فائل فوٹو
فائل فوٹو

فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل، فل کورٹ بنانے کی حکومتی استدعا مسترد

اسلام آباد: سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیس میں سپریم کورٹ نے  اٹارنی جنرل کی فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کر دی۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ملک میں ہر ایک فکر مند ہے کہ سویلینز کے کیسے آرمی ایکٹ کے سخت مدار سے گزارا جائے گا، آرمی ایکٹ ایک سخت قانون ہے، درخواست گزاروں کے دلائل مکمل ہو چکے ہیں، اب اٹارنی جنرل آپ نے تمام سوالات کے جوابات دینے ہیں۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مستردکردی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ اس وقت ججز دستیاب نہیں، فل کورٹ تشکیل دینا ناممکن ہے، تمام ججز کی دل سے عزت اور ان کے موقف کا احترام سے دیکھتا ہوں۔

سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیس میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کر دیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ تمام ججز پر مشتمل بنچ بنانا تکنیکی بنیاد پر ہی ممکن نہیں، تین ججز نے کیس سننے سے معذرت کی ، کچھ ججز ملک میں نہیں ہیں،جسٹس اطہر من اللہ ملک سے باہر ہیں،آپ میرے بھائی یحییٰ کی گریس دیکھیں، انہوں نے بنچ تشکیل کرنے کے بجائے عدالت کی توقیر اور اعتماد کی بات کی، میں نے بھی جسٹس یحییٰ آفریدی کا نوٹ پڑھا،اس حقیقت کے باوجود کہ یہ کیس کافی حد تک سنا جا چکا ہے کچھ کہنا چاہتا ہوں، جب بنچ بنایا تب تمام ججز سے موقف لیا اور دستیاب ججز پر بنچ بنایا، کیس کے پہلے دن 2ججز نے اپنی وجوہات پر کیس سننے سے معذرت کی، تعجب ہوا جب وفاق نے دوسری جماعت پر آ کر ایک جج پر  اعتراض کیا، جسٹس منصور نے اپنی وجوہات پر کیس سننے سے معذرت کی، عوامی مفاد کے کیس میں کسی جج کا ذاتی مفاد نہیں ہوتا، بنچ 9ججز سے کم ہو کر 6ججز پر رہ گیا، خوشی ہوئی کہ فوجی تحویل میں افراد کو ان کے اہلخانہ سے ملنے کی اجازت دی گئی، اس کیس میں آئینی سوالات کے جوابات ملنا ضروری ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ ملک میں ہر ایک فکر مند ہے کہ سویلینز کے کیسے آرمی ایکٹ کے سخت مدار سے گزارا جائے گا، آرمی ایکٹ ایک سخت قانون ہے، درخواست گزاروں کے دلائل مکمل ہو چکے ہیں، اب اٹارنی جنرل آپ نے تمام سوالات کے جوابات دینے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ لطیف کھوسہ نے شروع میں ہی کہا تھا کہ انسداد دہشتگردی عدالت میں مقدمات چلائے جائیں،ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ 9مئی کے واقعات سنجیدہ نوعیت کے تھے،فل کورٹ کی درخواست پر ہم آپس میں مشاورت کرلیں گے،فی الحال فل کورٹ بنانا ممکن نہیں، ہم آپ کو تفصیل سے سننے کیلیے وقت دیں گے۔

صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ میں لیاقت حسین کیس 1999 سے اصول طے ہے کہ آرٹیکل 83Aکے تحت فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل نہیں ہو سکتا، عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں، کہ ملزمان کا براہِ راست تعلق ہو تو ہی فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے، سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق تعلق جوڑنے اور آئینی ترمیم کے بعد ہی سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے، اگر ملزمان کا تعلق ثابت ہوجائے تو پھر کیا ہوگا؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ لیاقت حسین کیس میں آئینی ترمیم کے بغیر ٹرائل کیا گیا تھا۔

عابد زبیری نے دلائل دیے کہ بنیادی نقطہ یہ ہے کہ جو الزامات ہیں ان سے ملزمان کا تعلق کیسے جوڑا جائے گا، جو سویلینز افواج کی تحویل میں ہیں ان کا فوجی ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہو سکتا، پہلے سویلنز کا فوج یا دفاع کیخلاف تعلق جوڑنا ضروری ہے، اگر ملزمان کا فوج یا دفاع سے کوئی تعلق ہے تو پھر فوجی ٹرائل کیلئے آئینی ترمیم ناگزیر ہے، ملزمان کو سزاوں کیخلاف ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔

جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ آپ کے مطابق سویلنز کو آئینی تحفظ ہے اور فوجی ٹرائل کیلئے دفاع یا افواج کیخلاف ملزمان کا تعلق جڑنا ضروری ہے۔

عابد زبیری نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں یہ ٹرائل آئینی ترمیم سے ہی ممکن ہے، کچھ ملزمان کو چارج کیا جارہا ہے کچھ کو نہیں، اگر آپ نے خصوصی ٹرائل کرنا ہے تو آئینی ترمیم سے خصوصی عدالت بنانا ہی ہو گی، فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلانے والے جوڈیشل نہیں،ایگزیکٹیو ممبران ہوتے ہیں، ٹرائل کے بعد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں جوڈیشل ری ویو ملنا چاہیے، 21ویں اور 23ویں ترامیم خاص مدت کےلئےتھیں، 21ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ نے اجازت تو دی لیکن سپریم کورٹ ہائیکورٹ میں ریویو کا اختیار بھی دیا۔

جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں پہلے پولیس گرفتار کر کے عام عدالتوں میں فرد جرم لگوائے پھر معاملہ ملٹری کورٹس جائے؟ کیس پہلے عام عدالت میں چلے پھر ملٹری کورٹس جاسکتا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ لیاقت حسین کیس میں کہا گیا ملٹری اتھارٹیز تحقیقات کرسکتی ہیں سویلین کا ٹرائل نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کس پر آرمی ایکٹ لگے گا کس پر نہیں؟۔ عابد زبیری نے جواب دیا کہ تحقیقات کرنا پولیس کا کام ہے، پولیس ہی فیصلہ کرے گی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ سویلین پر فوجی ایکٹ کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟

وزیر دفاع کے وکیل عرفان قادر نے چیف جسٹس اور دیگر دو سینئر ججز پراعتراض اٹھا دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں چیف جسٹس پاکستان اور بینچ میں موجود دو سینئر ججز کی بینچ سے علیحدگی پر دلائل دوں گا۔

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔