اسکول فیس دینے کیلئے کتابوں کی جلد سازی کی ۔ عارف الحق عارف

اب ہم آزادکشمیر اور خاصوصا” ان حالات کا ذکر کریں گے،جن سے ہمارا علاقہ ان دنوں گزر رہا تھا۔معاشی طور پر پورے خطہ کشمیر میں قحط کی سی کیفیت تھی، بہت ہی کم لوگ مال و دولت کے لحاظ سے خوش حال تھے۔عام لوگوں کی حالت نا گفتہ بہ تھی اور وہ ایک ایک روپے کے لئے ترستے تھے۔عام لوگوں کو پورے دن میں محض ایک وقت کا کھانا میسر آتا تھا۔ اس کا اندازہ لگانے کے لئے یہ مثال کافی ہے کہ لوگوں کی گزر بسر اپنے کھیتوں سے حاصل ہونے والے غلے،دالوں اور سبزیوں سے ہوتی تھی اور اس کا ذخیرہ بھی دوسری فصل آنے سے پہلے ہی ختم ہو جاتا اور فاقے شروع ہوجاتے تھے۔ اس وقت کا انتظار کیا جاتا تھا جب مکئی کے بھٹے اس حالت میں آ جائیں کہ ان میں دودھ آجائے۔اس وقت اس کے دانے الگ کر کے اس کا “ بھات “ بنا لیا جاتا اور وہی ایک وقت کا کھانا ہوتا۔یہ “بھات “ ہم نے بھی مکئی کی فصل کے موقع پر بار بار کھایا۔اگرچہ بڑے زمینداروں کے پاس غلہ موجود ہوتا لیکن وہ ذخیرہ اندوزی کرتے اور غذائی قلت کے زمانے میں من مانی قیمت پر بیچ کر خوب منافع کماتے. چوں کہ عام لوگوں کے پاس غلہ خریدنے کے لئے نقد رقم کی شدید قلت ہوتی تھی۔لہذا ان کے لئےاسے خریدنا مشکل ہوجاتا۔
ہمارے خاندان کی حالت بھی بڑی ابتر تھی۔پائی پائی کو ترستے تھے۔ یہاں تک کہ ہمارے والد ہمارے اسکول کی ایک آنہ ماہوار ٹیوشن فیس بھی ادا کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھے۔ اس زمانے میں اسکول کی فیس پہلی جماعت کی ایک آنہ، دوسری جماعت کی دو آنہ‘ اور اسی طرح ۱۰ ویں جماعت کی ۱۰ آنے ماہانہ تھی اور اتنی کم فیس ادا کرنابھی ہمارے لئے دشوار تھی۔ ہمارے والد ہر وقت دو وقت کی روٹی روزی کے لئے مارے مارے پھرتے، جس سے ہم پریشان رہتے تھے۔ اس کا ایک حل تو یہ تھا کہ ہم اسکول چھوڑ دیتے اور پڑھائی کا سلسلہ ختم کر دیتے۔ یہ بظائر سب سے آسان حل تھا۔ جس پر گھر میں کبھی بات بھی ہوتی لیکن میرے والدین اس خیال کو رد کر دیتے اور کہتے کہ ان شا اللہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اللہ تعالی کوئی نا کوئی بندوبست کر دے گا۔
ہمیں اس صورت حال پر سخت تشویش تھی۔لہذا، والد صاحب کی پریشانی دور کرنے کا فیصلہ کیا تا کہ کم سے کم اپنے تعلیمی اخراجات کو خود پورا کر سکیں۔اس کےلئے ایک طریقہ تو یہ اختیار کیا کہ اپنے ہی کلاس کے پڑھائی میں کمزور چند دوستوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔ آپ اسے “ٹیوشن” کہ سکتے ہیں لیکن ہمیں اس وقت یہ تک علم نہ تھا کہ ٹیوشن کس بلا کانام ہے۔اس سے کچھ آمدنی شروع ہوگئی جس سے فیس کا مسئلہ کسی حد تک حل ہوا۔ دوسرا کام یہ کیا کہ کتابوں کی جلد بندی کے کام کا آغاز کردیا۔اس کام کےلئے لکڑی کے شکنجے کی ضرورت ہوتی ہے،وہ شکنجہ ہم نے خود ڈیزائن کیا اور بنا لیاپھر آہستہ آہستہ جلد سازی کا کام ملنے لگا، جس سے بھی آمدنی ہونے لگی۔یوں ہم اپنے تعلیمی اخراجات خود اٹھانے کے قابل ہو گئے اور والد صاحب کی پریشانی کسی حد تک دور ہو گئی۔
اس دور میں پورے کشمیر میں بجلی کی سہولت تو دور کی بات ہے، اس کا تصور بھی ناممکن تھا۔ گھروں میں روشنی کا اہتمام تیل سے جلنے والے دئیوں اور لالٹین کے ذریعہ کیاجاتا تھا۔روشنی نا ہونے کی وجہ سے شادی بیاہ کی تقریبات دن ہی میں نمٹا لی جاتیں اور رات کی تقریبات کےلیے گیس سے جلنے والے ہنڈے استعمال میں لائے جاتے جو کسی صاحب ثروت گھرانے سے تعلقات کی بنیاد پر یا کسی سے کرایہ پر حاصل کیئے جاتے۔ راتوں کو سفر کی صورت میں روشنی کےلئے لکڑی کی ایک سیدھی طویل ٹہنی کے سرے پر شمع جلائی جاتی۔یہ شمع جلانے کےلئے چیڑ کی لکڑی کے اس حصے کو استعمال میں لایا جاتا جس میں گندے بیروزے کا ایندھن ہوتا،جو اسی لکڑی سے پیدا ہوتا ہے۔ان شمعوں کا ایک شاندار مظاہرہ رمضان کی آمد سے قبل شب برات کے موقعے پر بھی ہوتا۔جس سے پورا علاقہ جگنو کی ٹمٹماتی روشنیوں کی طرح جگمگا جاتا۔ شب برات کے موقعے پر دیہی اور پہاڑی علاقوں میں اب بھی یہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ راتوں کولالٹین کی روشنی میں مسلسل پڑھائی کی وجہ سے ہماری نظر کمزور ہوگئی تھی جس کی بنا کر کراچی میں آکر چشمہ لگ گیا تھا۔
‎ہماری ماں کا انتقال ہمارے لئے بہت بڑے کرب وصدمہ کا باعث تھا لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری اور صدمے کے باوجود پوری محنت اور جانفشانی سے میٹرک کے امتحان کی تیاری کی اور بہتر نتائج لانے کے لئے دن رات ایک کردیا تھا۔ جس کا واحد مقصد یہ تھا کہ
‎والدین کے خواب پورے کئے جا سکیں۔اس محنت کا ہمیں اچھا پھل بھی ملا،جس کی ہمیں اللہ کی ذات با برکات سے پوری امید تھی۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ستمبر ۱۹۶۰میں میٹرک کا نتیجہ آگیا تھا اور ہمیں اپنے سکول میں تیسری پوزیشن ملی تھی جو نا صرف اسکول بلکہ ہمارے خاندان بھر کےلئے بڑی کام یابی تھی۔کیوں کہ ہم اپنے پورے خاندان میں میٹرک کرنے والے پہلے طالب علم تھے۔ ہم نے اس امتحان میں 69 فی صد نمبر لے کر فرسٹ ڈویژن حاصل کی تھی۔
ہماری میٹرک میں اچھے نمبروں کے ساتھ کامیابی سے والدین اور خاندان میں خوشی تو تھی لیکن اب سوال یہ تھا کہ فوری طور پر ملازمت کیسے حاصل کی جائے۔اس کی ضرورت یوں بھی تھی کہ گھر کے حالات اس کا تقاضہ کرتےتھے۔ والد صاحب اور بڑے بھائی کی محنت مزدوری سے گھر کا خرچہ مشکل سے چل رہا تھا۔وہ بھی خوش تھے کہ اب ہمیں ملازمت ملے گی تو مالی صورت حال بہتر ہو جائے گی اگر ملازمت مل جاتی تو گھریلو ا اخراجات کو پورا کرنے میں بڑی مدد مل جاتی۔ ہمیں بھی اندازہ تھا کہ ملازمت ملنے کے بعد گھریلو اخراجات پورے کرنے میں بڑی مدد ملے گی اور محتاجی بھی ختم ہو جا ئے گی ۔ اس لئے نتیجہ آتے ہی ملازمت کے حصول کی کوششیں شروع کردیں لیکن جہاں بھی کوشش کی، ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ سفارش کا کلچر آج کی طرح اس زمانے میں بھی موجود تھا،جس نے ہر طرف اپنے پنجے گاڑھ رکھے تھے۔ یہ کلچر ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا تھا۔ہر جگہ صرف ان ہی امیدواروں کو کامیابی ملتی، جن کےلئے کسی کی سفارش ہوتی یا وہ ملازمت دینے والوں کو مطلوبہ رشوت پیش کر دیتے ۔ہمارے پاس یہ دونوں چیزیں موجود نہیں تھیں اس لئے ملازمت ملنے کا بھی کوئی امکان نہیں تھا۔تاہم تعلیمی سلسلہ آگے بڑھانے کےلئے ضروری تھا کہ ہمیں کوئی روزگار مل جائے۔ گھر کے حالات ایسے نہیں تھے کہ کالج میں داخلہ لیا جاتا۔ملازمت کے بغیر مزید تعلیم کا حصول ہمارے لیے ممکن نہ تھا، والد صاحب نے کہہ دیا تھا کہ میں نے میٹرک تک تعلیم دلوادی ہے اب نوکری کرو اور گھر والوں کا خیال کرو اور ان کا سہارا بنو، آگے پڑھنا چاہو تو اس کے اخراجات کا انتظام بھی خود کرو۔والد صاحب کا کہنا درست تھا۔اس لئے ہم ایسی ملازمت یا روزگار چاہتے تھے جہاں ہماری آگے کی پڑھائی کا شوق بھی پروان چڑھ سکے۔
‎ہمارا شمار اسکول کے چند لائق فائق طلبہ میں ہوتا تھا۔جن میں خان محمد،محمد حنیف اور شاہجہاں شامل تھے۔خان محمد بعد میں ہمارے گاؤں کے کالج کے پرنسپل بنے،محمد حنیف نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا وہ کام یاب تو رہے لیکن افسوس جوانی ہی میں انتقال کر گئے۔ رہ گئے تو وہ راجہ شاہ جہاں ایس ایس پی عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ آج کل علیل ہیں اللہ تعالی ان کو جلد صحت یاب کرے۔ ہم یوں تو سارے مضامین میں اچھے طالبعلم تھے اور ہر ایک میں بہت اچھے نمبر لیتے تھے لیکن حساب، ڈرائنگ اور سائنس میں ہمارا شمار بہترین طلبہ میں ہوتا تھا ہمارے ہیڈماسٹرحاجی الف دین ہمارے بارے میں سب کچھ جانتے تھے اور تعلیمی قابلیت سے واقف تھے اس وجہ سے وہ ہم سے بہت خوش تھے اور ہم کو بہت چاہتے تھے ہماری اس صلاحیت کی وجہ سے انہوں نے ہمیں یہ مشن سونپا کہ ہم رات کو ان کے گھر آہیں اور ان کے بیٹے اقبال کو پڑھایا کریں اور مل کر میٹرک کے امتحان کی تیاری بھی کریں۔ ان کے صاحبزادے اقبال بھائی ہمارے کلاس فیلو تھے اور کچھ مضامین میں کمزور تھے ہم نے نویں اور دسویں جماعت میں مشترکہ پڑھائی کی تیاری کی اور امتحان میں کامیاب ہوئے۔ اقبال بھائی نے اپنے والد کے مشن کو جاری رکھا اور تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ترقی کرتے کرتے وہ ڈائریکٹر ایجوکیشن کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔افسوس ان کا ابھی چند سال قبل انتقال ہو گیاہے، اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے اور اپنے جواررحمت میں جگہ دے۔ ۔ہم اپنے گھر سے کوئی پانچ چھ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے ان کے گھر جاتے اور صبح وہیں سے پیدل چل کر اسکول آتے۔ میٹرک کا نتیجہ آنے کے بعد جب حاجی الف دین کو علم ہوا کہ ہمیں ملازمت کی تلاش ہے تو انہوں نے ہمیں پیشکش کی کہ ان کے اسکول میں ڈرائنگ ٹیچر کی جگہ خالی ہے۔ہم چاہیں تو اسکول جوائن کرسکتے ہیں۔ہم نے عارضی طور پر ان کی یہ پیشکش قبول کر لی اور کچھ عرصے تک بحیثیت ڈرائنگ ٹیچر اسکول میں کام بھی کیا،اس لئے کہ ریاضی کی طرح ڈرائنگ کے مضمون میں بھی ہماری حیثیت امتیازی تھی۔جلد ہی ہمیں احساس ہو گیا کہ اگر ہم نے مستقل طور پر یہ ملازمت اختیار کرلی تو کالج میں مزید تعلیم حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔اس سے قبل ہم نے ایک اور ملازمت کے لئے کوشش کی تھی لیکن اس میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا
‎یہ ملازمت ایک نئے محکمہ کےلئے تھی جو ملک بھر کی دیہی آبادی کو سدھارنے کے ایک نئے سرکاری محکمہ دیہات سدھار کے نام سے قائم ہوا تھا۔حکومت نے ملک بھر کے دیہی علاقوں کی ترقی اور کاشت کاروں کو کھیت باڑی کے جدید طریقوں سے روشناس کرانے اور پیداوار میں اضافے کی یہ نئی اسکیم شروع کی تھی جس کے لئے میٹرک پاس نوجوانوں کی بھرتی کا اشتہار شائع ہوا۔ہم نے بھی درخواست دے دی اور مقررہ تاریخ پر پہلے تحریری امتحان دیا۔اس کے بعد کوٹلی شہر کے مشہور گراؤنڈ میں دوڑ کا مقابلہ ہوا ہم ان دونوں امتحانات میں کامیاب ہوگئے لیکن جب کامیاب امید واروں کی حتمی فہرست لگی تو اس میں ہمارا نام نہیں تھا۔ معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ہماری کوئی سفارش تھی اور نا ہم رشوت دینے کی پوزیشن میں تھے جن کے پاس یہ دونوں چیزیں موجود تھیں ان کا کام ہو گیا تھا۔ اس سے پریشانی تو ہوئی لیکن پھر اللہ پر بھروسہ کیا کہ جو اس کو منظور ہوگا، وہی ہو کر رہے گا۔
اگرچہ ہم اچھی طرح جانتے تھے کہ کھوئی رٹہ یا کوٹلی میں پہلے تو ملازمت ملنے کے امکانات بہت ہی کم ہیں کہ یہ دیہی پس منظر رکھتے ہیں اور رہی سرکاری ملازمت تو وہ بھی چند محکموں کے سوا کسی اور میں ملنے کا امکان نہیں تھا۔اگر بفرض محال مل بھی جائے تو ہم مزید تعلیم حاصل کرنے کا خواب پورا نہیں کرسکتے تھے اس کے باوجود”دیہات سدھار مہم“ کے نئے محکمے میں ملازمت کے انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ اس میں کام کچھ زیادہ نہیں تھا اور ہمارا یہ خیال تھا کہ اگر یہ نوکری مل جائے تو روزگار کا مسئلہ بھی حل ہو جائیگا اور کالج نہ سہی پرائیویٹ طور پر مزید پڑھنے کا سلسلہ جاری رکھنے کا موقع بھی مل جائے گا۔ ہمیں اس محکمے اور اس میں ملازمت کی طرف راغب اسی محکمہ کے ایک افسر نے دلائی تھی، جن کانام اب یاد نہیں۔وہ فیصل آباد کے باسی تھے اور ہمارے پڑوس میں رہتے تھے۔ان سے ہماری دوستی ہو گئی تھی اور اکثر ان سے ملاقات اور بات چیت رہتی تھی۔وہ بڑے ہمدرد اور دوسروں خاص طور پر اسکول جانے والے طلبہ کی ضرور مدد اور پڑھائی میں تعاون کرتے اور مشورے دیتے رہتے تھے۔ان سے اپنے مستقبل کے بارے میں بھی ہماری بات چیت ہوتی رہتی تھی۔ انہوں نے کراچی آنے کا فیصلہ کرنے میں کردار بھی ادا کیا تھا اور کراچی جانے کےلئے ہماری مالی مدد بھی کی تھی۔ان کا مشورہ تھا کہ اگر یہ ملازمت مل جائے تو مزید پڑھائی میں مدد ملے گی اور ہمارے دونوں مقاصد روزگار اور مزید تعلیم حاصل کرنا ممکن ہوجائے گا۔ اس لیے ہماری خواہش اور پوری کوشش بھی تھی کہ یہ نوکری مل جائے لیکن انسان اپنے لئے کچھ سوچتا ہے اور اللہ کے اپنے منصوبے ہوتے ہیں اور وہ بندے سے اکثر وہ کام لیتا ہے، جس کا اسے علم نہیں ہوتا۔اس لاعلمی کی وجہ سے انسان کو وقتی فائدہ نہ ہونے سے سخت پریشانی اور مایوسی ہوتی ہے ۔ ہمارا بھی یہی حال ہوا، ہم ملازمت نہ ملنے سے بڑے پریشان ہوئے ، ہمیں سخت مایوسی اور دلی صدمہ ہوا۔ پریشانی ہمارے چہرے سے نمایاں طو پرجھلک رہی تھی۔ وقتی طور پر ایسا محسوس ہو رہا تھا، جیسے سب کچھ ختم ہو گیا ہے اور اب کہیں بھی کامیابی نہیں ملے گی لیکن ہماری غلط سوچ غلط تھی۔ اسی پریشانی کے عالم میں گھر واپس پہنچے ، والد صاحب اور گھر والوں کو معلوم ہوا تو انہیں صدمہ ہوا۔ان کے اپنے خواب بھی چکنا چور ہو گئے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہمیں بتدریج اس راہ پر لا رہا تھا جو اس نے ہمارے مقدر میں لکھ رکھا تھا۔
آج ہم اپنے ماضی پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ روزگار کی تلاش کے ایک ایک مرحلے میں ناکامی سے ہمیں وقتی پریشانی کا سامنا ضرور کرنا پڑا لیکن یہ دراصل ایک مسلسل سفر تھا جس کی آخری منزل کراچی آمد، ایم اے صحافت تک اعلی تعلیم اور پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤس جنگ گروپ میں مسلسل 52 سال تک وابستگی تھی جس کے دوران اللہ نے ہم سے کئی اچھے مفید کام کرائے۔ کراچی میں بس کنڈکٹر ، پرائیویٹ اسکول میں تدریس کی ملازمت نہ ملنے اور کے پی ٹی کی ملازمت مل جانے کے باوجود چھوڑ دینے اور کپڑے کی ایک دکان پر سیلزمینی کی جاب نہ ملنے کے پس منظر میں یہی حکمت الہی پوشیدہ تھی۔ اب ہم اکثر سوچتے ہیں کہ اگر کھوئی رٹہ کے ا سکول میں ڈرائنگ کی تدریس جاری رکھتے یا دیہا ت سدھار کے محکمے میں نوکری مل جاتی تو کیا ہمارے دل میں کراچی آنے کی سوچ پیدا ہوتی؟کیا ہماری شادی کراچی میں ہو پاتی اور ہمارے لائق پانچ بچے بڑے اور تعلیم یافتہ ہو کر موجودہ جگہوں پر ہوتے؟ اگر ہم کے پی ٹی کی ملازمت نہ چھوڑتے،اگرسیلز مین کی ملازمت مل جاتی تو کیا ہمارے لئے ایم اے تک تعلیم حاصل کرنا ممکن ہوتا اور کیا صحافت کے پیشے سے وابستہ ہو نے کا موقع ملتا ؟ اور جنگ اور جیو ٹی وی ہی میں ۵۲ برس کا طویل عرصہ عزت و احترام کے ساتھ گزارنے کا موقع ملتا ؟ اور جنگ گروپ میں رہ کر پاکستان، اسلام اور کشمیر کاز کے لئے مثبت کام کر پاتے ؟ ہم جب بھی ان سوالوں کے جوابات پر غور کرتے ہیں تو ان سب کا جواب نفی میں ملتا ہے۔اسے ہم اللہ تعالی کی اپنے اوپر خصوصی فضل اور کرم نوازی ہی تصور کرتے ہیں۔
‎ اللہ تعالیٰ در اصل ہمیں ان مشکل اور مایوس کن حالات سے گزار کر ایک اور کام کےلئے تیار کر رہا تھا ۔ہمارا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب سے کچھ نہ کچھ کام لینا چاہتا ہے، اس لیے ان حالات سے گزرنے کے بعد ہمیں جو عزت،مقام اور شناخت ملی ہے اس کی بنیاد پر ہم کہ سکتے ہیں کہ انسان کو بس خلوص نیت کے ساتھ اپنا کام جاری رکھنا چاہیے اور مایوس کن اور کٹھن حالات کو اللہ کی مرضی سمجھ کر قبول کر لینا چاہیے۔ لکیا پتا کہ اللہ تعالیٰ کس انسان سے کیا کام لینا اور اسے کس مقام تک لے جانا چاہتا ہے ۔اللہ تعالی ہر فرد کو اس کی جدوجہد اور محنت کا اس کی نیت کے مطابق بہتر سے بہتر موقع دیتا ہے۔اس لئے اللہ تعالیٰ کا ہر ہر لمحے اور ہر ہر مرحلے پر شکر ادا کرتے رہنا چاہیے، اور یہ دعا کرنی چاہیے کہ اے اللہ جو ہمارے لیے بہتر ہو وہ عطا کر دے،اور جو ہمارے لئے بہتر نہ ہو،اس سے دور رکھ اور ایسے اچھے کام کرنے کی توفیق دے،جس سے تو راضی ہو ۔
(جاری ہے )