کوہسار کے دامن میں شعروسخن کی کہکشاں ۔۔۔۔۔ سجاد عباسی

آپ کسی ادبی یا تعزیتی تقریب میں شرکت کا ارادہ رکھتے ہوں اور میزبان سے قریبی تعلق بھی ہو تو آپ کا دل میزبان کے لیے احساس ہمدردی سے لبریز ہوتا ہے،یہ سوچ کر کہ تقریب میں میزبان کے قریبی دوستوں کے علاوہ چند ایک مہربان اور قدردان ہی شریک ہوں گے ، وہ بھی اختتام تقریب تک کھسکتے کھسکتے ایک تہائی رہ جائیں گے اور آخر میں صاحب صدر چند درجن خالی کرسیوں سے مخاطب ہوں گے ،جبکہ شرمندہ شرمندہ سا میزبان خجالت بھری نظروں سے خالی پنڈال کو تک رہا ہو گا۔
ہم نے ادبی اور تعزیتی تقریب کا ذکر ایک ساتھ اس لئے کیا کہ اول الذکر کے میزبان سے بھی آخر میں تعزیت کرنے کو ہی دل چاہتا ہے، کیونکہ شرکاء کی تعداد محدود اور جوش و جذبہ مفقود ہونے کے باعث اس پر بھی تعزیتی تقریب ہی کا گماں گزرتا ہے۔


اب سوشل میڈیا پر ہر چیز کی ارزاں دستیابی نے تن آسانی میں اضافہ کر دیا ہے۔ یار لوگ وقت، ایندھن اور توانائی صرف کر کے ” جائے وقوعہ” پر جانے کے بجائے اپنے گھر میں صوفے یا بیڈ پر پاؤں پسار کر ” لائیو” دیکھنے کو ترجیح دیتے اور اسے بھی میزبان پر احسان خیال کرتے ہیں۔ مگر اس تمہید طولانی کے بعد ہم جس تقریب کا ذکر کرنے جا رہے ہیں اس کا معاملہ بالکل برعکس ہے۔یہ ادبی تقریب حاضرین کے جوش ،ولولے اور انہماک کے اعتبار سے اس قدر جاندار اور بھرپور تھی کہ اہل علم و سخن اس پر رشک کریں۔
عید الاضحی کے چوتھے روز ملکہ کوہسار مری کے دامن میں بل کھاتی سڑک ہمیں سنبل بیاہ کے پرفضا مقام پر لے گئی ، جہاں جنگل میں منگل کا سماں تھا۔

تاریخ و ادب کے حوالے سے برپا ہونے والی یہ تقریب عصر کے بعد شروع ہوئی اور نصف شب تک چاند کی کرنوں کے ساتھ مل کر روشنی بکھیرتی رہی۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ حاضرین کا جوش بڑھتا چلا گیا۔شعرائے کرام نصف شب تک اردو اور پہاڑی زبان میں شعر سناتے اور داد سمیٹتے رہے اور باذوق حاضرین کا مجمع دمکتے چہروں اور روشن آنکھوں کے ساتھ انہیں سنتا اور داد دیتا رہا۔علم و سخن کے رنگوں میں نہاتی اور خوشبو بکھیرتی اس تقریب کے میزبان خطہ کوہسار کے ادبی مسیحا پروفیسر اشفاق کلیم عباسی تھے جن کی معاونت اور نظامت کے فرائض کوہسار کے نامور شاعر راشد عباسی انجام دے رہے تھے۔
کچھ لوگوں پر رب کا خاص انعام ہوتا ہے۔وہ خلق خدا میں علم و گیان بانٹتے اور محبتیں سمیٹتے چلے جاتے ہیں۔پروفیسر اشفاق کلیم عباسی بھی رب کے انہی انعام یافتہ لوگوں میں شامل ہیں۔ خطہ کوہسار میں ان کی شخصیت ایک شجر سایہ دار کی سی ہےجس کی چھاؤں میں بیٹھ کر عشاقان علم اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔
کئی دہائیوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہونے کی وجہ سے لا تعداد شاگرد ان کے حکم پر لبیک کہنے کیلئے گوش بر آ واز تو رہتے ہی ہیں، بحرعلم و سخن کے شناور اور بڑے بڑے قدآور بھی ان کی محبت میں دور دور سے کھنچے چلے آتے ہیں۔اس کا عملی مشاہدہ اس تقریب کے شرکا نے بھی کیا جہاں راولا کوٹ آزاد کشمیر سے نامور شاعر فاروق صابر ،مظفر آباد سے اعجاز نعمانی اور ایبٹ آباد سے احمد ریاض اس منفرد بزم سخن کے مہمانان خاص بنے۔


کم و بیش سات گھنٹے جاری رہنے والی یہ تقریب تین حصوں پر مشتمل تھی۔ پہلا سیشن خطہ کوہسار کی شہرہ آفاق علمی و ادبی شخصیت علامہ طالب عباسی مضطر ،جناب سلیم شوالوی اور بابو محمد انور مرحوم کی یاد میں تھا، جس کی صدارت  ایک صاحب علم سیاسی و سماجی شخصیت نذیر عباسی ایڈوکیٹ نے کی۔دوسرے سیشن کی صدارت نامور صحافی جاوید صدیق نے کی جبکہ پروفیسر کامران خان،وجیہ الاسلام عباسی اور سندھ سے آئے ہوئے مہمان پروفیسر مہر منور نے اپنے مقالات پیش کیے۔پروفیسر آفتاب احمد اور ڈاکٹر عابد عباسی وقت کی قلت کے باعث گفتگو نہ کر سکے۔
تقریب کے تیسرے سیشن کے پہلے حصے میں کئی کتابوں کی رونمائی ہوئی جس کے بعد مشاعرے کا طویل سیشن شروع ہوا جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ سامعین اور حاضرین کو اپنے سحر میں جکڑتا چلا گیا۔
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی ۔
خطہ کوہسار کی ہر دل عزیز شخصیت اور "پہاڑی زبان۔ اساں نی پہچان” گروپ کے روح رواں ظہیر چاچو تقریب کو سوشل میڈیا کے ذریعے لائیو کور کر رہے تھے اور دنیا بھر میں موجود ان کے ناظرین یہ مناظر براہ راست دیکھ رہے تھے۔ ظہیر چاچو کی معاونت مری ڈیولپمنٹ فورم کے ہونہار اور صاحب دانش نوجوان نعمان عباسی اور حماد سکندر کر رہے تھے۔ ان نوجوانوں کی سماجی و علمی سرگرمیاں خطہ کوہسار کی روایتی فرسودہ طرز سیاست کیلئے چیلنج اور نسل نو کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا ہیں۔نعمان عباسی نے بھی مشاعرے میں انقلابی اردو نظم اور پہاڑی کلام سنا کر خوب داد سمیٹی۔
ان کے علاوہ خود میزبان پروفیسر اشفاق کلیم عباسی ، مہمانان خصوصی فاروق صابر اور اعجاز نعمانی سمیت احمد ریاض، باؤ جمیل احمد جمیل،تیمور ذوالفقار ،راشد عباسی، نعمان ناصح اور اظہر حیات نے بھی خوب رنگ جمایا۔

ملکہ کوہسار کے دامن میں واقع سنبل بیاہ کی یہ وادی چودھویں کے چاند کی روشنی میں نہا رہی تھی اور غزل، نظم اور ماہیئے سمیت شاعری کے سارے رنگ فضا میں قوس قزح کی مانند بکھر رہے تھے۔
قوس قزح کو پہاڑی زبان میں "رن تن” کہتے ہیں اور رنتن نامی ادبی جریدے کا چوتھا ایڈیشن بھی تقریب رونمائی کا حصہ تھاجس کے مدیر راشد عباسی پہاڑی زبان و ادب کے فروغ کا مورچہ بڑی جانفشانی اور مستقل مزاجی سے سنبھالے ہوئے ہیں۔

اشفاق کلیم عباسی (میزبان شاعر )

اپنی انکھوں میں جلا کر تیری یادوں کے چراغ
ہم تصور میں تم ہی سے گفتگو کرتے رہے
ہم نے یوں رکھی تیرے میخانہ خالی کی لاج
بن پئے ہی رات بھر جو ہاؤ ہو کرتے رہے

میں ٹُریا تے زمانہ نال ٹریا
میں چُہریا تے زمانہ نال چُہریا
میں پُہریا تے زمانہ نال پُہریا
زمانہ کون؟ میں آپوں زمانہ (پہاڑی نظم)

اعجاز نعمانی
کھا گئے بھیڑیے چن چن کے جو بزغالوں کو
مل گئے ساتھ درندوں کے گوالے میرے
اس لیے تم کو دکھاتا ہی نہیں ہوں پاؤں
تھک نہ جاؤ کہیں گن گن کے یہ چھالے میرے

 

فاروق صابر
اے عشق بلا خیز اکیلا نہیں تو بھی
میں بھی ہوں تیرے ساتھ ذرا دیکھ کے چلنا
مجبور ہیں حالات کے مارے ہوئے مزدور
گھر ان کا ہے فٹ پاتھ ذرا دیکھ کے چلنا

 

احمد ریاض (نعت)
حضور اک خطا کار امن و امان چاہتا ہے
وہ کیا بتائے عظیم آقا
وہ کیا سنائے کریم آقا
کسی کی چغلی ،کسی کی غیبت
کسی کے بارے میں الٹے سیدھے بیان دے کر
کسی کو جھوٹی زبان دے کر
ریا کے سجدے خرید لایا ہے
اپنی سچی اذان دے کر
ہوس کا سودا کیا ہے آقا
محبتوں کا جہان دے کر

باؤ جمیل احمد جمیل
سکھناں پہانڈا سوچاں ناں میں، پہرنا پہرنا لنگی آیاں
ویلے نے سمندرے وچا ترنا ترنا لنگی آیاں
اکھیں نال میں کنڈے چنتے، کیتے ٹہڈ پسہولے
جینے نی اک آس کہنی تے ، مرنا مرنا لنگی آیاں

راشد عباسی
تعلقات کے بےلوث سلسلے کم ہیں
تکلفات زیادہ ہیں، ولولے کم ہیں
جو بے بصر ہیں، انہیں دیکھنے کی حسرت ہے
جو دیکھ سکتے ہیں، وہ لوگ دیکھتے کم ہیں

تیمور ذوالفقار
کشتیاں میری ہیں تالاب کسی اور کے ہیں
بھیگی انکھوں میں حسیں خواب کسی اور کے ہیں