نواز طاہر :
لاہور، پشاور اور راولپنڈی کے بعد گوجرانوالہ میں بھی جیل بھرو تحریک پی ٹی آئی قیادت کی امیدوں پر پوری نہ اتر سکی۔ جیلوں میں بند بعض کارکنوں نے اہلِخانہ کی عدم توجہی اور بے بسی کے بعد اپنی رہائی کیلیے دوست احباب اور رشتہ داروں کی مدد مانگنا شروع کر دی ہے۔ جبکہ وفاقی وزیر داخلہ نے ’’سرکاری مہمانوں‘‘ کو ایک ماہ تک مختلف جیلوں کی سیر کرانے کے پروگرام کا اعلان کردیا ہے۔ جس سے پی ٹی آئی کے عام کارکنوں میں خوف پھیلنا شروع ہوگیا ہے۔
اتوار کو جس وقت پاکستان تحریکِ انصاف کے صوبائی صدر داکٹر یاسمین راشد کی قیادت میں گرفتاریاں دینے کیلئے جمع ہورہے تھے ، اسی وقت وفاقی وزیر داخلہ راناثنا اللہ خاں فیصل آباد مین پریس کانفرنس میں پہلے سے گرفتار کارکنوں کے بارے میں میڈیا پر اطلاعات شیئر کررہے تھے اور بتارہے تھے کہ یہ کارکن اپنا شوق پورا کرچکے ہیں اورمرکزی رہنمائوں سمیت زیادہ تر رہائی کیلئے دہائیاں دے رہے ہیں۔ جبکہ انہیں ایک ایک ایک ماہ کیلیے نظر بند کیا گیا ہے اور صوبے کی باقی جیلوں کی بھی سیر کرائی جائے گی۔
انہوں نے واضح کیا کہ جب تک دور دراز اضلاع کی جلیں نہیں بھرتیں۔ تب تک مقامی جیلوں میں مزید رش نہیں لگایا جائے گا۔ اس وقت تک ڈیرہ غازی خان، راجن پور، مظفر گڑھ کی جیلوں میں قیدی رکھنے کی گنجائش ہے۔ جبکہ باقی اوور کرائوڈڈ ہیں۔ اس پریس کانفرنس کے بعد کئی پی ٹی آئی کارکنان اپنے مقامی رہنمائوںکو غچہ دے کر کھسک گئے اور واپس نہیں لوٹے۔ جس کے بعد سابق وفاقی وزیر نذر محمد گوندل اور سابق ایم پی اے ظفراللہ چیمہ سمیت کچھ کارکنوں نے گرفتاریاں پیش کیں۔
ڈسٹرکٹ جیل کے قریب ڈی سی آفس سیالکوٹ روڈ پر ابتدائی مرحلے میں پولیس اہلکار رضاکارانہ گرفتاریوں کے منتظر رہے اور بار بار اعلان کرتے رہے کہ جس کسی نے گرفتاری دینی ہے۔ وہ وین میں بیٹھ جائے۔ لیکن دو چار کارکنوں کے سوا کوئی کارکن وین میں نہ بیٹھا۔ تاہم کچھ دیر میں تیس سے پینتیس کارکنوں نے نعرہ باری کرتے ہوئے تین گاڑیوں کی چھتوں پر چڑھنا شروع کردیا۔ جس کے بعد ان گاڑیوں کو وہاں سے دوسرے شہروں کی طرف روانہ کردیا گیا۔
یہ سطور لکھے جانے تک سرکاری طور پر یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کارکنوں کو کس جیل میں منتقل کیا جارہا ہے۔ جبکہ پندرہ سو اسیروں کی گنجائش والی گوجرانوالہ جیل میں پہلے ہی تین ہزار دو سو سے زائد قیدی بند ہیں۔
البتہ ذرائع کا کہنا ہے کہ جیل میں گنجائش نہ ہونے پر پالیسی کے مطابق ان کارکنوں کو دوسرے اضلاع کی جیلوں میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ جن میں راجن پور، مظفر گڑھ اور ڈی جی خان کی جیلیں شامل ہیں۔ لیکن اس سے پہلے مجسٹریٹ سے ان کے نظربندی کے احکامات لیے جائیں گے۔
گرفتاری دیے جانے کے بعد پی ٹی آئی کی صوبائی صدر ڈاکٹر یاسمین راشد نے چند درجن کارکنوں کے ساتھ جیل کے باہر مظاہرہ اور نعرہ بازی کی۔ اس سے پہلے پی ٹی آئی کے ضلعی اور تحصیل صدور سمیت دیگر عہدیداروں اور ٹکٹ ہولڈرز سے محض فوٹو شوٹ کرانے اور گرفتاری پیش نہ کرنے کی بابت سوال کیا گیا تو وہ صحافیوں کے ساتھ لڑ پڑے۔ انہوں نے صحافیوں کے ساتھ گالم گلوچ سے بھی گریز نہ کیا۔
یاد رہے کہ جیل بھرو تحریک شروع ہونے سے پہلے یہی ٹکٹ ہولڈرز اور عہدیدار گرفتاریاں دینے اور جیل بھرنے کیلے پارٹی قیادت کو یقین دہانی کرا چکے تھے ۔ کچھ نے اس ضمن میں پارٹی کی پالیسیوں اور فیصلوں پر عملدرآمد کرانے کیلیے حلف بھی اٹھائے تھے۔ مگر گرفتاریوں کا وقت آنے پر یہ کارکنان اور عہدیدار منحرف ہوگئے۔
اس صورتحال کی نزاکت کے پیشِ نظر ڈاکٹر یاسمین راشد کو گرفتاریاں دینے کے عمل کی قیادت کیلئے لاہور سے گوجرانوالہ بھیجا گیا۔ جب ڈاکٹر یاسمین راشد سے استفسار کیا گیا کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈرز اور عہدیداران کہاں ہیں اور گرفتاریاں کیوں نہیں دے رہے؟ تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ تحریک جاری ہے اور گرفتاریاں آپ کے سامنے پیش کی گئی ہیں۔ ٹکٹ ہولدرز بھی یہیں موجود ہیں اور پارٹی کے ضلعی و مقامی عہدیداراں بھی یہیں تھے۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے مقامی عہدیداروں نے پارٹی کی صوبائی قیادت کو بتایا تھا کہ گرفتاریاں پیش کرنے والوں کی بڑی تعداد ہوگی۔ لیکن عین موقع پر انہوں نے خود گرفتاریان پیش کرنے اور دوسرے اضلاع کی جیلوں میں جانے سے انکار کردیا۔ موقع پر پینتیس سے چالیس کارکنوں نے گرفتاریاں دیں اور پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کی توقعات پوری نہ ہوسکیں۔ یہاں گرفتاریوں کے بارے میں پی ٹی آئی کی طرف سے جاری تفصیلات میں کارکنوں کی تعداد نہیں بتائی گئی۔ بلکہ کہا گیا ہے کہ کارکنوں کی ’کثیر‘ تعداد نے گرفتاریاں پیش کیں۔ اس کے برعکس ڈاکٹر یاسمین راشد نے ایک سو پچیس کارکنوں کی گرفتاریاں پیش کرنے کا دعویٰ کیا۔ جبکہ پولیس کی دو گاڑیاں خالی روانہ ہوئیں اور تین گاڑیوں میں کارلنوں کو وہاں سے منتقل کیا گیا۔
پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق مختلف اور دوردراز جیلوں میں کارکنوں کی منتقلی اور نظر بندی کے احکامات جاری ہونے سے کارکنوں میں خوف پھیلا ہوا ہے اور ’رضا کار‘ کارکنوں کی تعداد کم ہورہی ہے۔ البتہ مقامی رہنما کارکنوں کا ’انتظام ‘ کر رہے ہیں۔ ذرائع کی اطلاعات کے مطابق حکومت کسی کو امن و امان میں خلل نہ ڈالنے کی صورت میں خود گرفتار نہیں کرے گی۔ لیکن بد امنی پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ جس میں ابتدائی طور پر نظر بندیاں بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب راجن پور اور ڈی جی خان جیل سے ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ گرفتار ہونے والوں کئی کارکنوں کو ان کے اہلخانہ نے رہائی کے اقدامات اٹھانے سے انکار کردیا ہے۔ جس پر انہوں نے جیلوں میں پہلے سے بند قیدیوں کی مدد سے اپنی رہائی کیلیے دوست احباب اور رشتہ داروں کو پیغام بھجوانا شروع کردیے ہیں۔
ان کارکنوں کو بتایا جارہا کہ ان کی رہائی کیلئے عدالتِ عالیہ سے اجتماعی احکامات حاصل کیے جائیں گے۔ اس کے برعکس صوبائی انتظامیہ کی پالیسی کے مطابق پی ٹی آئی کی آٹھ روزہ جیل بھرو تحریک کا پہلا مرحلہ ختم ہونے اور دوسرے مرحلے کے اعلان سے قبل رہائی کی کوئی نئی پالیسی بنانے کی ضرورت نہیں۔ انتظامیہ کے ذرائع کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی دوسرے مرحلے کا اعلان نہیں کرے گی۔ اگر دوسرے مرحلے کا اعلان نہ کیا گیا تو گرفتار کارکنوں کی جلد رہائی بھی ممکن ہے تاہم ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔