نجم الحسن عارف:
تحریک لبیک نے حکومت کو ناموس رسالت کی پاسداری کرنے پر ایک مرتبہ پھر قائل کر لیا۔ تاہم تحریک لبیک نے حکومت کو ناموس رسالت کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ ثابت کرتے ہوئے فرانس کے سفیر کو واپس بھجوانے، اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے، فرانس میں پاکستان کا سفیر تعینات نہ کرنے اور تحریک لبیک کے کارکنوں کے نام فورتھ شیڈول سے نکالنے کے لیے بیس اپریل تک مہلت دے دی ہے اور اس وقت تک احتجاج نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اگر حکومت نے اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پارلیمنٹ کے ذریعے طے شدہ معاہدے پر عمل نہ کیا تو تحریک لبیک اپنے امیر حافظ سعد حسین رضوی کے حکم پر سخت احتجاج کرنے کا حق محفوظ رکھے گی اور حکومت کو ناموس رسالت کے عالمی سطح پر بھی تحفظ کے لئے مجبور کر دے گی۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق تحریک لبیک پاکستان کے بانی علامہ خادم حسین رضوی کے اچانک انتقال کے بعد حکومت نے تحریک لبیک کو پہلے کے مقابلے میں کمزور سمجھنا شروع کر دیا تھا اور تحریک لبیک کی نئی قیادت کو کہلا بھیجا تھا کہ اس معاہدے پر حکومت کسی صورت عمل نہیں کر سکتی۔ اس لیے تحریک لبیک اس معاہدے پر عمل سے دستبردار ہو جائے۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے اس سلسلے میں پوری کوش کی کہ کسی طرح تحریک لبیک کو ختم نبوت اور ناموس رسالت کے ایشوز پر واضح موقف اختیار کرنے سے باز رکھ سکے۔ تقریباً ایک ماہ تک حکومت مختلف انداز میں اپنی سے کوششں کرتی رہی۔ تاہم بعد ازاں اسے اپنی کوشش کو ختم کرنا پڑا۔ کیونکہ تحریک لبیک کی طرف سے حکومتی نمائندوں اور رابطہ کاروں کو دو ٹوک انداز میں بتا دیا گیا کہ اگر حکومت نے سترہ نومبر 2020ء کے معاہدے پر عمل نہ کیا تو اسلام آباد میں اس وقت تک دھرنا دیا جائے گا۔ جب تک حکومت سے معاہدے پر عمل نہ کرے۔ ذرائع بے بتایا کہ تحریک لبیک نے سولہ نومبر 2020ء کو اسلام آباد میں ہونے والے معاہدے کے بعد بھی اپنے نئے دھرنے کی تیاری جاری رکھی کہ اگر حکومت نے معاہدہ پر عمل نہ کیا تو ایک مرتبہ پھر ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے اسلام اباد میں دھرنا دیا جائے گا۔
عاشق رسول علامہ خادم حسین رضوی کے انتقال کے بعد تحریک کی امارت ان کے جواں سال صاحبزادے حافظ سعد حسین رضوی کے سپرد ہوئی تو انہوں نے بھی تنظیمی ذمہ داریوں کے لیے جس شہر کا بھی دورہ کیا۔ اس عزم کو پورے شعور اور عزم کے ساتھ دہرایا کہ ناموس رسالت اور ختم نبوت کے تحفظ کے لئے علامہ امیر المجاہدین نے جو تحریک شروع کی تھی۔ اسے ہر قیمت پر جاری رکھا جائے گا اور سولہ نومبر 2020ء کو ہونے والے معاہدے کا ہر قیمت پر پہرہ دیا جائے گا۔ نیز ضرورت پڑی تو معاہدے میں طے کی گئی تین ماہ کی مدت کے بعد یعنی سترہ فروری 2021ء کو پھر اسلام آباد کا رخ کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق اس پس منظر میں تحریک کی طرف سے کوئی شور کیے بغیر تیاری کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ حتی کہ 11 فروری 2021ء کی صبح تک تحریک لبیک اس امر پر یکسو رہی کہ حکومت نے ماہ نومبر کے معاہدے پر عمل نہ کیا تو سترہ فروری کو اسلام آباد میں ایک اور دھرنا دیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق تحریک لبیک کے ناموس رسالت کے حق میں ڈٹے رہنے کے اس موقف اور عزم کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے پھر تحریک لبیک سے رابطے کرنا شروع کیے اور اب یہ موقف پیش کیا کہ وہ ماہ نومبر میں کیے گئے معاہدے پر عمل کرے گی۔ لیکن چونکہ اس کے راستے میں کچھ رکاوٹیں ہیں۔ اس لیے کچھ مزید وقت دیا جائے۔ پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے اس بارے میں اس نئی یقین دہانی اور کچھ وقت مانگنے کی بات تحریک لبیک کی مجلس شوریٰ میں باضابطہ طور پر زیر بحث آئی۔ جہاں بحث و تمحیص کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ چونکہ تحریک لبیک کا مقصد ناموس رسالت کا تحفظ ہے۔ حکومت کو یا ملک کو کسی مشکل میں ڈالنا نہیں۔ اس لیے حکومت کو مزید وقت دینے کو تیار ہیں۔ لیکن شرط یہ ہو گی کہ ماہ نومبر میں پچھلے سال ہونے والے معاہدے کے حوالے سے ایک ضمنی معاہدہ کیا جائے۔ جس میں نہ صرف یہ کہ پہلے والے معاہدے کی توثیق کی جائے۔ بلکہ اس معاہدے کا اعلان خود وزیر اعظم عمران خان کریں گے۔ ان دو شرائط کے مانے جانے کے بعد حکومت کو مزید وقت دیا جائے گا۔ بصورت دیگر تحریک لبیک اسلام آباد میں دھرنا دینے کے لئے اور حکومت کو اپنے معاہدے پر عمل کے لئے مجبور کر دینے کے لئے اپنے لاکھوں کارکنوں کے ساتھ پہنچے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس دوران تحریک لبیک اس کوشش میں رہی کہ ماہ نومبر میں علامہ خادم حسین رضوی کے زیر قیادت لیاقت باغ اور فیض آباد پہنچنے والے ہزاروں کارکنوں سے کہیں زیادہ تعداد میں کارکنان اسلام آباد پہنچیں۔ ذرائع کے بقول بلا شبہ تحریک لبیک لاکھوں کارکنوں اور جانثاران مصطفی کو اسلام آباد سترہ فروری کو لانے کی تیاری کر رہی تھی۔ حکومت نے تحریک لبیک کے قائدین اور کارکنوں کے جذبے اور کمٹمنٹ کو دیکھتے ہوئے تحریک لبیک سے رابطہ کر کے ایک نئے معاہدے پر آمادگی ظاہر کی اور یہ بھی یقین دلایا کہ اس نئے معاہدے کا اعلان خود وزیر اعظم کریں گے۔
جمعرات کے روز ہی وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے یہ اعلان کر دیا گیا ہے۔ جس کے بعد تحریک لبیک نے بھی اس معاہدے کی روشنی میں پی ٹی آئی حکومت کو بیس اپریل تک تقریباً ستر دن کی مہلت دینا قبول کر لیا ہے۔ معاہدے پر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد اور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نورالحق نے وفاقی حکومت کی طرف سے دستخط کیے ہیں۔ جبکہ تحریک لبیک کی جانب سے شوریٰ کے چار ارکان غلام غوث بغدادی قادری، ڈاکٹر شفیق امینی، علامہ غلام عباس فیضی اور علامہ محمد عمیر الازہری نے دستخط کیے ہیں۔ اس معاہدۂ نومبر 2020ء کے ضمنی معاہدہ میں یہ بھی تحریر کیا گیا ہے کہ اگر کسی ایک فریق نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو یہ معاہدہ ختم مانا جائے گا اور پھر اس پر عمل کرنا لازم نہیں ہوگا۔