امت رپورٹ:
تحریک انصاف کے خلاف الیکشن کمیشن میں دائر فارن فنڈنگ کیس میں ایک نیا پینڈورا باکس کھل گیا ہے۔ اس تازہ انکشاف کے مطابق چپڑاسی اور کمپیوٹر آپریٹر سمیت پی ٹی آئی نے اپنے مرکزی سیکریٹریٹ اسلام آباد کے چار ملازمین کو بیرون ملک سے عطیات وصول کرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ یہ رقم ان ملازمین کے ایسے ذاتی بینک اکائونٹس میں آتی تھی۔ جن کا الیکشن کمیشن میں کبھی ذکر نہیں کیا گیا۔
’’امت‘‘ کو دستیاب دستاویز کے مطابق پی ٹی آئی کے ملازمین کو فنڈز جمع کرنے کی اجازت دینے کا فیصلہ یکم جولائی دو ہزار گیارہ کو ہونے والے اجلاس میں ہوا تھا۔ یہ اجازت اجلاس میں موجود سیف اللہ نیازی، عامر محمود کیانی، سردار اظہر طارق، کرنل (ر) یونس علی رضا، طارق آر شیخ اور ڈاکٹر محمد ہمایوں مہمند نے دی تھی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی مرکزی سیکریٹریٹ کے ٹیلی فون آپریٹر طاہر اقبال، کمپیوٹر آپریٹر محمد نعمان افضل، اکائونٹنٹ محمد ارشد اور ہیلپر یا آفس بوائے محمد رفیق ملک اور بیرون ملک سے فنڈز وصول کرنے کے مجاز ہوں گے۔
پی ٹی آئی سیکریٹریٹ کے اندرونی ذرائع کے بقول یہ بھی پیپلز پارٹی کے منی لانڈرنگ کے کیس کے دوران پاپڑ والے اور ٹائر پنکچر والے کے اکائونٹس سے برآمد ہونے والے کروڑوں روپوں سے ملتا جلتا معاملہ ہے۔ اور یہ کہ ان غریب پارٹی ملازمین کے اکائونٹس میں اگرچہ کروڑوں روپے آتے رہے۔ لیکن انہیں صرف اپنی معمولی تنخواہ پر گزارا کرنا پڑتا تھا۔ فنڈز میں سے ایک پائی بھی ان کے حصے میں نہیں آتی تھی۔ بہتی گنگا میں صرف سینئر قیادت ہاتھ دھوتی رہی۔ ان ذرائع کے مطابق بینک اکائونٹس کے علاوہ یہ ملازمین اپنے شناختی کارڈز پر فارن ایکسچینج کمپنیوں میں آنے والے پیسے بھی وصول کرتے تھے۔ جو ان سے سیف اللہ نیازی اورعامر کیانی سمیت دیگر پارٹی رہنما ہاتھ کے ہاتھ وصول کرلیا کرتے تھے۔ ایک برس تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ جب ملازمین نے دیکھا کہ کوئلے کی دلالی میں صرف ہاتھ کالے ہورہے ہیں، تو اپریل دو ہزار بارہ میں وہ پارٹی کے ایک اہم عہدیدار کی رہائش گاہ پر پہنچے اور انہیں سارا قصہ سنایا۔
ان ملازمین کا کہنا تھا کہ بیرون ملک سے پارٹی فنڈنگ کے نام پر ہنڈی کے ذریعے بڑا پیسہ آرہا ہے۔ اس کے لئے ان کے بینک اکائونٹس اور شناختی کارڈز استعمال کئے جارہے ہیں۔ کہیں آگے جاکر وہ نہ پھنس جائیں۔ ان میں سے ایک ملازم نے اس وقت بتایا تھا کہ آج رات ہی ایک فارن ایکسچینج کمپنی سے اس نے اپنے شناختی کارڈ کی کاپی پر سوا کروڑ روپے وصول کئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اب فیٹف کی سختیوں کی وجہ سے اگرچہ منی لانڈرنگ کرنے والی فارن ایکسچینج کمپنیوں پر گہری نظر رکھی جارہی ہے۔ تاہم دو ہزار بارہ تیرہ تک ہنڈی کا کاروبار عروج پر تھا۔ جس کا پورا فائدہ پی ٹی آئی نے اٹھایا۔ پی ٹی آئی کے ان ملازمین نے پارٹی کے اہم عہدیدار کو ثبوت کے طور پر اپنے اکائونٹس کے سیمپل بھی دیئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ فرنٹ اکائونٹس بناکر رقم کی ترسیل کے لئے ایک طرح سے اسلام آباد کا الگ روٹ متعارف کرایا گیا تھا۔ تاکہ اپنی مرضی سے لوٹ مار کی جا سکے۔ دلچسپ امر ہے کہ پی ٹی آئی کے خلاف الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کیس لے جانے والے بانی رکن اکبر ایس بابر نے ستمبر دو ہزار گیارہ میں پارٹی چیئرمین عمران خان کو جو خط لکھا تھا۔ اس میں واضح کردیا تھا کہ پارٹی کے مرکزی سیکریٹریٹ کے تنخواہ دار ملازمین کے بینک اکائونٹس کو بطور فرنٹ استعمال کرتے ہوئے مختلف ذرائع سے عطیات اکٹھے کیے جارہے ہیں۔ ان فرنٹ اکائونٹس میں اب تک کروڑوں روپے جمع کیے جاچکے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو متنبہ کیا گیا تھا کہ پارٹی امور چلانے کے مقصد کے لئے پی ٹی آئی کے ڈونرز سے وصول کیے جانے والے ان فنڈز کو چھپانا پولیٹیکل پارٹیز رولز دو ہزار دو کی شق چار کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ یہ غیر قانونی سرگرمی پی ٹی آئی اور اس کی قیادت کو منی لانڈرنگ کے الزامات کی طرف لے جاسکتی ہے۔ اور یہ سب کچھ پارٹی کے مرکزی سیکریٹریٹ کے معاملات چلانے والی سینئر پارٹی قیادت کرارہی ہے۔ لیٹر میں اس امید کا اظہار کیا گیا تھا کہ یہ معاملہ علم میں آنے کے بعد چیئرمین عمران خان فوری انکوائری کا حکم دیں گے۔ اور ان اکائونٹس کا آڈٹ کرایا جائے گا۔ تاہم آج تک یہ انکوائری نہیں کرائی گئی۔ ذرائع کے بقول حالانکہ ایک بار جہانگیر ترین نے ان چاروں ملازمین کو عمران خان کے سامنے پیش بھی کیا تھا۔ یہ ملازمین اب بھی پارٹی کے مرکزی دفتر میں اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے جن اہم رہنمائوں نے ملازمین کو عطیات اکٹھا کرنے کی اجازت دی تھی۔ ان میں سیف اللہ نیازی اب پارٹی کے چیف آرگنائزر ہیں۔ ذرائع کے بقول سینیٹ ٹکٹ کے مضبوط امیدواروں میں وہ سرفہرست ہیں۔ اور یہ کہ پارٹی انہیں چیئرمین سینیٹ کا الیکشن لڑانے پر بھی غور کر رہی ہے۔ جبکہ عامر کیانی اس وقت پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل جیسے اہم عہدے پر فائز ہیں۔ قبل ازیں انہیں وفاقی وزیر صحت بنایا گیا تھا۔ تاہم ادویات مہنگی کرنے کے اسکینڈل پر انہیں وزارت سے ہٹادیا گیا تھا۔ دستاویز میں شامل تیسرا نام ڈاکٹر ہمایوں مہمند کا ہے۔ حال ہی میں ڈاکٹر ہمایوں مہمند کو پمز اسپتال کا چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹر بنایا جاچکا ہے۔ جس زمانے میں ملازمین کو عطیات وصول کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس وقت پارٹی کے فنانس سیکریٹری اظہر طارق خان تھے۔ اظہر طارق خان کو کرغیزستان میں پاکستان کا سفیر بناکر صلہ دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ فارن فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کے تیئیس خفیہ اکائونٹس کا خاصا چرچا ہے۔ اب اس تازہ دستاویز نے ایک نیا پینڈورا باکس کھولنے کی راہ ہموار کر دی ہے۔ جس سے منی لانڈرنگ کے الزامات کو تقویت ملے گی۔ تیئیس خفیہ اکائونٹ کی چھان بین کرنے والی اسکروٹنی کمیٹی میں یہ نئی دستاویز منگل کے روز جمع کرادی گئی ہے۔ جس میں استدعا کی گئی ہے کہ ان چاروں ملازمین کے دو ہزار نو سے دو ہزار تیرہ تک کے تمام اکائونٹس کی تفصیلات اسٹیٹ بینک سے حاصل کی جائیں۔ تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ ان پانچ برسوں کے دوران ان فرنٹ اکائونٹس میں مجموعی طور پر کتنی رقم آئی۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے موجودہ سیکریٹری فنانس سراج احمد نے پارٹی کے مالیاتی بورڈ کی جانب سے ان چاروں ملازمین کو فنڈز اکٹھا کرنے کی اجازت دینے کی تصدیق کر دی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ اجازت صرف ایک مرتبہ دی گئی تھی۔ تاہم پی ٹی آئی سیکریٹریٹ کے لیٹر میں ملازمین کو فنڈز اکٹھا کرنے کی صرف ایک بار اجازت دینے کا کوئی ذکر نہیں۔ پی ٹی آئی سیکریٹریٹ کے ایک ذمہ دار کے بقول سیکریٹری فنانس نے یہ اعتراف کرکے پارٹی کو پھنسا دیا ہے۔