نواز لیگ نے کارکنان کے ارمانوں کا خون کر دیا

علی جبران :
ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والی نون لیگ نے ایک بار پھر کارکنان کے ارمانوں کا خون کر دیا ہے اور پنجاب سے قومی و صوبائی اسمبلی میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کا بڑا حصہ پارٹی رہنماؤں کے قریبی رشتے داروں میں بانٹ دیا ہے۔ خاص طور پر پنجاب سے قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے لیے جن بیس خواتین کی فہرست الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی ہے۔

ان میں سے بیشتر ارکان مسلسل ڈیڑھ دو دہائیوں سے منتخب ہوتی چلی آرہی ہیں۔ کئی ایسی ہیں جو پارٹی کے اہم رہنماؤں کی بیگمات، بیٹیاں یا قریبی عزیزہ ہیں۔ قدر مشترک یہ ہے کہ یہ تمام ارکان کبھی بھی جنرل سیٹ پر براہ راست الیکشن لڑ کر کامیاب نہیں ہو سکیں، یا اس کی اہلیت نہیں رکھتیں، چنانچہ انہیں ایوان میں پہنچانے کے لیے خواتین کی مخصوص نشستوں کا راستہ اپنایا گیا۔ ہر بار عام کارکن کو نظرانداز کر کے میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں۔

گزشتہ انتخابات میں جب بھی ان منظور نظر خواتین ارکان کو منتخب کیا گیا تو کارکنان نے اس پر احتجاج کیا، اس بار بھی منتخب خواتین کی لسٹ پر کارکنوں نے سوشل میڈیا پر احتجاج کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟

پنجاب سے قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے لیے نون لیگ نے جن بیس خواتین کی ترجیحی لسٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرائی ہے، ان میں سرفہرست نام سابق وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب کی والدہ طاہرہ اورنگ زیب کا ہے۔ محترمہ کی ریزرو سیٹ مستقل بنیادوں پر پکی ہے۔ پہلی بار وہ دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں پنجاب سے اس نشست پر قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئی تھیں۔ جس کے بعد انہوں نے اپنے رشتے داروں کو بھی نمایاں پارٹی و حکومتی عہدوں اور مخصوص نشستوں پر ایوان تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا۔ ان قریبی عزیزوں میں ان کی بہن نجمہ حمید اور بیٹی مریم اورنگ زیب شامل ہیں۔

نجمہ حمید دو ہزار نو اور پھر دو ہزار پندرہ کے سینیٹ انتخابات میں نون لیگ کی امیدوار کے طور پر دو بار سینیٹر منتخب ہوئیں۔ جبکہ ان کی بیٹی مریم اورنگ زیب دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں خواتین کی مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کے لیے چنی گئیں۔ طاہرہ اورنگ زیب جہاں اپنے قریبی عزیزوں کے لیے متحرک تھیں، وہیں انہیں دو ہزار تیرہ اور پھر دو ہزار اٹھارہ میں بھی مخصوص نشست پر نون لیگ نے قومی اسمبلی بھیجا۔ یوں وہ اب چوتھی بار قومی اسمبلی جائیں گی۔ گزشتہ الیکشن میں دونوں ماں، بیٹی ایوان زیریں کا حصہ تھیں۔

فہرست کے دوسرے نمبر پر موجود شائشتہ پرویز ملک بھی خواتین کی مخصوص نشست پر قومی اسمبلی میں جانے کی ہیٹ ٹرک مکمل کرنے جارہی ہیں۔ وہ دو ہزار تیرہ اور دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں بطور نون لیگی امیدوار خواتین کی مخصوص سیٹ پر قومی اسمبلی میں پہنچی تھیں۔ یہ تیسری بار ہے کہ قومی اسمبلی کے لیے خواتین کی مخصوص سیٹوں کے لیے نون لیگی فہرست میں ان کا نام شامل ہے۔ شائستہ ملک، مرحوم پرویز ملک کی بیوہ ہیں۔ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کے بعد دونوں میاں بیوی اور ان کا بیٹا علی پرویز بھی رکن قومی اسمبلی تھا۔ یعنی ایک ہی گھر کے تین افراد بیک وقت ایوان زیریں کا حصہ تھے اور نون لیگ کا عام کارکن ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے میں الجھا رہا۔

فہرست میں تیسرے نمبر پر مریم اورنگ زیب ہیں۔ یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ اپنی والدہ طاہرہ اورنگ زیب کی کوششوں سے وہ دو ہزار تیرہ میں نون لیگی امیدوار کے طور پر ریزرو سیٹ پر قومی اسمبلی پہنچی تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ وہ اہم حکومتی پارٹی عہدوں پر بھی ہاتھ صاف کرتی رہیں۔ انہیں نون لیگ کی یوتھ ویمن ونگ اسلام آباد اور راولپنڈی کی چیف آرگنائزر بنایا گیا۔ دو ہزار سولہ میں وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ میں شامل کیا گیا اور انہیں وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات کا قلمدان ملا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں بھی انہیں یہ وزارت دوبارہ دی گئی۔ پھر وہ مکمل وفاقی وزیر اطلاعات بنا دی گئیں۔ دو ہزار اٹھارہ میں انہیں نون لیگ کا ترجمان بنایا گیا اور اسی برس کے انتخابات میں خواتین کی مخصوص نشست پر دوبارہ وہ قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ اب تیسری بار ریزرو سیٹ پر ایوان زیریں جانے کی تیاری کر رہی ہیں۔

فہرست میں چوتھا نام نزہت صادق کا ہے۔ انہوں نے خواتین کی مخصوص نشستوں پر قومی اسمبلی اور سینیٹ، دونوں کے مزے اڑائے اور تاحال یہ سلسلہ جاری رکھا گیا ہے۔ نزہت صادق دو ہزار آٹھ کے عام انتخابات میں نون لیگ کے ٹکٹ پر مخصوص نشست پر ایم این اے بنی تھیں۔ وہ قومی اسمبلی میں امیر ترین رکن تھیں۔ دو ہزار بارہ کے سینیٹ الیکشن میں بھی وہ بطور نون لیگی امیدوار خواتین کی مخصوص سیٹ پر سینیٹر منتخب ہوئیں۔ دو ہزار اٹھارہ میں دوبارہ نون لیگ کے ٹکٹ پر سینیٹر بنائی گئیں۔ اگرچہ ٹیکنیکل طور آزاد امیدوار کی حیثیت میں منتخب ہوئی تھیں۔ کیونکہ عدالتی حکم پر انتخابی نشان نون لیگ سے واپس لے لیا گیا تھا۔

فہرست میں پانچواں نام مسرت آصف خواجہ کا ہے۔ وہ سینئر نون لیگی رہنما خواجہ آصف کی اہلیہ ہیں۔ ساتویں نمبر پر آصف خواجہ کی بھتیجی شزا فاطمہ خواجہ ہیں۔ دونوں دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں بھی نون لیگی امیدوار کے طور پر مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی رکن بنی تھیں۔ ان میں شزا خواجہ دو ہزار تیرہ میں بھی یہی پھل کھا چکی تھیں۔ وہ بھی تیسری بار ریزرو سیٹ پر قومی اسمبلی پہنچیں گی۔

فہرست میں چھٹے نمبر پر سیما جیلانی کا نام ہے۔ وہ بھی نون لیگ کی امیدوار کے طور پر دو ہزار آٹھ کے انتخابات سے ریزرو سیٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوتی چلی آرہی ہیں۔ اسی طرح لسٹ میں آٹھویں نمبر پر گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی رومینہ خورشید عالم کا نام ہے۔ وہ بھی تیسری بار خواتین کی مخصوص نشست پر نون لیگ کا انتخاب ہیں۔ دو ہزار تیرہ اور دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں بھی نون لیگ نے انہیں ریزرو سیٹ پر ایم این اے بنایا تھا۔ سینتالیس سالہ رومینہ، مسیحی کمیونٹی سے تھیں، تاہم چار برس پہلے انہوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تھا۔

فہرست میں نویں نمبر پر ایک ایسا نام شامل ہے جو کچھ عرصہ پہلے تک تحریک انصاف کے ساتھ جڑا تھا۔ پی ٹی آئی کی سابق رکن قومی اسمبلی وجیہہ قمر نے دو ماہ قبل نواز شریف کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور انعام میں ان کا نام خواتین کے لیے مخصوص سیٹوں کی لسٹ میں ڈال دیا گیا اور برسوں سے پارٹی کے لیے قربانی دینے والی خواتین کارکنان ہاتھ ملتی رہ گئیں۔

دسویں نمبر پر ایک اور ایسا نام شامل ہے جس نے ستانوے سے لے کر آج تک جنرل سیٹ پر ہر الیکشن ہارا۔ ایک بار صرف دو سو چھ ووٹ حاصل کیے۔ لیکن پھر ان کی قسمت کا تالا نون لیگ نے خواتین کی مخصوص سیٹ پر رکن قومی اسمبلی بنا کر کھولا۔ زیب جعفر کو ایک بار ویمن ریزرو سیٹ پر ایم پی اے اور دو بار ایم این اے بنایا گیا اور اب چوتھی بار انہیں پھر یہ موقع فراہم کیا گیا ہے۔ ان کے والد چوہدری جعفر اقبال پرانے نون لیگی رہنما ہیں۔ دلچسپ امر ہے کہ زیب جعفر کی والدہ بیگم عشرت اشرف بھی بطور نون لیگی امیدوار تین بار ریزرو سیٹوں پر اسمبلی کا حصہ بن چکی ہیں۔ دو ہزار اٹھارہ میں مخصوص نشستوں پر ماں پنجاب اسمبلی اور بیٹی قومی اسمبلی کی رکن تھی۔

گیارہویں نمبر پر براجمان کرن ڈار نون لیگی رہنما اور آزاد کشمیر اسمبلی کے رکن ناصر ڈار کی بہن ہیں۔ ان کے منظور نظر بننے کا سلسلہ دو ہزار آٹھ میں شروع ہوا تھا، جب انہیں ریزرو سیٹ پر پنجاب اسمبلی پہنچایا گیا۔ وہ اب تک خواتین کی مخصوص نشستوں کے راستے دو بار پنجاب اسمبلی اور دو بار قومی اسمبلی پہنچائی جا چکی ہیں۔ یہ ان کی پانچویں باری ہو گی۔

بارہویں نمبر پر انوشہ رحمن ہیں۔ نون لیگ کی سابق وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمن بھی تیسری بار ریزرو سیٹ پر ایم این اے بننے کی امیدواروں میں شامل ہیں۔

نون لیگ کے منظور نظر سابق بیوروکریٹ طارق فاطمی کی اہلیہ زہرہ ودود فاطمی فہرست میں تیرہویں نمبر پر ہیں۔ وہ اس سے قبل نون لیگی امیدوار کے طور پر دو بار ریرزو سیٹ پر قومی اسمبلی کی رکن رہ چکی ہیں اور اب ہیٹ ٹرک کرنے جارہی ہیں۔ چودہویں نمبر پر موجود آسیہ ناز تنولی دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں پنجاب سے خواتین کے لیے مخصوص نشست پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی امیدوار کے طور پر قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئی تھیں۔ یہ ان کی دوسری باری ہو گی۔ غرض یہ کہ فہرست میں ایک بھی امیدوار ایسی نہیں جو پہلی بار منتخب ہونے جارہی ہو۔ کئی ہیٹ ٹرک کر چکیں اور بعض چوتھی بار یہ کارنامہ انجام دیں گی۔

فہرست میں پندرہویں نمبر پر صبا صادق بھی اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز سے ہی ریزرو سیٹ پر موج اڑاتی چلی آرہی ہیں۔ وہ دو بار قاف لیگ اور ایک بار نون لیگ کی امیدوار کے طور پر پنجاب اسمبلی کی رکن بنیں۔ اب چوتھی بار نون لیگ کی امیدوار کے طور پر خواتین کی مخصوص سیٹ پر قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوں گی۔ سولہویں نمبر پر موجود فرح ناز اکبر اسلام آباد میں نون لیگ کے خواتین ونگ کی صدر ہیں۔ سترہویں نمبر پر موجود شہناز سلیم ملک مسلسل پانچویں بار نون لیگی امیدوار کے طور پر ریزرو سیٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوں گی۔ محترمہ نے دو ہزار دو کے عام انتخابات سے ’’ترقی‘‘ کا یہ سلسلہ شروع کیا تھا۔

خواتین کی مخصوص نشستوں سے متعلق نون لیگی فہرست میں شامل اٹھارہویں، انیسویں اور بیسویں نمبر پر موجود بالترتیب منیبہ اقبال، عفت نعیم اور تمکین اختر نیازی کی کہانی بھی مختلف نہیں۔