کراچی (رپورٹ : سید نبیل اختر)پاکستان میں دوا ساز کمپنیوں کی ایل سی نہ کھلنے سے دوا کی پیداوار بند ہونے کا خدشہ بڑھ ہوگیا ہے ، ڈالر نہ ہونے کی وجہ سے بینکوں نے ایل سی کھولنے سے معذرت کرلی ۔ چین ، بھارت ، امریکہ اور مغربی یورپ کے آرڈرز پھنس گئے ۔
دوا ساز کمپنیوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ را میٹریل نہ ملنے پر 40 روپے والی دوا 60 روپے میں بھی فراہم نہیں کرسکیں گے ، دوا کی ہول سیل مارکیٹوں میں قلت پیدا ہونا شروع ہوگئی ، بلیک مارکیٹنگ کے دروازے کھلنے لگے ، دوا کی قلت سے انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے ۔
اہم ذرائع نے بتایا کہ حکومت کی ہدایات کے باوجود بینکوں نے دوا ساز کمپنیوں کی ایل سی کھولنے سے معذرت کرلی ہے جس سے ادویات کے خام مال کی ترسیل بند ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے ، امت کو کراچی کی ایک معروف دوا ساز کمپنی کے مالک نے بتایا کہ آئندہ دنوں میں دواؤں کی قلت خطرناک حد تک بڑھ ہوجائے گی تاہم حکومت کو اس سلسلے میں واضح پیغامات بھیجے گئے ہیں
انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں 90 فیصد خام مال بیرون ملک سے آتا ہے جس کی ہمیں ایل سی کھولنا پڑتی ہے ، بینکوں نے ڈالر کی کمی کا کہہ کر کریڈٹ دینے سے انکار کردیا ہے اور ہمارے آرڈرز بھاری ، چین ، امریکہ اور مغربی یورپ میں پھنس چکے ہیں ، انہوں نے کہا کہ میری فیکٹری میں کم از کم قیمت کی دوا 40 روپے میں صارف کیلئے دی جارہی تھی تاہم میں وہ دوا 60 روپے میں بھی فراہم کرنے سے قاصر ہوجاؤں گا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے حکام کو تشویشناک صورت حال سے آگاہ کردیا ہے ،اس ضمن میں وفاقی وزارت صحت اور محکمہ خزانہ بھی رابطے میں ہے جہاں سے مرکزی بینک اور پھربینکوں کو ایل سیز کھولنے کے احکامات دیئے گئے ہیں لیکن بینک حکام نے ڈالرز نہ ہونے کی وجہ سے ایل سیز کھولنے سے معذرت کرلی ہے
انہوں نے کہا کہ بینکوں کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ 30 دسمبر کے بعد ڈالر کی صورت حال کچھ بہتر ہونے کی صورت میں ایل سیز کھلنے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے تاہم اتنے دنوں تک دواؤں کی پیداوار بند ہونے سے بحران پیدا ہوگا جس کی تلافی نہیں کی جاسکے گی
امت کو پاکستان کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن کے سندھ ریجن کے چیئرمین غلام ہاشم نورانی نے بتایا کہ ملک میں ڈالر نہیں جس کی وجہ سے دواؤں کی قلت پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے ، انہوں نے کہا کہ دوا ساز کمپنیوں کی جانب سے مارکیٹ میں دوا کے اسٹاک بھیجنے میں کمی واقع ہوگی تو بلیک مارکیٹنگ کو فروغ ملے گا، انہوں نے کہا کہ ان دنوں مارکیٹ میں ادویات موجود ہیں لیکن نئے اسٹاک آنا بند ہوجائیں گے،انہوں نے بتایا کہ90 فیصد خام مال بیرون ملک سے آتا ہے اور جو دس فیصد خام مال پاکستان میں تیار ہوتا ہے اس کے اجزا بھی بیرون ملک سے ہی آتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک ہزار دوا ساز ادارے ہیں جو ان دنوں ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ سے بنکوں کے دھکے کھارہے ہیں ، دوسری جانب مارکیٹ میں شوگر کے مرض میں استعمال ہونے والی انسولین کی قلت بھی پیدا ہوگئی ہے
امت کو کراچی کے ایک ماہر امراض نے بتایا کہ پاکستان میں شوگر کی مریضوں کی مجموعی تعداد 3کروڑ 30 لاکھ سے زائد ہے۔ ان میں 19 ہزار 851 افراد ٹائپ ون شوگر جبکہ 32.9 ملین افراد ٹائپ ٹو شوگرکا شکار ہیں۔شوگر ٹائپ ون میں مبتلا تمام مریض اپنی شوگر کو کنٹرول کرنے ڈاکٹر کے تجویز کردہ نسخے کے مطابق استعمال کررہے ہیں کیونکہ انسولین کے بغیر ان کی شوگر کنٹرول کرنا ممکن نہیں،انہوں نے بتایا کہ ٹائپ ٹو شوگر کے مرض میں مبتلا 1.2 ملین مریض بھی انسولین لیتے ہیں۔انسولین لینے والے مریضوں کے لیے انسولین کا کوئی متبادل دوا موجود نہیں۔
امت کو ہول سیل کیمسٹ کونسل آف پاکستان کے صدر عاطف بلو نے بتایا کہ اس وقت مارکیٹ میں ہومیلن 70/30 انسولین کی قلت بدستور برقرار ہے، ادویات مارکیٹ میں انسولین سمیت جان بجانے والی دیگر ادویات کی بھی قلت برقرار ہے جبکہ بیرون ممالک سے درآمد کی جانے والی ادویات کا بحران نظر آرہا ہے۔ادویات فروخت کرنے والے میڈیکل اسٹور مالکان کا کہنا تھا کہ دیکھا جارہا ہے کہ جو مریض تین ٹائم کی ادویات استعمال کرتے ہیں، اب مہنگائی کی وجہ سے دو اور ایک ٹائم کی دوا خریدنے پر مجبور ہیں۔