علی مسعود اعظمی:
ڈنمارک حکومت نے شامی پناہ گزینوں کو نکالنے کا فیصلہ کرلیا ۔ ڈینش وزیراعظم نے ملک میں موجود ہزاروں شامی پناہ گزینوں کے رہائش، تعلیم اور نوکریوں کے پرمٹ بیک جنبش قلم کینسل کردیے ہیں، جس سے شامی پنا ہ گزینوں میں خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی ہے اور رمضان کریم کی خوشیاں ماند پڑ گئی ہیں۔
ڈینش میڈیا نے بتایا ہے کہ ملک میں موجود ہزاروں مہاجرین کو واپس شامی دار الحکومت دمشق بھیجنے کا حکم دیا ہے اور وزارت خارجہ کی مدد سے تمام شامی مسلمانوں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ اگلے 90 ایام کے اندر اپنا ساز و سامان پیک کرلیں۔ کیونکہ ان کو ڈینش حکومت کی جانب سے چارٹرڈ طیاروں کی مدد سے شامی دار الحکومت دمشق بھیجا جائے گا۔
ڈینش حکومت کی پالیسی کو شامی مسلمانوں، ڈینش سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ناقابل قبول قرار دیا ہے کیوں کہ شامی حکومت اب بھی خوں آشامی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ اس وقت بشار الاسد کیخلاف عوامی مزاحمت بہت کم تر درجہ پر ہے۔ لیکن غیر ممالک میں پناہ لینے والے لاکھوں پناہ گزینوں کیلئے ان کے مطابق وطن واپسی کے دروازے بند ہیں۔ اس منظر نامہ میں اگر ڈنمارک سے شامی پناہ گزینوں کو واپس دمشق بھیجا جاتاہے تو ان کو ایئرپورٹ پر اترتے ہی گرفتار کرلیا جائے گا اورعقوبت خانوں میں تشدد اور دردناک موت ان کی منتظر ہوگی۔
ڈینش حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے اگست 2020ء میں دمشق کو محفوظ شہروں کی فہرست میں شامل کیا تھا اور اب اس کو یقین ہے کہ پناہ گزینوں کو ملک سے نکالنے اور دمشق بھیجنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ ڈینش میڈیا کا کہنا ہے کہ ڈنمارک میں مقیم دمشق کے بہت سے شامی مہاجرین کو ایسی سرکاری ای میل موصول ہوئی ہیں جو ان کیلیے روح فرسا ثابت ہوئی ہیں۔ جب ڈنمارک کے حکام نے گزشتہ موسم گرما میں شامی دارالحکومت کو محفوظ شہروں کی فہرست شامل کیا تھا۔ اب ڈنمارک میں ہزاروں شامی باشندوں کے رہائشی اجازت نامے منسوخ کر دیے گئے ہیں اور یا ان کی توسیع نہیں کی گئی جس کا مقصد ان تمام کو نکال کو دمشق بھیجنا ہے۔
ڈینش مہاجر کونسل ‘ڈی آر سی‘ کی سیکریٹری جنرل شارلوٹے سلینٹی کا استدلال ہے کہا گرچہ شام میں نہ تو جنگ ختم ہوئی ہے نہ ہی اسے فراموش کیا گیا ہے۔ لیکن ڈنمارک کے حکام کی خام خیالی ہے کہ دمشق میں حالات اتنے اچھے ہیں کہ شامی مہاجرین کو اب واپس بھیجا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈنمارک یورپ کا واحد ملک ہے جس نے شامی باشندوں کے رہائشی اجازت نامے منسوخ کیے ہیں اور ان کو اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ شاید باقی یورپی ممالک بھی اب ڈنمارک کے نقش قدم پرچلیں گے۔
ڈینش مہاجر کونسل ‘ ڈی آر سی‘ کے حکام کا کہنا ہے کہ شامی پناہ گزینوں کو ملک سے زبردستی نکالنے کا یہ فیصلہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور غیر دانشمندانہ ہے۔ میڈیا گفتگو میں شارلوٹے کہتی ہیں کہ شامی باشندوں کو وطن واپسی پر سنگین حملوں اور ظلم و ستم کے خطرات لاحق ہوں گے۔ ڈینش حکومت کی جانب سے محض اس وجہ سے کہ دمشق میں جنگ نہیں ہو رہی ہے، اس شہر کو محفوظ سمجھنا غلط خیال ہے۔ ہم اس کی کبھی بھی تائید نہیں کریں گے۔
ادھر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے بھی ڈینش حکومت کے اس رویہ اور فیصلہ کی شدید مخالفت کی جا رہی ہے۔ سوشل لبرل پارٹی کی قومی ترجمان کرسٹیان ہیگارڈ نے اپنے فیس بک صفحہ پر تحریر کیا ہے کہ ڈنمارک نے شام میں عدم استحکام اور سیکورٹی کی صورتحال کے پیش نظر اپنا سفارتخانہ بندکیا ہوا ہے۔ یہ دوغلی پالیسی ہے، سفارتخانہ کی عدم موجودگی اور بظاہر بندش کے بعد وہ شام کو محفوظ ملک کیسے قرار دے سکتا ہے؟ کرسٹیان ہیگارڈکا کہنا تھا شامی طلبا و طالبات اور عام افراد کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ سنگدلانہ اور غیر معقول بات ہے۔
انسانی حقوق تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس وقت چوںکہ ڈنمارک شامی صدر بشار الاسد حکومت کے ساتھ سفارتی و سیاسی تعاون نہیں کررہا ہے۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ فوری طور پر اس وقت شامی باشندوں کی ملک بدری کا عمل زبردستی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ڈینش حکومت اگر زبردستی کرے گی تو یقینی طور پر اس کے پاس ایک آپشن یہ بھی ہے کہ اگر شامی باشندے رضا کارانہ طور پر ملک بدر ہونے کیلئے تیار نہیں ہوتے تو انہیں گھروں سے گرفتار کرکے مضافاتی علاقوں میں بنائے جانے والے مراکز میں پہنچا دیا جائے گا۔