قلعوں میں گہرے شگاف پڑنے لگے۔ لوگ اپنے ہاتھوں پر سجے ہوئے قشقے کھرچنے لگے اور گلوں میں پڑے ہوئے زنار توڑ کر پھینکنے لگے۔
حضرت شیخ زنجانیؒ کی خانقاہ کے قریب ایک ہندو کاشتکار رہتا تھا جو عرصہ دراز سے دمے کے تکلیف دہ مرض میں مبتلا تھا۔ جب اس نے حضرت شیخؒ کی شہرت سنی تو آپؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا ’’میں نے سنا ہے کہ آپ بہت بڑے وید ہیں اور ایسے بیماروں کا بھی علاج کردیتے ہیں جن پر کوئی دوا اثرانداز نہیں ہوتی‘‘۔
’’تم نے غلط سنا ہے۔ میں کوئی طبیب نہیں ہوں‘‘۔ حضرت شیخ حسین زنجانیؒ نے فرمایا۔ہندو کسان حضرت شیخؒ کے انکار پر حیران رہ گیا۔ پھر اس نے نہایت غمزدہ لہجے میں کہا ’’لوگ تو یہی کہتے ہیں۔‘‘ بوڑھے بت پرست کو اُداس اور دل گرفتہ دیکھ کر حضرت شیخ زنجانیؒ نے فرمایا ’’تم شفایاب ہوجائو گے مگر اس کے لیے تمہیں ایک سخت آزمائش سے گزرنا ہوگا‘‘۔ ’’میں آپ کی ہر بات کے لیے تیا رہوں‘‘۔ اپنی زندگی سے بیزار ہندو کاشتکار نے کہا۔
’’تمہیں اپنے باپ دادا کا دھرم چھوڑ کر مذہب اسلام قبول کرنا ہوگا‘‘۔ حضرت شیخ حسین زنجانیؒ نے فرمایا۔ ’’اس کے بعد تمہیں کوئی بیماری لاحق نہیں ہوگی۔ بجز مرض الموت کے جو ہر جاندار کا مقدر ہے‘‘۔
بوڑھا ہندو کسان کچھ دیر تک سوچتا رہا، پھر اس نے دل ہی دل میں ایک منافقانہ فیصلہ کیا کہ وہ حضرت شیخ حسین زنجانیؒ کے سامنے اسلام قبول کرلے گا، مگر درپردہ اپنے آبائی مذہب پر عمل پیرا رہے گا۔ اس منافقانہ فیصلے کے بعد بت پرست کاشتکار نے بظاہر نہایت پرجوش لہجے میں کہا۔ ’’مجھے بتائیے کہ آپ کے مذہب میں داخل ہونے کا کیا طریقہ ہے؟‘‘
حضرت شیخ حسین زنجانیؒ نے اسے کلمہ شہادت کی تلقین فرمائی۔ ہندو کسان نے باآوازبلند خدا اور اس کے آخری رسولؐ پر گواہی دی۔
حضرت شیخ زنجانیؒ نے ایک مشرک کا اقرار سن کر تبسم فرمایا۔ ’’اب تمہاری صحت تمہاری نیت پر منحصر ہے‘‘۔
’’شیخ! میں آپ کی بات کا مفہوم نہیں سمجھا‘‘۔ نومسلم کسان نے حیران ہو کر کہا۔
’’مطلب صاف ہے کہ اگر تم اپنے اقرار میں سچے ہو تو بیماریاں تم سے ہمیشہ دور رہیں گی اور اگر اس ذات پاک کو دھوکا دے رہے ہو جس پر کائنات کے ایک ایک ذرے کا حال روشن ہے تو پھر یہ مرض شمشان بھومی تک تمہارا پیچھا نہیں چھوڑے گا‘‘۔
حضرت شیخ حسین زنجانیؒ کی زبان مبارک سے یہ انکشاف سن کر بوڑھے کسان پر لرزہ طاری ہوگیا۔ ’’شیخ! میری نیت تو میرے دل کی انہتائی گہرائیوں میں پوشیدہ تھی۔ پھر یہ راز آپ پر کس طرح فاش ہوگیا؟‘‘
’’حق تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے۔ جسے چاہتا ہے پوشیدہ رکھتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے نقاب کردیتا ہے‘‘۔ حضرت شیخ حسین زنجانیؒ نے فرمایا۔
یہ سنتے ہی بوڑھا کسان اپنے منافقانہ فیصلے سے تائب ہوا اور اس نے کھلے دل سے وحدانیت کا اقرار کیا۔ پھر جیسے ہی اس نے دوبارہ کلمہ شہادت پڑھا، برسوں پرانی دمے کی تکلیف اس طرح ختم ہوگئی جیسے یہ مرض اسے لاحق ہی نہیں ہوا تھا۔(جاری ہے)