عارف انجم:
دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو پر جاری موسم سرما کے دوران جانیں گنوانے والے کوہ پیماؤں کے اہلخانہ جہاں اپنے پیاروں سے محروم ہونے کے غم تلے دبے ہیں۔ وہیں ان کے لیے مزید پریشانی کی بات یہ ہے کہ انہیں انشورنس کی کوئی بڑی رقم ملنے کا امکان نہیں۔ اس موسم سرما میں کے ٹو پر دو کوہ پیماؤں کی موت کی تصدیق ہوئی ہے۔ جبکہ علی سد پارہ سمیت مزید تین جمعہ سے لاپتہ ہیں اور ان کے زندہ بچنے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے۔ مرنے والے کوہ پیماؤں نے لاکھوں روپے کی ادائیگی کی تھی۔ البتہ علی سدپارہ کو جان سنوری اپنی مہم میں بطور پورٹر ساتھ لے کر گئے تھے۔
خونی پہاڑ کی شہرت رکھنے والے کے ٹو پر موسم سرما میں کوہ پیمائی کے لیے منصوبے گزشتہ برس موسم گرما کے دوران بننا شروع ہوئے تھے۔ مجموعی طور پر کوہ پیماؤں کے چار کوہ پیما کے ٹو کا رخ کر رہے تھے۔ سب سے بڑا گروپ سیون سمٹس ٹریکس (Seven Summits Treks) نامی نیپالی کمپنی کے تحت آیا۔ جس میں 27 کوہ پیما اور 28 شرپا تھے۔ دوسرا گروپ صرف تین شرپاؤں کا تھا۔ جو اپنی مہارت کے اظہار کے لیے کے ٹو سر کرنے آئے تھے۔
تیسرا گروپ مشہور نیپالی کوہ پیما نرمل پرجا کے ساتھ آیا تھا۔ چوتھی مہم جان سنوری کی تھی۔ آئس لینڈ سے تعلق رکھنے والے جان سنوری نے سیون سمٹس جیسی کسی کمپنی کی خدمات لینے کے بجائے اپنے طور پر کوہ ٹو سر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم انہوں نے دو ہائی الٹیٹیوٹ پورٹرز کی خدمات ضرور لی تھیں۔ ان میں سے ایک علی سد پارہ تھے جو چوٹی تک ان کے ساتھ گئے۔ مجموعی طور پر اس موسم سرما میں 65 کے لگ بھگ افراد نے کے ٹو سر کرنے کی کوشش کی۔ جن میں سے نیپالی شرپاؤں کی مہم کامیاب رہی۔ علی سدپارہ، جان سنوری اور سیون سمٹس کی مدد سے کوہ پیمائی کرنے والے چلی کے پابلو موہر کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ چوٹی سر کرنے کے بعد حادثے کا شکار ہوئے۔
بیرون ممالک سے آنے والے کوہ پیماؤں نے کے ٹو پر جانے کے لیے بھاری رقوم ادا کی تھیں۔ سیون سمٹس سب سے کم فیس لینے والی کوہ پیما کمپنی ہے۔ تاہم اس کمپنی کی جانب سے بھی 45 ہزار ڈالر (ساڑھے 71 لاکھ روپے) فیس ہر کوہ پیما سے وصول کی گئی۔ جان سنوری چونکہ انفرادی حیثیت میں آئے۔ لہٰذا انہوں نے زیادہ رقم خرچ کی۔
جان سنوری کو کے ٹو سر کرنے کا اجازت نامہ اگست میں ملا تھا۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے کوہ پیمائی کا سامان پاکستان روانہ کر دیا۔ جو دو ٹکڑوں میں ستمبر اور اکتوبر میں یہاں پہنچا۔ جان سنوری خود نومبر میں پاکستان کے لیے روانہ ہوئے۔ سامان کی نقل و حرکت اور بالخصوص اسے کے ٹو کے بیس کیمپ تک پہنچانے کیلئے سنوری نے جیسمین ٹوورز کی خدمات لی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے علی سدپارہ اور ان کے بیٹے ساجد سدپارہ کی خدمات بطور ہائی الٹیٹیوٹ پورٹرز حاصل کیں۔ جبکہ مزید 20 پورٹرز بیس کیمپ تک سامان پہنچانے کیلئے لیے گئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے رابطہ کاری کیلئے کیپٹن حارث اور باورچی کے طور پر محسن کی خدمات بھی لیں۔
اگرچہ سنوری اور دیگر کوہ پیما لاکھوں روپے خرچ کر رہے تھے۔ لیکن اس کے باوجود چوٹی کے قریب جانیں گنوانے والوں کے اہلخانہ کو انشورنس کی کوئی بڑی رقم نہیں ملے گی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بیشتر کمپنیاں کوہ پیماؤں کی لائف انشورنس نہیں کرتیں اور جو چند ایک کرتی ہیں۔ ان کا طریقہ انتہائی مشکل ہے۔ یہ کمپنیاں بھی کے ٹو جیسی چوٹیوں پر جانے والے کوہ پیماؤں کو لائف انشورنس نہیں دیتیں۔ بیشتر کمپنیاں صرف 6 ہزار میٹر تک کوہ پیمائی کی محدود انشورنس کرتی ہیں۔ جس میں ریسیکیو اور طبی اخراجات کور کیے جاتے ہیں۔
ایک آسٹریلوی ٹریول کمپنی کی جانب سے ستمبر 2020ء میں شائع کی گئی تحقیق کے مطابق دنیا کی 25 انشورنس کمپنیاں کوہ پیمائی سے متعلق انشورنس کا کام کرتی ہیں۔ تاہم ان میں سے 24 کمپنیاں 6 ہزار میٹر سے بلند پہاڑوں پر جانے والی مہم کی انشورنس نہیں کرتیں۔ صرف ایک کمپنی 6500 میٹر تک بلندی پر کوہ پیمائی کی انشورنس کرتی ہے۔ تاہم اس نے دیگر شرائط عائد کر رکھی ہیں۔ جہاں بیشتر کمپنیوں نے اپنے معاہدے میں یہ شق شامل کر رکھی ہے کہ جس بھی کوہ پیمائی میں رسیوں یا دیگر آلات کا استعمال کرنے کی ضرورت پڑے۔ اس کی انشورنس نہیں کی جائے گی اور ایسی مہم میں شریک افراد نقصان کی صورت میں انشورنس کا کلیم نہیں کر سکتے۔ وہیں چند ایک کمپنیاں پہاڑ کی بلندی کی شرط ختم کر دیتی ہیں۔ ساتھ ہی دوسری شرائط بھی عائد کر دیتی ہیں۔ جس میں کہا جاتا ہے کہ فلاں علاقوں میں کوہ پیمائی پر انشورنس کا کلیم نہیں ہوسکے گا۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کے ٹو پر جانے والے کوہ پیماؤں نے کسی قسم کی انشورنس نہیں کرائی تھی۔ درحقیقت سیون سمٹس جیسی کمپنیاں کوہ پیماؤں کو انشورنس لینے کا مشورہ دیتی ہیں۔ تاہم اس انشورنس کی کوریج 6 ہزار میٹر سے نیچے تک ہوتی ہے۔ یعنی اگر کوہ پیماہ کو 6 ہزار میٹر سے نیچے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اسے یا لواحقین کو رقم ملے گی۔ چھ ہزار میٹر سے اوپر کسی نقصان کیلئے کمپنی ذمہ دار نہیں ہوگی۔ زیادہ تر انشورنس کلیم کا استعمال اس وقت کیا جاتا ہے جب کوئی کوہ پیما راستے میں بیمار پڑ جائے اور اسے ہیلی کاپٹر کے ذریعے واپس لانا پڑے۔ اس کے علاوہ برف میں ہونے والے حادثات کے بعد علاج کیلئے بھاری رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو انشورنس سے ادا کی جاتی ہے۔ اس کا بڑا حصہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے ڈاکٹر کو بیس کیمپ تک لانے میں خرچ ہوتا ہے۔ کوہ پیمائی کی انشورنس میں ایک اور اہم شق یہ بھی ہوتی ہے کہ اگر کوہ پیما کا ارادہ تبدیل ہو جاتا ہے تو کوہ پیمائی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی کے بجائے انشورنس کمپنی رقم واپس کرنے کی ذمہ دار ہوگی۔
چونکہ انشورنس کمپنیاں کئی طرح کی شرطیں عائد کرتی ہیں۔ لہٰذا کوہ پیماؤں اور ان کو خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں کو اکثر مل جل کر متاثرہ ساتھی کیلئے رقم جمع کرنا پڑتی ہے۔ ہنگامی اخراجات پورے کرنے کا ایک اور طریقہ کلب ممبر شپ ہے۔ اس طریقے میں الپائن امریکن کلب جیسے کلبوں کی رکنیت حاصل کرنے والے ایک مخصوص رقم جمع کراتے رہتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر کلب اپنے رکن کوہ پیما کی ہنگامی مدد کیلیے ادائیگی کرتا ہے۔
اسی طرح ریسکیو آپریشن کیلئے فیس پہلے سے جمع کرائی جاتی ہے۔ پاکستان آنے والے مہم جو افراد لاپتہ ہونے کی صورت میں تلاش اور ریسکیو کیلئے ’عسکری ایوی ایشن‘ نامی کمپنی کے پاس پندرہ ہزار ڈالر کی رقم جمع کرواتے ہیں۔ لیکن مدد کی ضرورت نہ پڑنے کی صورت میں تین سو ڈالر سروس فیس وصول کرکے باقی رقم واپس کر دی جاتی ہے۔
عسکری ایوی ایشن کی ویب سائٹ کے مطابق تلاش اور ریسکیو کیلیے معاوضہ 3200 ڈالر (پونے چھ لاکھ روپے) فی گھنٹہ ہے۔ اصغر علی نے بتایا کہ پاکستان میں بین الاقوامی کوہ پیماؤں کو سہولت فراہم کرنے والے ٹور آپریٹرز نے مل کر پانچ پانچ لاکھ روپے عسکری ایوی ایشن کے پاس جمع کروا رکھے ہیں۔ مگر یہ رقم صرف اسی صورت میں استعمال کی جاتی ہے جب کسی کوہ پیما کو حادثے یا جس جگہ وہ پھنسا ہو، وہاں سے ریسکیو کرنا پڑے۔ اگر کوہ پیما کی تلاش کا کام بھی کرنا ہو تو اس صورت میں یہ رقم کم پڑ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں ٹور آپریٹر کوہ پیما کی متعلقہ انشورنس کمپنی سے رابطہ کرتے ہیں اور انشورنس کمپنی کی گارنٹی پر عسکری ایوی ایشن تلاش کا کام جاری رکھتی ہے۔ انشورنس کی رقم کم پڑنے کی صورت میں متاثرہ کوہ پیما کے ملک کی حکومت، ان کا خاندان، دوست احباب اور سفارتخانہ بھی مدد کیلئے آجاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی کوہ پیما کے ساتھ حادثے کی صورت میں ماؤنٹینیئرنگ کمیونٹی بھی ایکٹو ہو جاتی ہے اور ’گو فنڈ می‘ سے بھی اسے بچانے کیلیے رقم اکھٹا کی جاتی ہے۔مصیبت کا شکار ہونے والے کوہ پیماؤں کیلیے اکثر انشورنس پالیسیاں ناکافی ثابت ہوتی ہیں اور انہیں ’گو فنڈ می‘ مہم یا حکومتی امداد کی ضرورت پڑتی ہے۔ گو فنڈ می ایک ویب سائٹ ہے۔ جس کے ذریعے لوگ کسی بھی مقصد کیلئے چندہ دے سکتے ہیں۔ علی سدپارہ سمیت تین کوہ پیماؤں کی تلاش کیلئے کام حکومت پاکستان، آرمی اور فائیو سکوارڈن کے تعاون سے مفت کیا جا رہا ہے۔
عام طور پر بڑے منصوبوں کیلیے انشورنس کمپنیاں کور فراہم کرتی ہیں۔ لیکن انتہائی بلندی کی کوہ پیمائی کے معاملے میں یہ ایسی انشورنس نہ ہونے کے سبب بہادر لیکن بدقسمت کوہ پیماؤں کے خاندان مالی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جہاں علی سدپارہ اپنی روزی روٹی کمانے کی کوشش میں حادثے کا شکار ہوئے۔ وہیں جان سنوری نے پہاڑوں سے جذباتی لگاؤ کیلئے جان دی۔ لیکن ان کے اس جذبے کو آئس لینڈ اور دیگر ممالک میں بعض لوگ بے وقوفی قرار دے رہے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ سنوری نے اپنے بچوں کے مستقبل کا نہیں سوچا۔ یہ بات اس کے باوجود کہی جا رہی ہے کہ آئس لینڈ میں سوشل ویلفیئر کا نظام موجود ہے۔ جان سنوری نے چھ بچوں اور بیوہ کو سوگوار چھوڑا ہے۔