نام بدلنےسےعلمی سفرمیں انقلاب آگیا۔عارف الحق عارف

ہمارے وسیع حلقہ تعارف میں احباب کو یہ بات بڑی عجیب سی محسوس ہو گی کہ ہمارے دیہاتی اور ان پڑھ خاندانی پس منظر میں ہمارا نام کیوں کر اس ماحول سے ہٹ کر ہے ؟ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج تک کسی نے ہم سے یہ سوال نہیں پوچھا۔تاہم،اب ہم اس راز سے پردہ اٹھائے دیتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ہمارا پیدائشی نام عارف الحق عارف نہیں بلکہ محمد شریف تھا، جو
‎ہمارے والدین نے رکھا تھا ۔
کہتے ہیں انسان کے نام کے اس کی شخصیت،کردار اور مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نبی پاک ﷺ کا فرمان ہے کہ تم اپنے بچوں کے اچھے اور با معنی نام رکھا کرو ، ہم یہ تو نہیں کہتےکہ محمد شریف اچھا نام نہیں تھا ۔ یقیناً یہ سعد نام ہے اور اس کے اثرات بھی اچھے ہوں گے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نام تبدیل کرکے عارف الحق رکھنے سے ہماری شخصیت پر دور رس اثرات ضرور پڑے ہیں۔ نیا نام رکھنے کے بعد ہمارے علمی سفر میں ایک انقلاب آیا اور زندگی کے ہر میدان میں کامیابی ملنے لگی۔ یہ نام کیسے تبدیل ہوا؟ اس کا بھی ایک پس منظر اور کہانی ہے۔ آٹھویں جماعت تک ہمارا نام محمد شریف ہی اسکول کے ریکارڈ کا حصہ تھا اور یہی نام خاندان،اسکول اور جاننے والوں میں مشہور تھا،یہی وہ زمانہ ہے جب ہمیں تعلیم کا عشق کی حد تک شوق پیدا ہوا۔ہر وقت کورس کی کتابوں ، قرآن شریف کے مطالعہ کے علاوہ ہر اس شخص سے ملاقات کے لیے کوشاں رہتے تھے جو عالم ہو اورعلوم کے مختلف شعبوں میں مہارت رکھتا ہو اور ساتھ ہی اپنے علم کے متلاشیوں کی پیاس بجھانے کا جذبہ بھی رکھتا ہو۔ چنانچہ اس سلسلے میں کئی شخصیات سے ملنے کا اتفاق ہوا جن میں تین نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں، ان میں مولانا مفتی عبدالکریم اورمولانا محمد اشرف اور مولانا حکیم نقشبند۔
ہمین میٹرک تک جن علما اور اچھے لوگوں میں بیٹھنے اور سیکھنے کا موقع ملا ان میں مولانا حکیم نقشبند صاحب کا نام بھی شامل ہے۔ وہ صوبہ سرحد (موجودہ پختون خواہ )کے کسی علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔ برسوں راولپنڈی میں رہائش پذیر رہے جہاں وہ ایک جامع مسجد کے خطیب بھی رہ چکے تھے‘ پھر حالات انہیں کشمیر کے اس خطے میں لے آئے۔ انہوں نے کھوئی ر ٹہ کو اپنا مستقل مسکن بنایا اور وہیں اپنا مطب بھی قائم کیا، وہ بہت تجربہ کار حکیم تھے۔اللہ نے ان کے ہاتھ میں بہت شفا رکھی ہوئی تھی۔جلد ہی ان کی حکمت کا شہرہ قرب و جوار میں ہو گیا۔اور ان کا مطب شہر کا اہم طبی مرکز بن گیا۔ ہماری ان کے بیٹے محمد زبیر سے دوستی ہوگئی جو عمر اور تعلیم دونوں میں مجھ سے آگے تھے،پھر یہ دوستی گہری محبت میں بدل گئی۔صبح دوپہر اور شام فرصت کا ہر لمحہ ان کے ساتھ گزرنے لگا۔ ان سے دوستی کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکیم صاحب بھی ہم سے اپنے بیٹے کی طرح محبت کرنے اور میرے معاملات میں دلچسپی لینے لگے۔ وہ بلند پایہ عالم اور درویش منش انسان تھے۔انہوں نے ہماری زندگی کا کسی اور زاویے سے مطالعہ شروع کردیا جس کا ہمیں علم نہیں تھا۔وہ اپنے علم اور تجربے کی بنا پر ہمارے مستقبل میں جھانکنے کی کوشش بھی کرنے لگے جس کی اللہ نے انہیں بہت صلاحیت دی ہوئی تھی۔وہ علم الاعداد اور دیگر علوم بھی جانتے تھے۔ایک دن انہوں نے ہمیں خصوصی طور پر اپنے پاس روک لیا پھر اپنے سارے کاموں سے فارغ ہو کر ہمیں نام کی اہمیت کے بارے میں بڑا معلوماتی لیکچر دیا اور اس کے اچھے برے اثرات سے آگاہ کیا۔انہوں نے ہمیں قائل کیا کہ ہم اپنا نام تبدیل کرلیں۔اور یہ بھی کہا کہ نیا نام، جو وہ خود رکھیں گے ہمارے مستقبل پر اچھے اثرات مرتب کرے گا۔ ہمارے پوچھنے پر انہوں نے جو نام تجویز کیا وہ عارف الحق تھا۔ہم چونکہ ان کی شخصیت علمیت اور بزرگی سے بہت متاثر تھے، اس لیے بخوشی ان کاتجویز کردہ نام قبول کر لیا، اورنام کی تبدیلی کے لیے اسکول میں درخواست بھی دے دی۔
گھر آکر جب والدین کو بتایا تو انہوں نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا اور کہا کہ تمہیں جو مناسب لگے وہ نام اختیار کر لو۔ چنانچہ اب ہم محمد شریف کے بجائے عارف الحق بلائے جانے لگے۔ گاؤں میں اس نام کی پذیرائی بہت آہستہ آہستہ ہوئی اور ایک عرصہ بعد یہ نام لوگوں کی زبان پر چڑھااور عرصے تک صرف شریف ہی کہہ کر پکارتے رہے اور تاہم پھر بتدریج عارف کے نام سے پکارنے لگے۔
میٹرک کے امتحان کے فارم جانے لگے تو ہیڈ ماسٹر چوہدری الف دین نے فارم پر کرتے وقت’’ عارف الحق ‘‘کے بعد ’’عارف‘‘ کا اضافہ کر دیا۔چوں کہ اس زمانے میں اس طرح کا اضافہ عام سی بات تھی اور ہر طالب علم نے اپنے نام کے ساتھ کوئی نا کوئی لاحقہ لگا رکھا تھا اس لیے ہم نے بھی اس کو اپنے نام کا حصہ بنانے پر کوئی اعتراض نہیں کیا اورتب ہی سے یہ ہمارے نام کا حصہ ہے ۔‎ہمیں بچپن میں جن علما سے قرآن مجید کو ترجمہ کے ساتھ پڑھنے اور دینی علم کی ابتدائی باتیں سیکھنے کا موقع ملا
‎ان میں مفتی عبدالکریم کی شخصیت بڑی نمایاں تھی۔ وہ فاضل دیو بند تھے اور ان کے علم اور خطابت کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ان کا ریاستی سیاست اور سیاستدانوں سے بھی قریبی رابطہ تھا،جن میں چوہدری غلام عباس،شیخ عبدللہ ،سردار سکندرحیات کے والد سردار فتح محمد کریلوی بھی شامل تھے۔وہ خطیب ملت عطااللہ شاہ بخاری اور ان کی جماعت “احرار” سے بڑے متاثر تھے جو مرزا غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت کے خلاف تحریک چلا رہے
‎تھے۔ ان کا گھر ہمارے گاؤں سے تقریباً” ۸ کلو میٹر دور ایک دوسرے گاؤں “گھڑا” میں تھا۔ ان کو پورے علاقے میں بڑی قدرومنزلت سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ ضلع مفتی کے سرکاری منصب پر بھی فائز رہ چکے تھے جس کی حثیت شرعی قاضی کی ہوتی ہے ان کی حیثیت مسلم تھی ۔ان کی اسی شہرت کو سن کر ہم اورہمارے گاؤں اور اسکول کے دوست بابو محمد بشیر نے ان سے ترجمہ قرآن سیکھنے کا پروگرام بنایا۔ یہی بابو بشیر بعد میں ہمارے کراچی جانے
‎کا سبب بھی بنے۔ ہم نے مفتی صاحب کے گھر جا کر ان سے پڑھنے کی اجازت طلب کی جو انہوں نے بخوشی دے دی۔ اس طرح ہم دونوں اپنے گاؤں سے ۸ کلو میٹر پیدل چل کر روزانہ ان کے پاس جاتے اور قرآن مجید مع ترجمہ کا سبق لے کر واپس آجاتے۔ یہ سلسلہ تین چار ماہ چلتا رہا، اور پھراسکول کی پڑھائی میں مصروف ہوجانے کی وجہ سے منقطع ہو گیا۔ تاہم اسکول کی چھٹیوں میں پھر یہ سلسلہ شروع ہو جاتا۔ اس کے علاوہ ہمارے گاؤں ڈھیر ی صاحبزادیاں کے مولانا محمد اشرف بھی معروف عالمِ دین تھے، اکثر ان سے بھی قرآن مجید اور اس کا ترجمہ پڑھنے کے سلسلے میں جانا ہوتا اور وہ بھی شفقت کے ساتھ پڑھاتے۔یہ چوں کہ اپنے ہی گاؤں میں تھے اس لیے ان سے ملنے اور سبق لینے میں دشواری نہیں ہوتی تھی۔ان کے صاحبزادے مولوی محمد قاسم ہم سے عمر میں تھوڑے ہی بڑے تھے اس لئےان سے بھی دوستی تھی۔ مولانا اشرف صاحب بڑے ہی شفیق اور محبت کرنے والی شخصیت تھے۔وہ گاوں کے بچوں کے ساتھ پیار اور محبت سے پیش آتے تھے ہمارا اور ہمارے دوست بشیر کا رجحان چوں کہ دین کی طرف زیادہ تھا اس لیے ہم پر ان کی شفقت کچھ زیادہ ہی رہتی۔
‎مولانا محمد اعظم بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جن سے ہم نے بچپن میں اپنی علمی پیاس بجھائی۔ وہ مولانا اشرف کے شاگرد،مولانا محمد شفیع جوش اور پروفیسر عبدللہ طائر کے والد تھے۔ ان کا گاؤں مجوال ہمارے گاؤں سے کوئی پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ وہ ہمارے بچپن کے دوست دین محمد کے بہنوئی تھے۔ہم اور بشیر ان سے بھی قرآن کا ترجمہ پڑھنے کے لئے جاتے تھے۔وہ بھی علمی شخصیت اور انہوں نے بھی ہماری طرح مولانا اشرف کے گھر جا جا کر
سبقا” سبقا” قرآن مجید کو سمجھنے اور اس کا ترجمہ اور تفسیر کا علم حاصل کیا تھا۔
مولانا اشرف بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ بریلوی روایات کے مطابق دینی پروگرام منعقد کرتے تھے اور باقاعدگی کے ساتھ گیارھویں شریف، جشن عید میلادالنبی،شب برات،شب معراج اور شب عاشور مناتے تھے، ہم بھی ان میں حصہ لیتے تھےاور مولانا ہمیں لکھ کر تقریر دیتے جو ہم ان پروگراموں میں تقریری انداز میں پڑھ دیتے تھے۔صاحبزادہ مقبول احمد ہماری پوری وادی بناہ کے مقبول نعت خوان تھے جن کی نعت خوانی کا بڑا چرچا تھا اور ان کی موجودگی کسی بھی دینی تقریب یا مجلس کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی ۔اس کے علاوہ ہمارے دیہاتی ماحول کا ایک مذہبی پروگرام “ختم قرآن شریف “ بھی ہوتا تھا جو ہر صاحب حثیت اپنے مرحومین کے ایصال ثواب یا برکت کےلئے لازمی طو پر منعقد کرتے تھے اس کے لئے باقاعدہ گروپ یا ٹیمیں بنی ہوتیں اور وہی گروپ گاؤں میں یا کسی دوسری جگہ میزبان کے یہاں جا کر یہ ختم پڑھتے۔ صاحب خانہ ختم میں قرآن یا آیہ کریمہ پڑھنے والوں کی وقفے وقفے سے کھانے سے پہلے چائے اور فروٹ سے خوب تواضع کرتے جس کا نام “ حاضری “ ہوتا تھا۔ہم بھی چھٹیوں کے زمانے میں اس گروپ کا حصہ بن جاتے اور “حاضریوں” اور قسم قسم کے پر تکلف کھانوں سے لطف اندوز ہوتے۔ہمارے اندر بچپن ہی میں دینی رجحان پیدا کرنے اور اس کی ترغیب دینے میں ان تقریبات اور اپنے والد کے علاوہ ان چاروں نامور علماء کا بڑا دخل رہا ہے۔
ہمارا خاندان 1947 کی ہجرت کے بعد مسلسل سفر اور مستقل ٹھکانے کی تلاش میں جگہ جگہ مارا پھر رہا تھا۔ہم ڈھیری صاحبزادیاں کے قرب وجوار کے کہی دیہات اور گھروں میں عارضی سکونت اختیار کر چکے تھے۔ابھی ہمیں ہندوؤں اور سکھوں کی چھوڑی ہوئی املاک میں سے زمیں الاٹ نہیں ہوئی تھی۔تاہم والد صاحب اس کے لئے پوری کوشش کر رہے تھے۔اس وقت ہم حاجی علی محمد کے گھر میں عارضی طور پر رہائش پزیر تھے، جب ہمیں پہلے بڑے صدمے سے دو چار ہونا پڑا۔اس وقت ہماری عمرتقریباً پندرہ سال تھی اور ہم نویں جماعت کے طالب علم تھے، کہ ہماری والدہ کا اچانک انتقال ہو گیا۔ہم ان کو “ بے“ کہتے تھے۔ یہ صدمہ ہمارے لئے ناقابل برداشت تھا کہ وہی ہمارے لئے ہر مشکل وقت میں صبر اور حوصلہ دینے کا بہت بڑا سہارا تھیں۔انہیں بظاہر دمے کا مرض لاحق تھا، جس کا حالات کے مطابق بہت علاج کرایا گیا لیکن ایک دن ان پر مرض کا ایسا حملہ ہوا کہ وہ جانبر نہ ہو سکیں اور خالق حقیقی سے جا ملیں۔انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔
‎ہماری پیاری ماں “ بے“ کو نہ صرف ہم تین بہن بھائیوں سے بلکہ میرے سوتیلے بہن بھائیوں سے بھی بے پناہ پیار اور محبت تھی وہ سگی اورسوتیلی اولاد میں کوئی فرق نہیں رکھتی تھیں۔وہ سب بچوں کے لیے سایہء رحمت سے کم نہ تھیں۔ہمارے سوتیلے بہن بھائیوں کو بھی حقیقی ماں کی طرح پالا پوساتھا۔ہماری ماں کو اپنے بچوں کی تعلیم کابے حدشوق تھا اور چاہتی تھیں کہ سب بچے پڑھ لکھ جاہیں۔انہوں نے چک جمال میں بھی سارے بچوں کو اسکول داخل کرانے کی کوشش کی تھی۔ دوسرے بھائی داخل ہوئے بھی لیکن انہوں نے جلد اسکول جانا چھوڑ دیا۔ اس کے برعکس ہمیں اسکول جانا اور پڑھنا اچھا لگتا تھا، لہذا ان کی توجہ کا مرکز بھی ہم ہی بن گئے۔ حالات جتنے بھی ناگفتہ بہ ہوں،وہ ہمیشہ ہمیں پڑھنے کی طرف راغب کرتیں۔ہماری تعلیم کا آغاز انہوں نے بچپن میں
قرآنی قاعدے سے کرایا جو پڑوس کے ایک مولوی صاحب پڑھاتے تھے،
امی پر سوتیلے بہن بھائیوں کا کافی دباؤ ہوتا تھا، بڑے کنبے کے پھیلے ہوئے کئی کام ہوتے تھے مگر ”بے“ نے کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ وقت کتنا سخت ہے اور مشکلات اور غربت کی وجہ سے کتنے فاقوں کا سامنا ہو، وہ کبھی پریشان نہیں تھیں۔یہ ان کی سخت تربیت ہی تھی کہ ہمیں بعد کے زمانے میں زندگی کی جدوجہد میں مشکلات کا سامنا کرنے میں کبھی مشکل پیش نہیں آئی اور آسانی سے ان پر قابو پا لیا۔ہمیں اس بات کا ہمیشہ افسوس رہا کہ وہ ہمارے میٹرک کرنے سے پہلے ہی وہ ہم سے جدا ہو گئیں۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ اللہ ایک دن ضرور تمھیں بڑا آدمی بنائے گا مگر اس وقت میں نہیں ہوں گی۔ وہ خاص طور پر یہ دعا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کامیاب انسان بنائے جو دوسروں کے بھی کام آئے۔ہمیں ہر وقت ان کی یاد آتی ہے اور اکثر راتوں کو ان کو یاد کر کے ہماری پلکیں آنسؤں بھیگ جاتی ہیں۔ ہم اکثر سوچتے ہیں کہ کاش وہ دیر تک زندہ رہتیں اور ہمیں اور ہمارے بچوں کو دیکھتیں تو کس قدر خوش ہوتیں۔ تاہم یہ بات ہمات ہمارے لیے بڑی طمانیت کا باعث ہے کہ انہوں نے ہمارے بارے میں جو بھی خواب دیکھے تھے اور جو کچھ ہمارے بارے میں کہا تھا، اللہ تعالی نے اپنے خصوصی کرم سے انہیں پورا کیا۔ اس میں یقینی طور پر ان کی دعاؤں کا بھی دخل ہے۔ ان کی خواہش کے مطابق جہاں ہم نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی وہیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی میں بڑی کامیابیاں بھی عطا کیں۔
ہمیں اپنی ماں ہر ایسے وقت میں یاد آتی ہیں جب اللہ ہمیں تعالی کوئی اچھی خبر یا کامیابی عطا کرتا ہے یا ہمیں مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہ ہمیں اس وقت بھی بہے یاد آئیں جب ہم نے پوزیشن کے ساتھ میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ کاش وہ اس خبر کو سنتیں اور خوش ہوتیں۔ وہ ہمیں اس وقت بھی بہت یاد آئیں،جب ہم نے روزگار اور مزید پڑھنے کے لئے کراچی کا سفر کیا۔ وہ ہمیں اس وقت بھی یاد آئیں، جب ہمیں کراچی پہنچ کر کے پی ٹی میں پہلی نوکری ملی۔ ہم ان کو یاد کرنا اس وقت بھی نہیں بھولے، جب ہم نے مزید تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھنے کا پہلا مرحلہ ادیب فاضل کا امتحان پاس کیا۔ وہ ہمیں اس وقت بھی بہت یاد آئیں جب ہم نے 1963 میں اردو کالج میں انٹر سال اوّل میں داخلہ کیا۔
ہم نے ان کو اس وقت بھی یاد کیا جب ہم نے 1964 میں انٹر اور 1966 میں ہم نے بی اے کا امتحان پاس کیا۔وہ اس وقت بھی ہماری یادوں میں تھیں،جب ہمیں 1967 میں کراچی یونیورسٹی میں ایم اے صحافت میں داخلہ ملا۔وہ ہمیں اس وقت بھی بہت یاد آئیں جب ہماری 15 مئی 1970 میں شادی ہوئی۔ اس دن تو ہم ان کو یاد کر کے بہت روئے بھی۔ہم انہیں اس وقت بھی نہیں بھولے، جب ہمیں جنگ اخبار میں ملازمت ملی۔ وہ ہمیں اس وقت بھی بار بار یاد آئیں، جب ہمیں اللہ تعالی نے 1971 سے 1986 کے دوران میں پانچ بچوں سے نوازا۔وہ اس وقت بھی یاد آئیں، جب جنگ اخبار میں 16 اپریل 1967 میں جنگ میں ملازمت ملی اور پھر آہستہ آہستہ مختلف عہدوں پر ترقی ملی اور جنگ میں مختلف پروجیکٹ کامیابی کے ساتھ مکمل کرنے کا موقع ملا۔ ہمیں وہ اس وقت بھی یاد آئیں جب ہمیں جیو ٹی وی میں ایک نیا شعبہ قائم کرنے کا موقع دیا گیااور جب ہمیں بڑے ٹی وی چینل میں مختلف پروجیکٹ دیئے گئے اور ہم نے ان کو مکمل کیا وہ ان تمام موقع پر بھی یاد آتی رہیں اور ہم سوچتے رہے کہ وہ ہماری ان کامیابیوپر کس قدر خوش ہوتیں کہ ان کی باتیں اور خواب پورے ہو رہے تھے۔(جاری ہے )
No photo description available.
Reach more people with this post
You could reach up to 2,109 people daily by boosting your post for PKR1,686.

See insights and ads
Boost post
Like

Comment
Share