” کراچی کے کرائے کیلئے درکار 25 روپے والد نے ادھار لے کر دیئے”

سجاد عباسی
ساتواں حصہ
محکمہ دیہات سدھار میں ملازمت نہ ملنے سے ہم نا امیدی اور مایوسی کی جس کیفیت سے دوچار تھے، اس سے نکلنے اور سنبھلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہمارے لئے دنیا اندھیر ہوچکی ہے۔ یہ بات ہمارے لئے ایک چیلنج بن گئی تھی۔ کچھ بھی کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ اب ہر وقت یہ فکر رہنے لگی تھی کہ کیا کریں؟ مایوسی دن بدن بڑھ رہی تھی۔ اپنوں نے الگ طنز و تشنیع کے تیر برسانے شروع کر دیئے تھے۔ وہ ہمیشہ ہمارے اسکول جانے اور تعلیم حاصل کرنے کے خلاف تھے اور کہتے تھے کہ پڑھ کر کیا پٹواری یا دفتری بابو بنو گے؟ ملازمت نا ملنے پر انہیں طرح طرح کی باتیں بنانے کا موقع مل گیا تھا۔ ان کی باتیں سن سن کر مایوسی میں اور اضافہ ہی ہوتا رہتا۔ اب سوال یہ تھا آئندہ کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے کہ تعلیم کے حصول کا خواب شرمندہ تعبیر ہو اور ملازمت بھی مل جائے۔
کئی دن اسی سوچ بچار میں گزر گئے۔ اپنے گاؤں اور اسکول کے مخلص دوستوں اور شہر کے سمجھدار بڑوں سے بات کی۔ ایک ایک پہلو پر غور ہوا۔ بالآخر یہ معاملہ طویل مشاورت سے طے ہوگیا۔ دراصل کھوئی رٹہ شہر میں اس وقت جتنی بھی تعلیم یافتہ اور نمایاں شخصیات تھیں، ان سے ہمارا نہ صرف دوستی کا تعلق، بلکہ ہر روز ملنا جلنا بھی تھا۔ اس زمانے کا کھوئی رٹہ شہر زیادہ سے زیادہ 100 دکانوں کے ایک ہی بازار کا نام تھا جو آٹھ دس فٹ چوڑی سڑک کے دونوں طرف ایک دوسری کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں۔ ان میں وادی بناہ کی ضروریات کا ہر قسم کا سامان تھوک اور پرچون میں دستیاب تھا۔ ایک ہی اسکول تھا جو پرائمری سے ترقی پا کر پہلے مڈل اور پھر ہائی اسکول ہوا تھا۔ اب اس کی شہر کے اندر نئی عمارت بھی بن گئی تھی۔ یہ اسکول وادی بناہ کا واحد اسکول تھا، جہاں دور دراز کے علاقوں سے بچے پڑھنے کے لئے آتے تھے۔ اسکول کے علاوہ شہر میں ایک ہی جامع مسجد تھی جو سب کے لئے نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ باہمی رابطے کا بھی موثر ذریعہ تھی۔


شہری دوستوں کے ہمارے اس حلقے میں نوجوان اور بزرگ دونوں شامل تھے اور مختلف ادبی، سیاسی، دینی اور سماجی تنظیموں کے عہدیدار ہونے کی بنا پر ایک دوسرے سے رابطہ بھی رکھتے تھے۔ ہم چوں کہ شروع ہی سے دوست بنانے، دوستی نباہنے اور تعلیم یافتہ بڑوں کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا شوق رکھتے تھے، اس لئے ان کے ساتھ ہماری اکثر ملاقاتیں ہو تی رہتی تھیں۔ ہم نا صرف ان کی سرگرمیوں کا حصہ ہو تے تھے بلکہ ان میں سے کئی تنظیموں کے چھوٹے موٹے عہدیدار بھی تھے۔ چناں چہ ہم نے سوچا کہ کیوں نہ اپنا یہ مسئلہ ان سب کے سامنے پیش کریں اور ان کی رائے لیں کہ ہمیں آئندہ کیا کرنا چاہیئے؟ چناںچہ ہم نے وقفے وقفے سے ہر ایک کے سامنے فرداً فرداً اور پھر اجتماعی طور پر اپنا یہ مسئلہ مشورے کیلئے پیش کرنا شروع کردیا۔ باہمی مشاورت کا یہ عمل مسلسل جاری رہا۔ ان میں کچھ حضرات کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں کچھ وقت گزار چکے تھے۔ انہیں ہر شہر کی پوری معلومات اور تجربہ تھا۔ کافی غور و خوض کے بعد یہ مشترکہ رائے بنی کہ نوکری کے ساتھ تعلیم جاری رکھنے کا خواب پورا کرنے کے لیے کراچی بہترین جگہ ہے، جہاں نوکری بھی مل سکتی ہے اور رات کو چلنے والے کسی کالج میں تعلیم بھی جاری رکھی جا سکتی ہے۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ کراچی کا ظرف آنے شہر میں آنے والوں کے لئے سمندر جیسا وسیع ہے۔ وہ ہر آنے والے کو اپنا لیتا ہے اور ہاتھوں ہاتھ اپنے
سینے سے چمٹا لیتا ہے۔ یہ منی پاکستان ہے، جس میں پاکستان کے ہر علاقے کے لوگ موجود ہیں۔ یہ ہر جگہ سے ہجرت کر کے آنے والوں کا شہر ہے۔ چترال سے کیماڑی، چمن سے نارووال، کھوئی رٹہ سے اٹھ مقام اور چاٹگام سے ڈھاکا تک، کون سا علاقہ ہے جس کی نمائندگی کراچی میں نہیں؟ یہ بھی طے ہوا کہ اگر کراچی جانے کا موقع نا ملے تو تعلیم اور روزگار ساتھ ساتھ جاری رکھنے کے لئے لاہور دوسرا بہترین شہر ہے کہ یہ شہر بھی علم و ادب کا مرکز اور مواقع فراہم کرنے والا شہر ہے۔ وہاں بھی نائٹ کالج اور اسکول ہیں۔ بفرض محال، لاہور جانے کا بھی موقع نا ملے تو پھر قریب ترین شہر راولپنڈی تو موجود ہی ہے۔
اس پورے تجزیے سے ہم نے اپنے طور پر فیصلہ کرلیا کہ بہترین شہر کراچی ہے۔ اس لئے پہلے اس آپشن پر کام کرنا چاہیئے۔ یہ فیصلہ ہو گیا تو ایک سوال ایک پہاڑ کی صورت سامنے آگیا کہ کراچی کیسے جایا جائے؟ ذریعہ کون ہوگا؟ وہاں جانے کا کرایہ کہاں سے ملے گا ؟ کراچی کس کے ساتھ جائیں گے ؟ اس لیے کہ کراچی تو کیا پاکستان کے کسی بھی شہر میں ہمارا دور پار کا بھی کوئی رشتہ دار نہیں تھا جو ہمارا وہاں جانے کا ذریعہ بنتا۔ ہم نے اب تک صرف ایک ایک بار اور وہ بھی بچپن میں راولپنڈی، میرپور، فیصل آباد سرگودھا اور سانگلہ ہل دیکھ رکھے تھے۔ کراچی اور لاہور کے صرف نام اور ان کی تعریفیں سنی تھیں۔ اسی سوچ بچار میں قریباً ایک ماہ گزر گیا کہ اللہ نے جو بڑا ہی مسب الاسباب اور سب سے بڑا سہارا ہے، کراچی جانے کا وسیلہ بھی فراہم کر دیا۔


کراچی جانے کے فیصلے سے ہمارے مستقبل پر کیا دوررس اثرات پڑیں گے؟ اس وقت ہمیں اس کے سوا کچھ علم نہیں تھا کہ ہم ملازمت کے ساتھ ساتھ مزید تعلیم جاری رکھ سکیں گے۔ حالاں کہ جب ہم اب سوچتے ہیں تو یہ دراصل بنیادی طور پر ایک بہت بڑا اور درست فیصلہ تھا۔ اس طرح ہم پاکستان کے ایک ایسے بین الاقوامی حیثیت کے حامل شہر میں داخل ہو رہے تھے جو مواقع کا شہر کہلاتا ہے اور جس نے واقعی ہماری زندگی بدل کر رکھ دی۔ یہ ایک ایسا شہر تھا اور ہے، جس میں ہر کوئی اپنی سمجھ اور ذہنی صلاحیت کے مطابق دنیا کے کسی بھی میدان میں ترقی کرکے اعلی ترین مقام حاصل کر سکتا ہے۔
اتنا بڑا فیصلہ تو ہو گیا تھا۔ تاہم، یہ سوال اب بھی حل طلب تھا کہ کراچی جایا کیسے جائے ؟ یقیناً جب اللہ تعالی کی ذات مہربان ہو تو وہ ہر مشکل دور کرنے کے خود بخود اسباب بھی پیدا کر دیتا ہے۔ ہمارے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ جب کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ ہمارے گاؤں میں اسکول کے چند ہی دوست تھے جن میں محمد بشیر بھی تھے جو دو سال سینیئر تھے۔ وہ 1958ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد کراچی اپنے رشتہ داروں کے پاس جاچکے تھے، جو قیام پاکستان سے بھی پہلے سے کراچی کے ایک جزیرے کیماڑی سے متصل بھٹہ ویلیج میں رہائش پزیر تھے۔ ہمارے دوست بشیر کراچی پورٹ ٹرسٹ میں ملازم ہو گئے تھے۔ وہ انہی دنوں اپنی شادی کے سلسلے میں چھٹیوں پر
گاؤں آئے ہوئے تھے، ہماری ان سے ملاقات ہوئی۔ جب دو جگری دوست برسوں بعد آپس میں ملیں تو کتنی خوشی ہوتی ہے۔ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ اس ملاقات میں محمدبشیرنے عروس البلاد کراچی کا ذکر کچھ اس طرح کیا کہ ہماری یہ باتیں رات بھر جاری رہیں۔ کراچی اور اس کی روشنیوں، اس کی بسوں، ٹرام، ڈبل ڈیکر بسوں، سمندر، بحری جہازوں، ہوائی اڈے، ہوائی جہازوں، مختلف زبانیں بولنے والے لوگوں اورکراچی کی بندرگاہ اور وہاں کے موالیوں کا ذکر ختم ہونے میں نہیں آتا تھا۔ وہ کہ رہے تھے کہ کراچی روشنیوں کا شہر ہے، جو رات بھر جگمگاتا ہے اور دن کو تجارتی سرگرمیوں کی گہما گہمی جاری رہتی ہے۔ بشیر بھائی کی باتوں نے ہمیں اس قدر مسحور کردیا کہ جلد سے جلد کراچی جانے کا شوق اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ آخر ایک دن موقع دیکھ کر ہم نے بشیر بھائی سے درخواست کی کہ ہم کراچی جاکر قسمت آزمانا چاہتے ہیں۔ لیکن ہمارا تو کراچی میں آپ کے سوا جان پہنچان والا کوئی نہیں۔ آپ ہمیں اپنے ساتھ لے جاہیں تو ہمارے خواب کو تعبیر مل سکتی ہے۔ آپ چاہیں تو اپنے ماموں شفیع اور نواب دین سے بھی مشورہ کر سکتے ہیں، لیکن ہمیں اپنے ساتھ ضرور لے جائیں۔ ہم نے اپنے دوست سے یہ وعدہ بھی کیا کہ اگر کراچی جانے کے بعد تین ماہ تک ہمیں کوئی نوکری نہ ملے تو ہم آپ لوگوں پر بوجھ بننے کے بجائے واپس آجائیں گے۔ ہمارے اس دوست نے جو ہمارا پہلا محسن ہے، دوسرے دن اپنے ماموں سے مشورے کے بعد ہمیں یہ خوشخبری سنائی کہ آپ ہمارے ساتھ کراچی چل سکتے ہیں۔ ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانا ہی نہ رہا۔ وفور جذبات سے ہماری آنکھیں بھیگ گئیں اور اپنے دوست سے لپٹ کر کہا کہ، میرے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہوگی کہ ہم دونوں دوست اب کراچی میں بھی ساتھ ہی رہیں گے۔ اس طرح اپنے اس دوست کی اس کمال مہربانی اور اعلیٰ ظرفی سے ہمیں مزید تعلیم حاصل کرنے کے خواب کی تعبیر پانے کا راستہ مل گیا۔ تاہم ابھی منزل بڑی کٹھن اور دور تھی۔ اللہ تعالیٰ آزمائشوں اورامتحانوں کے بعد ہی منزل ِ مراد سے ہمکنار کرتے ہیں۔
بشیر بھائی سے اجازت ملنے کے بعد ہم نے نا صرف کراچی جانے بلکہ اسی شہر کو آئندہ زندگی کی جدو جہد کا مرکز بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ والد صاحب سے اجازت بھی مل گئی۔ تاہم اب ایک اور سوال تھا کہ کراچی جانے کے لئے کتنی رقم درکار ہوگی اوروہ کہاں سے حاصل کی جائے گی؟ محمد بشیر سے دریافت تو
انہوں نے بتایاکہ کھوئی رٹہ سے جہلم تک بس کا کرایہ تین روپے، جہلم سے کراچی تک ریل کا کرایہ 18 روپے اور چار روپے راستے کے اخراجات کے لیے مزید درکار ہوں گے۔ اس طرح کل بچیس روپے کا انتظام کرنا ہوگا۔ والد صاحب سے یہ رقم مانگی تو ان کی آنکھوں سے رواں آنسوؤں نے بتادیا کہ ان کے پاس اتنی ’’بڑی’’رقم نہیں ہے۔ گھر میں کوئی ایسی قیمتی چیز بھی نہ تھی جسے فروخت کیا جا سکے۔ اس رقم کے بغیر کراچی جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ چنانچہ وہ کسی سے ادھار لے کر آئے، رقم ہمارے حوالے کی اور دعاؤں کے ساتھ ہمیں کراچی کے لئے روانہ کردیا۔


بہرحال، ہماری مختصر سی زندگی میں 1947ء کی ہجرت کے 13 سال بعد 1960ء میں کراچی کا سفر دوسری ہجرت تھی۔ اپنے دوست بشیر اور ان کے خاندان کے قافلے کے ساتھ اپنے گاؤں سے پہلے کوٹلی اور پھر میرپور کے راستے جہلم پہنچے جہاں ان کے رشتہ داروں کے یہاں دو دن کی مہمان نوازی کا لطف اٹھانے کے بعد ٹرین کے ذریعہ کراچی روانہ ہوئے۔ اس طرح چار دن کے مسلسل سفر کے بعد نومبر 1960ء میں ہمارا مختصر سا قافلہ کراچی پہنچا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے اس وقت پورے ملک کی طرح کراچی میں بھی خزاں کا موسم تھا۔ درختوں کے پتے جھڑ رہے تھے اور خشک ہوائیں چل رہی تھیں۔ تاہم وسیع وعریض سمندر کی طرف سے ٹھنڈی ہوائیں موسم کو خوشگوار بنائے ہوئے تھیں۔ کراچی میں ہمارا پہلا پڑاؤ کیماڑی کی، کے پی ٹی لائن میں تھا، جہاں ہمارے دوست ایک چھوٹے سے کوارٹر میں رہتے تھے۔ اس میں نو بیاہتا جوڑے کے علاوہ ان کے دونوں ماموں بھی رہتے تھے۔ پانچ افراد کیلئے تو یہ کوارٹر بلکل ناکافی تھا۔ تاہم اس دور میں لوگوں کے گھر چھوٹے اور دل بہت بڑے ہوتے تھے۔ اب صورت حال اس کے برعکس ہے۔ اب ہمارے گھر اور بنگلے بہت بڑے بڑے لیکن ہمارے دل بہت ہی چھوٹے ہو گئے ہیں۔ دس فٹ عریض اور بیس فٹ طویل دو چھوٹے چھوٹے کمروں کے اس فلیٹ نما کوارٹر کے دروازے کے پاس ہماری چار پائی بھی ڈال دی گئی۔ ہمارے پاس اپنا کوئی بھی سامان نہیں تھا۔ ہم تو صرف پہننے کے کپڑوں کے دو جوڑوں کے ساتھ کراچی آئے تھے۔اس لئے چارپائی سے زیادہ جگہ کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ بعد میں جب روز مرہ ضرورت کا کچھ سامان دستیاب ہوگیا تو ٹین کا ایک چھوٹا سا صندوق خرید لیا اور اسے چار پائی کے نیچے رکھ لیا۔
بشیر بھائی کے ساتھ اس کوارٹر میں ہمارا قیام کوئی تین ماہ رہا۔ ہمارے پاس ایک پیسہ نہیں تھا، سارے اخراجات بشیر بھائی اور ان کے ماموں برداشت کر رہے تھے۔ لیکن ہم نے کبھی ان میں سے کسی کے ماتھے پر شکن تک محسوس نہیں کی۔ اب ہم سوچتے ہیں کہ یہ کتنے عظیم لوگ تھے۔ ان کا یہ سلوک ہمارے ساتھ تھا جو ان کے رشتہ دار تک نا تھے۔ صرف ان کے دوست تھے۔ یہ لوگ دوسروں کے خیر خواہ اور ہر وقت مدد کرنے کو تیار رہتے تھے۔ انہوں نے ہمیں کبھی یہ احساس تک نا ہونے دیا کہ ہم ان پر کوئی بوجھ ہیں۔ یہ اس دوست کی اعلیٰ ظرفی کا ایک نمونہ تھا، جو آج کل ناپید ہے۔ ہمارے اس دوست نے دوستی نبھانے کی ایک ایسی مثال قائم کی جس کو ہم نے ہمیشہ یاد رکھا اور آئندہ بھی یاد رکھیں گے۔ اس خاندان کے ساتھ دوستی اور خیر خواہی کا ہمارا رشتہ آج بھی قائم ہے۔ ان کے رشتہ دار اور ہجرت کر کے کراچی آنے والے کشمیری بڑی تعداد میں کیماڑی کے ساتھ ہی ایک غریب بستی بھٹہ ویلیج میں رہتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد ہمارے دوست اور ان کے ماموں نے بھی وہیں مکانات خرید لئے اور وہ سب وہیں منتقل ہو گئے۔
کراچی آکر ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ہم ایک بلکل دوسری دنیا میں آگئے ہوں، جس کی ہر چیز ہمارے گاؤں اور شہر سے سراسر مختلف تھی۔ اب ہمیں ایسے ایسے علاقے، لوگ، سمندر، بندرگاہ، بڑی بڑی سڑکیں، بازار اور دوسری چیزیں دیکھنے کو مل رہی تھیں، جن کے بارے میں نے پہلے کبھی سنا اور سوچا اور نہ کبھی دیکھا تھا۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی شہر اتنا بڑا بھی ہوسکتا ہے۔ کچھ دن تو یونہی حیرانی میں گزر گئے۔ ہم تو اپنی وادی بناہ کے دریا ’’بان‘‘ کو ہی بڑا سمجھتے تھے، مگر جب راستے میں دریائے جہلم دیکھا تو اندازہ ہوا کہ نہیں ہمارا ’’بان دریا‘‘ تو اس کے مقابلے میں بہت چھوٹاہے۔ تاہم کراچی آکر جس چیز نے سب سے زیادہ حیرت میں ڈالا، وہ سمندر تھا۔ سمندر دیکھنے کی تمنا ہمیں کراچی آنے کے اگلے ہی دن کیماڑی کی بندرگاہ پر لے گئی، سمندر کی حد ِنگاہ تک پھیلی وسعت نے ہمیں حیرت میں ڈال دیا۔ سمندر میں کئی کئی منزلہ بڑے بڑے بحری جہاز بڑی تعداد میں کھڑے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ بحری جہاز نہیں بلکہ کئی کئی منزلہ بلندو بالا عمارتیں ہیں۔ یہاں ایک چھوٹا سا شہر آبادہے جس کے رہنے والوں کو ضرورت کی ہر چیز میسر ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭