مولانا مودودی کی تعلیمات نے زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے


سجاد عباسی
دسواں حصہ
کے پی ٹی میں مستقل ملازمت مل جانے اور کالج میں داخلے سے زندگی پُرسکون ہو گئی تھی اور بے یقینی کی حالت کا وقتی طور پر خاتمہ ہو گیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے حلقۂ احباب میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ مختلف علاقوں اور پس منظر رکھنے والے لوگوں سے کیماڑی اور کے پی ٹی میں رابطے بڑھنے لگے۔ مسجد میں نمازیوں سے بھی واقفیت ہوتی گئی اور ایک دوسرے سے ملنے ملانے سے دوستوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ کراچی آنے کے بعد شروع میں ہمارا قیام کیماڑی ہی میں رہا۔ جہاں ہمیں روزگار اور تعلیم، دونوں کے بہتر مواقع ملے۔ وہیں جماعت اسلامی سے جڑنے اور اس سے وابستہ مخلص لوگوں سے رابطے کا بھی موقع ملا۔ جس نے کچھ عرصے بعد ہماری زندگی پر گہرے مثبت اثرات مرتب کئے۔ جماعت سے رابطہ کیسے ہوا، یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔
اس کہانی کا آغاز کیماڑی کی مشہور ’’حاجی غائب شاہ مسجد‘‘ سے ہوتا ہے۔ ہم زیادہ تر اسی مسجد میں نماز پڑھنے جایا کرتے تھے اور ہماری اس کے مستقل نمازیوں سے جان پہچان ہو گئی تھی۔ ایک دن ایک نمازی شبیر احمد نے ہم سے مسجد ہی میں ملاقات کی اور اپنا تعارف جماعت اسلامی کے کارکن کی حثیت سے کرایا۔ وہ جیکسن بازار میں ایک دکان دار تھے۔ انہوں نے ہمیں جماعت کے ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کی دعوت دی۔ جو مسجد کے پاس ڈاکٹر عثمانی کی رہائشگاہ کے ایک کمرے میں ہوتا ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر عثمانی کا تعارف بھی کرایا کہ وہ جماعت اسلامی کے ایک رہنما اور مرکزی شوری کے بھی رکن تھے۔ لیکن 1957ء میں جماعت اسلامی سے طریق کار کے اختلافات کی بنیاد پر جب مولانا امین احسن اصلاحی اور ان کے ساتھیوں نے جماعت سے استعفی دے دیا تھا تو وہ بھی ان میں شامل تھے۔ تاہم ان کی اہلیہ اب بھی جماعت کی رکن ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے گھر کا ایک کمرہ جماعت کو دفتر کے لیے دے رکھا تھا جو اب بھی قائم ہے۔ اس میں ایک لائبریری بھی ہے اور اسی میں ہفتہ وار اجتماع بھی ہوتا ہے۔ آپ اچھے آدمی لگتے ہیں۔ آپ بھی ضرور اس میں شرکت کیا کریں۔ ہم نے اس وجہ سے یہ دعوت قبول کرلی کہ ہم نے پہلے ہی جماعت اور اس کے بانی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کا نام آزاد کشمیر میں اسکول کے زمانہ میں سن رکھا تھا اور مولانا محترم اور جماعت اسلامی کے لئے احترام کے جذبات رکھتے تھے۔ جو بعد میں ہماری زندگی کے لئے ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔

یہ غالباً بدھ کا دن تھا، جب ہم نے جماعت اسلامی کے کسی بھی اجتماع میں پہلی بار شرکت کی۔ اس میں پہلے ناظم کیماڑی ایاز خان نے درس قرآن دیا۔ انہوں قرآن اور حدیث کی روشنی میں جماعت کی دعوت اور مولانا کے پیغام پر روشنی ڈالی۔ پھر جماعت کی ہفتہ بھر کی رپورٹ پیش کی گئی۔ اس پر شرکا نے اپنی اپنی رائے دی۔ آخر میں ناظم نے خود کو احتساب کیلئے پیش کیا۔ کارکنوں نے بڑی بے رحمی سے ان پر تنقید کی اور کڑا احتساب کیا۔ انہوں نے اس کا جواب بھی دیا۔ جس سے سب مطمئن ہو گئے اور اجتماع ختم ہوگیا۔
ان کارکنوں میں ایک دوسرے کیلئے محبت اور بھائی چارے کے جذبات دیکھ کر حیرت ہوئی اور دل کو یہ اطمینان بھی ہوا کہ اچھے لوگوں سے رابطہ ہوا ہے۔ شبیر بھائی کیلئے دل سے دعائیں نکلیں کہ ان کی دعوت کی وجہ سے ان لوگوں سے ملنے کا موقع ملا تھا۔ جو بڑے مخلص اور ایک دوسرے کیلئے نیک جذبات رکھتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہمارے لئے نیا تھا۔ اپنے اندر مثبت تبدیلی سی محسوس ہوئی اور اب ہمارا جماعت اسلامی کے اجتماعات میں باقاعدگی سے آنا جانا شروع ہو گیا۔ ایک دن ہم نے جماعت کے ’’متفق‘‘ کا فارم بھی بھر دیا اور اب ہم جماعت میں شامل ہوگئے تھے اور بدھ کے اجتماع میں باقاعدگی سے شریک ہونے لگے۔ کچھ عرصے کے بعد ہمیں باقاعدہ کارکن بنا لیا گیا۔ ہمارے ساتھ ایک اور ساتھی شفیع محمد بھی تھے۔ وہ بھی جماعت کے کارکن بنا لیے گئے۔ وہ اردو کالج میں ہمارے ساتھ پڑھتے تھے اور بھٹہ ولیج میں رہتے تھے۔ وہ بعد میں پروفیسر بنے اور اسی عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ہم نے محمد بشیر بھائی کو بھی جماعت اسلامی کے اجتماعات میں آنے کی دعوت دینا شروع کی۔ وہ بھی جماعت کے کارکن بن گئے۔
یہ ایوب خان کے مارشل لا کا شروع کا دور تھا اور اس نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے کیلئے سی آئی ڈی کا ملک کے کونے کونے میں جال بچھا رکھا تھا۔ کنونشن لیگ بن چکی تھی اور اس کے علاوہ ساری جماعتوں کو وہ اپنا مخالف سمجھتے تھے اور ان کے قائدین اور کارکنوں کی ایک ایک حرکت پر خفیہ اداروں کی نظر تھی۔ اس کا ایک سرسری اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کیماڑی میں جماعت اسلامی کے بیس تیس کارکنوں میں سے ہر ایک کو خفیہ اداروں کے اہلکار ذاتی طور پر جانتے اور پہچانتے تھے اور بظاہر دوستی کا ڈھونگ بھی رچائے ہوئے تھے۔ لیکن ان کا مقصد ایک ایک پر ہر وقت نظر رکھنا تھا۔ جماعت کے ہفتہ وار اجتماع میں بھی وہ شریک ہوجاتے تھے اور ہم لوگ ان کی شرکت پر اس لئے کوئی اعتراض نہیں کرتے تھے کہ ہمارا کوئی کام بھی خفیہ یا ملکی آئین و قوانین کے خلاف نہیں ہوتا تھا۔
پاکستان میں تحریک اسلامی سے متاثرہ افراد طالب علمی کے دور میں پہلے عام طور پر اسلامی جمیعت طلبہ میں شامل ہوتے ہیں اور جب تعلیم سے فارغ ہوتے ہیں تو جماعت میں آتے ہیں۔ لیکن ہمارے ساتھ معاملہ اس کے بلکل برعکس ہوا، کہ ہم پہلے جماعت میں شامل ہوئے اور اس کے بعد جمیعت میں کام شروع کیا۔ یہ کیسے ہوا۔ اس کا ایک دلچسپ پس منظر ہے۔ جس کو بیان کرنے سے پہلے ہم اس امر کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی سے اسکول کے زمانے میں کیسے واقف ہوئے؟
جہاں تک ہمیں یاد ہے، ہماری نویں اور دسویں کلاس کے نصاب میں مولانا مودودی کی مشہور کتاب ’’رسالہ دینیات‘‘ بھی شامل تھی۔ جو سبقاً سبقاً پڑھائی جاتی تھی۔ ہمیں بھی ایسے ہی یہ کتاب پڑھائی گئی تھی۔ اس میں اسلام کے بنیادی عقائد و ارکان اور اس کے ارتقا کا بیان جس طرح دلائل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس کی مثال دوسری کتابوں میں کم ہی ملے گی۔ یہ کتاب خاص طور پر نوجوان نسل کیلئے لکھی گئی تھی اور یہی وجہ ہے کہ اس کی پذیرائی بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ میں ہوئی ہے۔ رسالہ دینیات کی وجہ سے ہم مولانا مودودیؒ کی شخصیت اور ان کی علمیت سے واقف ہوئے اور ہماری زندگی میں بڑی تبدیلی واقع ہوئی۔ مولانا نے یہ کتاب نظام حیدرآباد دکن کی فرمائش پر ریاست کے اسکولوں کے نصاب میں شامل کرنے کیلئے لکھی تھی۔ اس کتاب کا شمار مولانا کی ان چند کتابوں میں ہوتا ہے۔ جو لاکھوں کی تعداد میں دنیا کی بیسیوں زبانوں میں ترجمہ ہو کر شائع ہوئی ہیں۔ ہم نے کافی عرصے بعد یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ یہ کتاب آزاد کشمیر کے نویں اور دسویں جماعت کے نصاب میں کب اور کس کی کوششوں سے شامل کی گئی۔ تو پتہ چلا کہ جب تقسیم ہند کے بعد کشمیری عوام کی مسلح جدوجہد کے نتیجے میں جموں و کشمیر کا 32 ہزار مربع میل کا علاقہ آزاد ہوا تو آزاد کشمیر میں سردار ابراہیم کی قیادت میں حکومت قائم ہوئی۔ اس کی کابینہ کے ساتھ ساتھ اس کا سیکریٹریٹ بھی قائم کیا گیا۔ اس میں اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کو شامل کیا گیا۔ ان میں ایک سید مظفر حسین ندوی بھی تھے۔ جن کو محکمہ تعلیم کا سیکریٹری مقرر کیا گیا۔ انہیں تعلیمی اداروں کیلئے ماہرین تعلیم کی باہمی مشاورت سے نصاب کی تیاری کی ذمہ داری سونپی گئی۔ انہوں نے اس اہم مشن کو اس بحرانی دور میں بخوبی انجام دیا۔ وہ مولانا مودودیؒ کی علمی شخصیت سے واقف اور ان کے لٹریچر سے متاثر تھے۔ ان کی تجویز اور کوششوں سے رسالہ دینیات کو نصاب میں شامل کیا گیا۔ یہ کتاب 1960ء تک ہمارے نصاب میں شامل تھی۔ اگر یہ نصاب میں 1948ء میں شامل کی گئی تھی تو ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آزاد کشمیر کے اسکولوں سے میٹرک کرنے والے ہزاروں نہیں لاکھوں طالب علموں نے اس کو پڑھا ہوگا اور وہ مولاناؒ کی شخصیت اور علمیت سے اورجماعت اسلامی سے واقف ہوئے ہوں گے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اپنے مقصد سے مخلص شخص کو جب بھی موقع ملتا ہے تو وہ موقع ملنے پر کوئی بڑا اور دیر پا کام کر جاتا ہے۔ جس کے اثرات بعد میں ایک عرصے تک محسوس کیے جا تے ہیں۔ ندوی صاحب کے اس کارنامے سے لاکھوں لوگوں کو فائدہ پہنچا۔ تاہم ہمیں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کس بدبخت نے اس اہم اور بنیادی کتاب کو کب کیوں آزاد کشمیر کے تعلیمی نصاب سے خارج کرایا؟
ایوب خان جیسا جنرل اور مار شل لا ایڈمنسٹریٹر اور اس کی حکومت، جماعت اسلامی سے کیوں خائف تھی؟ اس کی وجہ اس کے اور اس کے بانی کی اسلام کے ساتھ گہری وابستگی، اس کیلئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کا جذبہ اور مولاناؒ کی ایک آواز پر ملک بھر میں اسلامی نظام کے قیام کے بڑے مقصد کیلئے تن من کی بازی لگانے کا جذبہ اور اس سے بھی بڑی بات اس کی بے مثال تنظیم تھی۔ پاکستان میں اس وقت جماعت سے زیادہ منظم کوئی دوسری سیاسی جماعت نہیں تھی۔ حکومت اس کے منظم ہونے، کارکنوں اور متاثرین کی وفاداری اور جانثاری کی جھلک 1963ء میں دیکھ چکی تھی۔ جب گورنر پنجاب نواب امیر محمد خان آف کالا باغ کے اشارے پر لاہور میں عین اس وقت مسلح غنڈوں نے دن دیہاڑے ہزاروں کارکنوں کے سالانہ اجتماع عام پر حملہ کیا تھا۔ جب سید مودودیؒ اس کے سالانہ افتتاحی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر حکومت پہلے ہی پابندی لگا چکی تھی۔ کرائے کے ان خونی غنڈوں نے حملے سے پہلے اجتماع گاہ کی قناتیں کاٹ کر گرادی تھیں اور ایک بے گناہ کارکن اللہ بخش کو شہید کر دیا تھا۔ اس کھلم کھلا غنڈا گردی اور ہلڑبازی کے باوجود مولانا کی تقریر میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا تھا اور اجتماع عام بھی مقررہ پروگرام کے مطابق تین دن تک جاری رہا۔ لاؤڈ اسپیکر کی عدم موجودگی کے باوجود مولانا اور دوسرے مقررین کی تقاریر مکبرین کے ذریعے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچانے کا بہترین انتظام کیا گیا تھا۔ حکومت کے اوچھے ہتھکنڈوں اور کرائے کے غنڈوں کی دن دیہاڑے غنڈا گردی کے باوجود اجتماع کی کامیابی نے پورے ملک میں اس کے لئے ہمدردی پیدا کر دی تھی۔ ہمدردی کی اس نئی لہر نے حکومتی ایوانوں میں کہرام برپا کر دیا تھا۔
یہی وہ وجہ تھی، جس نے حکومت کو جماعت اسلامی کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر مخالفانہ مہم چلانے پر مجبور کردیا تھا۔ اس دور کے مرکزی وزیر داخلہ خان حبیب اللہ خان اور مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) سے تعلق رکھنے والے ایک مرکزی وزیر عبدالوحید خان کی غالباً یہ وزارتی ذمہ داری تھی کہ وہ روزانہ جماعت اسلامی کی پالیسیوں یا اس کی قیادت کے خلاف نفرت بھرے بیانات جاری کریں۔ تا کہ عوام میں اس کے خلاف غم و غصہ پیدا ہو۔ خان حبیب اللہ خان کے تمام بیانات اپنے اندر عناد اور تلخی لئے ہوتے تھے۔ ملک کے تعلیمی اداروں میں کوئی بھی واقعہ رونما ہوتا تو اس کا الزام اسلامی جمیعت طلبہ یا جماعت پر لگادیا جاتا۔ جماعت اسلامی کی قیادت اس مہم کا جواب حسب ضرورت ہی دیتی تھی اور زیادہ تر کا جواب ’’قالو سلاما‘‘ ہی ہوتا تھا۔ عوام اس مخالفانہ مہم کی اصل حقیقت اور جماعت کے خلاف پروپیگنڈے سے بخوبی آگاہ تھے۔ اس لئے جماعت کو اس سے کسی قسم کے نقصان کا کوئی اندیشہ نہیں تھا۔
ہمارا روزمرہ کا معمول تھا کہ فجر کی نماز کے بعد تھوڑی سیر کرتے۔ ہوٹل سے ناشتہ کرتے اور اس کے بعد اخبارات کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے۔ اخبارات خریدنے کی استطاعت تو نہیں تھی۔ اس لیے ہم جامع مسجد کیماڑی چلے جاتے۔ جہاں ایک مخصوص جگہ پر چار چھ کرسیوں کے ساتھ ایک میز پر تقریباً سارے اخبارات رکھے ہوتے تھے۔ لوگ آتے رہتے اور اخبار پڑھتے۔ ان اخبارات میں روزنامہ جنگ، حریت اور ایک شام کا انگریزی اخبار شامل تھے۔ ہم خبروں کے ساتھ ساتھ مضامین، کالم اور مراسلات بھی پڑھتے اور خود بھی کبھی مراسلات لکھتے جو وقفے وقفے سے شائع بھی ہو جاتے۔ اب سوچتا ہوں یہ ایک طرح سے مستقبل میں صحافی بننے کی تربیت تھی۔ حالانکہ اس وقت تک ہمارے وہم و گمان میں بھی اس قسم کا کوئی خیال نہیں تھا کہ آئندہ ہم صحافت کا پیشہ اختیار کریں گے۔ بہرحال لکھنے کی صلاحیت موجود تھی۔ جو کچھ نہ کچھ لکھنے پر مجبور کرتی رہتی تھی۔
ایک دن ہم معمول کے مطابق جامع مسجد کیماڑی کی لائبریری میں اخبار پڑھ رہے تھے کہ ہماری نظر خان حبیب اللہ خان کے ایک بیان پر پڑی۔ جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی میں طلبا کے دو گروہوں میں جو تصادم ہوا ہے اس کی ذمہ دار جماعت اسلامی ہے۔ جس کے کارکن اس میں ملوث ہیں اور ریلوے میں مزدوروں کے دو گروہوں میں جو جھگڑا ہوا ہے، اس میں بھی جماعت ہی کے کارکن ملوث ہیں۔ دوسرے دن جماعت اسلامی پاکستان کے سیکریٹری جنرل میاں طفیل محمد کا جوابی بیان آیا کہ وزیر داخلہ کا یہ بیان سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ اس کی دلیل انہوں نے یہ دی کہ جماعت کی یہ پالیسی ہے کہ کوئی طالب علم، جماعت اسلامی کا کارکن نہیں بن سکتا۔ اس لئے پنجاب یونیورسٹی کے واقعہ میں جماعت کے کارکنوں کے ملوث ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ اسی طرح جماعت کی پالیسی یہ بھی ہے کہ کوئی سرکاری ملازم جماعت اسلامی کا کارکن نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ریلوے کے جھگڑے میں بھی جماعت کے ملوث ہونے کی بات غلط ہے۔ ان کے اس بیان نے ہمیں سخت بے چین کردیا۔ کیونکہ کیماڑی کی حد تک تو ان کا یہ بیان حقائق کے خلاف تھا۔ اس لئے کہ ہم اور ہمارے دو دوست بشیر اور شفیع محمد تو طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے باقاعدہ کارکن بھی تھے۔ جس کی اطلاع کیماڑی میں سی آئی ڈی کے سارے کارندوں کو تھی۔ جبکہ ہمارے حلقہ کے ناظم محترم واسطی صاحب ریلوے میں بڑے افسر تھے جو ایک سرکاری محکمہ ہے اور اس کے ساتھ ہی جماعت اسلامی کے فعال رکن اور ہمارے ناظم حلقہ آرام باغ بھی تھے۔ چنانچہ ہم فوراً واسطی صاحب سے ملنے ان کے دفتر گئے۔ جو کیماڑی میں بندرگاہ کے اندر برتھ نمبر 10 پر تھا اور ان کو حالات کی سنگینی سے آگاہ کیا کہ کس طرح سی آئی ڈی ہمارے پیچھے پڑی ہے۔ اور چونکہ ہم میں سے ایک ایک کو سی آئی ڈی والے جانتے ہیں اور ہمارے بارے میں پل پل کی خبر رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ فوراً میاں طفیل کے بیان کی تردید میں حکام بالا کو رپورٹ کر دیں گے اور یوں میاں طفیل محمد کا دعویٰ غلط ثابت کرنا آسان ہوجائے گا۔ اس لئے اس کا کوئی نہ کوئی حل نکالا جائے۔ ورنہ اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر حکومت کے علم میں یہ بات آگئی تو جماعت اسلامی کی بدنامی ہوگی۔ واسطی صاحب نے ہماری بات سے اتفاق کیا اور ہمیں اسی شام آرام باغ میں جماعت کے دفتر آنے کی دعوت دی کہ یہ معاملہ امیر جماعت اسلامی کراچی چوہدری غلام محمد کے سامنے رکھا جائے گا اور وہی اسے حل کریں گے ۔۔ (جاری ہے )