صحافیوں سے گفتگو میں سارا زور بھی پی ٹی آئی سے کی گئی ’’نا انصافی‘‘ پر رہا، فائل فوٹو
 صحافیوں سے گفتگو میں سارا زور بھی پی ٹی آئی سے کی گئی ’’نا انصافی‘‘ پر رہا، فائل فوٹو

جاگیرداروں اور وڈیروں پر ٹیکس عائد کیا جائے،حافظ نعیم الرحمٰن

کراچی: امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے مطالبہ کیا ہے کہ سارا بوجھ عوام اور تاجروں پر ڈالنے کے بجائے جاگیرداروں اور وڈیروں پر ٹیکس عائد کیا جائے، گیس کا مصنوعی بحران ختم اور گیس و بجلی کے ٹیرف میں کمی کی جائے۔گیس کے ٹیرف میں اضافے کے خلاف تاجروں و صنعت کاروں کے 4دسمبر کو ہونے والے احتجاج کی حمایت کرتے ہیں۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کی گئی اس کا کوئی فائدہ عوام کو نہیں پہنچا، اشیاء صرف کی قیمتوں میں کمی یقینی بنائی جائے۔ حکومت نے کراچی کے صنعتی اداروں پر اضافی اور ناجائز بوجھ ڈالا تو یہ بند ہو جائیں گے اور پھر ملک کیسے چلے گا؟ صاف شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے انتخابی شیڈول کے اعلان سے قبل چاروں صوبوں کے گورنرز کو ہٹایا جائے، آئینی کے آرٹیکل 140-Aکے تحت بلدیاتی اداروں کو نچلی سطح پر اختیارات و وسائل تاحال منتقل نہیں کیے گئے لیکن اس کے باوجود جماعت اسلامی کے منتخب نمائندے عوام کے مسائل کے حل کی کوششیں کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جماعت اسلامی نے کراچی کے ساڑھے تین کروڑ عوام کے جائز اور قانونی حقوق کے حصول اور مسائل کے حل کے لیے جو جدو جہد کی ہے وہ کسی اور پارٹی نے نہیں کی۔ اہل کراچی بلدیاتی انتخابات سے بڑھ کر عام انتخابات میں جماعت اسلامی کا ساتھ دیں گے اور ان تمام پارٹیوں کو مسترد کر دیں گے جنہوں نے کراچی کو تباہ و برباد کیا۔ نواز لیگ، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے مل کر کراچی کی آبادی پر ڈاکا ڈالا اور جو آبادی ظاہر کی گئی اس کے مطابق بجٹ نہیں دیا جا رہا۔ کراچی اور اندرون سندھ کی یونین کمیٹیوں کے بجٹ میں ایک اور سات کا فرق ہے، شہر میں مسلح ڈکیتوں اور اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اب چوروں اور ڈاکوؤں کے ساتھ پولیس اہلکار اور افسران بھی ملوث ہیں۔ جرائم کی روک تھام اور کرمنل نیٹ ورک کے خاتمے کے لیے پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کی جائے اور محکمہ پولیس میں 80فیصد بھرتیاں کراچی کے مقامی باشندوں کی جائیں خواہ وہ کوئی بھی زبان بولتے ہوں۔ جماعت اسلامی اہل کراچی کے حقوق کے حصول اور مسائل کے حل کی جدو جہد جاری رکھے گی۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو ادارہ نور حق میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پرجماعت اسلامی کراچی کے سیکریٹری جنرل منعم ظفر خان، نائب امیر کراچی راجہ عارف سلطان، سٹی کونسل کے رکن قاضی صدر الدین، کے الیکٹرک کمپلنٹ سیل کے انچارج عمران شاہد، سیکریٹری اطلاعات زاہد عسکری، سینئر ڈپٹی سیکریٹری صہیب احمد بھی موجود تھے۔حافظ نعیم الرحمن نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ تاجروں کے لیے گیس کی قیمتوں میں 193فیصد اضافے کے بعد بجلی بھی مہنگی کی جارہی ہے جس کی وجہ سے تاجر طبقہ سخت پریشان ہے، ایکسپورٹ میں سب سے زیادہ حصہ کراچی کا ہوتا ہے اگر کراچی کی تجارت اور صنعت پر ناجائز اور اضافی بوجھ ڈالا گیا تو ملک کیسے چکے گا؟ جاگیرداروں اور وڈیروں پر ٹیکس کیوں نہیں لگایا جارہا؟ پورے سال میں سندھ کے جاگیرداروں اور وڈیروں نے 45کروڑ روپے ٹیکس اور پنجاب کے جاگیرداروں نے ڈھائی ارب روپے ٹیکس ادا کیا جبکہ ملازمت پیشہ طبقہ 300ارب روپے سے زائد سالانہ ٹیکس دیتا ہے، وڈیرے اور جاگیردار عوام کو لوٹتے ہیں لیکن ٹیکس نہیں دیتے اور یہ ہی سب آٹا، چینی مافیا اور آئی پی پیز کے ظالمانہ اور عوام دشمن معاہدوں میں ملوث ہیں اور ملک کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔

حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ عوام کو بتایا جائے کہ ایل این جی کی مد میں اربوں روپے کیوں دیے جا رہے ہیں، سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے کئی مقامات پر گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ حکمران طبقہ ان مقامات سے گیس کیوں نہیں نکالتا؟ جھوٹی رپورٹس بنا کر عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادی عوام کو بتائیں کہ ان پارٹیوں نے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے؟حافظ نعیم الرحمن نے کہاکہ اسٹریٹ کرائمز کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، ڈکیتی کا چوتھا واقعہ ہے جس میں پولیس اہلکار ملوث ہیں، پولیس کے محکمے میں کالی بھڑیں شامل ہوگئی ہیں جو سسٹم پر بد نما داغ بنے ہوئے ہیں۔انہوں نے کرپشن کا بازار گرم کیا ہوا ہے اور سپاہی سے لے کر ایس ایچ او، ڈی ایس پی سمیت سب کرپشن کے نظام میں ملوث ہیں اور اس نظام کی سرپرستی کرنے والے بھی سسٹم میں موجود ہیں، اگر کوئی ڈکیت پکڑا جائے اور وہ پولیس والا نکلے تو پھر شہریوں کو کیسے تحفظ کا احساس دلایا جاسکتا ہے،اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں ایک سال میں 127انسانوں کی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں، کراچی کے عوام کودہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے۔پولیس میں اچھے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں لیکن وہ بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔