عمران خان کی بزدلی جیل بھرو تحریک کی ناکامی کا سبب بنی

امت رپورٹ :

تحریک انصاف کے اپنے کارکنوں اور مقامی عہدیداران کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ عمران خان کا گرفتاری دینے سے گریز، جیل بھرو تحریک کی ناکامی کا سبب بنا۔ ان کے بقول اگر تحریک کے آغاز میں ہی چیئرمین پہلی گرفتاری اپنی پیش کردیتے تو اس وقت صورتحال مختلف ہوتی اورکارکنوں کا حوصلہ بھی بلند ہوتا تاہم اب کارکنان اور سپورٹرز یہ دیکھ رہے ہیں کہ جب پارٹی کا چیئرمین اور دیگراہم پارٹی لیڈر خود تو جیل جانے سے گھبرا رہے ہیں تو وہ کیوں اس مہنگائی کے دور میں اپنا کام کاج چھوڑ کر جیل جائیں؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں اور عہدیداران کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو سمجھتی ہے کہ پنجاب میں الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے بعد جیل بھرو تحریک کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ازخود نوٹس لئے جانے کے بعد تحریک انصاف کے پاس فیس سیونگ کا سنہری موقع تھا۔ اور یہ کہہ کر تحریک ملتوی کی جاسکتی تھی کہ جس مقصد کے لئے جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا گیا تھا۔

اس کا نوٹس خود سپریم کورٹ نے لے لیا ہے لیکن عمران خان کو غلط مشورہ دینے والوں نے ایک بار پھر اپنا کام دکھادیا اور جیل بھرو تحریک کا آپشن برقرار رکھا گیا، جس کے مایوس کن نتائج اب سب کے سامنے ہیں۔ دوسری جانب جیل بھرو تحریک کے سلسلے میں پی ٹی آئی کراچی بچت کے راستے تلاش کر رہی ہے۔ فیس سیونگ کے لیے مختلف تجاویز زیر غور ہیں۔

لاہور میں پی ٹی آئی کے ایک مقامی عہدیدار سے جب جیل بھرو تحریک کی ناکامی کا سبب پوچھا گیا تو اس کا دو ٹوک جواب تھا ’’کارکنوں کا عدم تعاون۔‘‘ مذکورہ عہدیدار کے بقول جیل بھرو تحریک کے سلسلے میں پنجاب میں کارکنوں کو متحرک کرنے کا ٹاسک عمران خان نے سینیٹر اعجاز چوہدری کو دیا تھا۔

پی ٹی آئی پنجاب کے سابق صدر اعجاز چوہدری نے جیل بھرو تحریک سے قبل ساہیوال، فیصل آباد اور ملتان سمیت صوبے کے چند دیگر شہروں کے دورے کئے تاکہ پارٹی سپورٹرز کو متحرک کیا جاسکے۔ لیکن ان کی یہ کاوش بری طرح ناکام رہی۔ پارٹی عہدیدار کا یہ بھی کہنا تھا کہ کارکنوں میں مزید مایوسی اس وقت پھیلی جب پورے صوبے کے کارکنوں کو جیل بھرو تحریک میں شرکت کرکے ’’خوف کا بت‘‘ توڑنے کا پیغام دینے والے اعجاز چوہدری نے خود گرفتاری نہیں دی۔

22 فروری کو جب مال روڈ لاہور سے جیل بھرو تحریک کا آغاز ہوا تو ملتان اور اسلام آباد سے آنے والے شاہ محمود قریشی، اعظم سواتی اور اسد عمر سمیت دیگر رہنما تو پولیس وین میں بیٹھ گئے۔ لیکن اعجاز چوہدری غائب تھے۔ بعد ازاں اعجاز چوہدری بظاہر گرفتاری دینے چیئرنگ کراس پر پہنچے اور ہاتھوں میں ہتھکڑی کے ساتھ فوٹو سیشن بھی کرایا۔ لیکن جیل نہیں گئے اور اب ٹوئٹر پر بیٹھ کر جیل بھرو تحریک کی کامیابی کی پوسٹیں اور حکومت کو طعنے مار رہے ہیں، جس کا کوئی فائدہ نہیں۔

لاہور سے ہی تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ایک سرگرم نظریاتی کارکن نے اپنے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی وسطی پنجاب کی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد کا صحت کی بنا پر گرفتاری نہ دینا سمجھ آتا ہے۔ لیکن شبلی فراز، میاں محمودالرشید اور شفقت محمود کہاں جا چھپے ہیں؟ اسی طرح جب ملتان سے آکر شاہ محمود قریشی گرفتاری دے سکتے ہیں تو نارووال سے آکر ابرارالحق بھی گرفتاری دے سکتے تھے۔ انہیں شاید گانے سے فرصت نہیں ملی۔

عمران خان کے لہجے کی نقل کرکے جلسوں میں انائونسمنٹ کے بدلے سینیٹر بننے والے فیصل جاوید خان امریکہ میں بیٹھے عمران خان سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی کے نامزد صدر پرویز الٰہی اور ان کے قریبی ساتھی بھی جیل بھرو تحریک سے لاتعلق ہیں۔ کارکن کے بقول راولپنڈی میں بھی شرمناک شو تھا۔ وہاں اگرچہ زلفی بخاری اور فیاض الحسن چوہان سمیت چند دیگر رہنمائوں نے گرفتاری دی۔ تاہم بیشتراہم لیڈرغائب تھے۔

شیخ رشید اگرچہ پی ٹی آئی سے نہیں، لیکن انہوں نے جیل بھرو تحریک میں اپنی گرفتاری دینے کا پیشگی اعلان کیا تھا۔ وہ گرفتاریاں دینے والے روز کمیٹی چوک راولپنڈی پہنچے تو ضرور، لیکن بڑھکیں لگانے کے بعد بھاگ نکلے۔ شہباز گل بھی غائب رہے۔ پشاور میں محمود خان اور پرویز خٹک جیسے پارٹی رہنمائوں نے گرفتاری دینا پسند نہیں کیا تو کارکنان کیوں قربانیاں دیں؟۔

انیس سو چھیانوے میں پی ٹی آئی کے قیام سے پارٹی کے ساتھ رہنے والے کراچی کے ایک مقامی عہدیدار نے بھی جیل بھرو تحریک کی ناکامی پر اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے مذکورہ عہدیدار نے پہلے تو دو ٹوک کہا کہ وہ گرفتاری دینے کے قطعی موڈ میں نہیں۔ اور ساتھ ہی یہ انکشاف کیا کہ اس نے پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی اور رکن سندھ اسمبلی خرم شیر زمان کو جیل بھرو تحریک میں عزت بچانے کا راستہ بتایا ہے۔

علی زیدی نے اس کے مشورے کی تائید کرتے ہوئے اس پر غور کا کہا ہے۔ استفسار پر مذکورہ پارٹی عہدیدار نے بتایا ’’میں نے علی زیدی اور خرم شیر زمان دونوں سے کہا ہے کہ کارکنوں کا ایک جلوس لے کر علی زیدی سینٹرل جیل کے سامنے بیٹھ جائیں اور دوسرا جلوس عمران اسماعیل کی قیادت میں لانڈھی جیل پہنچے اور وہاں گرفتاریاں دینے کا اعلان کرے۔ یقینی طور پر دونوں جیلوں کے دروازے بند کردیے جائیں گے۔

میڈیا اس موقع پر موجود ہوگا، لہٰذا فوٹو سیشن کراکے واپسی کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اس طرح عزت بچ جائے گی ورنہ وہی ہوگا جو لاہور اور دیگر شہروں میں رہنمائوں اور کارکنوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ یا پھر دونوں رہنما ایک ہی جلوس لے کر سینٹرل جیل کراچی کے سامنے دھرنا دے دیں۔ میری اس تجویز پر علی زیدی نے غور کرنے کا کہا ہے۔ دیکھنا ہے کہ اس پر عمل ہوتا ہے یا نہیں۔‘‘

واضح رہے کہ اب تک تحریک انصاف نے لاہور، پشاور، راولپنڈی، ملتان، گجرانوالہ، سرگودھا، ساہیوال اور فیصل آباد میں جیل بھرو تحریک کے شیڈول کا اعلان کیا ہے۔ تاہم کراچی میں جیل بھرو تحریک کی تاریخ عنقریب متوقع ہے۔ ایک سوال پر پی ٹی آئی عہدیدار نے اس سے اتفاق کیا کہ اگر خانصاحب (عمران خان) پہلی گرفتاری اپنی دے دیتے تو جیل بھرو تحریک کی کامیابی کے امکانات روشن ہوجاتے۔ المیہ یہ ہے کہ جن رہنمائوں نے گرفتاریاں دی ہیں ان کے عزیز بھی دوسرے روز ہی ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع کر رہے ہیں۔ اس سے کارکنوں میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ اس سوال پر کہ تحریک کی ناکامی کی دیگر وجوہات کیا ہیں؟

پارٹی عہدیدار کا کہنا تھا ’’تحریک کی ناکامی کی بنیادی وجہ کارکنوں کا عدم تعاون ہے۔ خاص طور پر قربانیاں دینے والے نظریاتی کارکنان یہ محسوس کر رہے ہیں کہ جس طرح انہیں پہلے استعمال کیا گیا تھا، اس بار بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ اسی وجہ سے وہ جیل بھرو تحریک سے لاتعلق ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کامیاب شو کرنے میں ناکام ہورہی ہے۔ حالانکہ یہی کارکنان ماضی میں بے مثال قربانیاں دیتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں میری اپنی مثال موجود ہے۔

نواز شریف کے دوسرے دور اقتدار میں جب نوابزادہ نصر اللہ (مرحوم) کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد تشکیل پایا تھا، تو اس وقت رانا مقبول جیسا سخت گیر آئی جی سندھ میں تعینات تھا۔ تب پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور کارکنوں نے بھی کراچی میں زور و شور سے گرفتاریاں دی تھیں۔ میں سینٹرل جیل میں عمران اسماعیل اور نجیب ہارون کے ساتھ قید کیا گیا تھا۔ ہم کل 13افراد تھے، جنہیں چار افراد کی گنجائش والی کھولی میں بندوارڈ کیا گیا تھا۔‘‘ پارٹی عہدیدار کا یہ بھی کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لئے جانے کے بعد جیل بھرو تحریک کی ضرورت نہیں تھی۔