امریکی سینیٹر نے ہفتے میں 32 گھنٹے کام کی تجویز دے دی

 

امریکا(اُمت نیوز)امریکی سینیٹ کے رکن برنی سینڈرز نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں لوگوں سے بہت زیادہ کام لیا جارہا ہے۔ عام آدمی کو جس قدر آرام ملنا چاہیے اُتنا آرام مل نہیں رہا۔ اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔

فوکس نیوز سے ایک انٹرویو میں برنی سینڈرز نے کہا کہ ہفتے میں زیادہ سے زیادہ 32 گھنٹے کام لیا جانا چاہیے۔ اس کی توجیہ کرتے ہوئے برنی سینڈرز نے کہا کہ ٹیکنالوجیز کی بھرمار نے عام آدمی کی کارکردگی میں 400 فیصد سے بھی زائد اضافہ کیا ہے۔ کاروباری ادارے اپنے ملازمین کی محنت سے بہت کچھ کمانے کے باوجود دینے کے معاملے میں بخل کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

امریکی سینیٹر کا کہنا تھا کہ عام آدمی کو جدید ترین ٹیکنالوجیز کی مدد سے بہتر ہونے والی کارکردگی اور اُس کے نتیجے میں کاروباری اداروں کو پہنچنے والے فوائد میں حصہ ملنا ہی چاہیے۔ کاروباری ادارے اگر ملازمین کو اپنے منافع میں شریک نہیں کرسکتے تو اوقاتِ کار کم کرکے اُنہیں کسی نہ کسی صورت کچھ فائدہ تو پہنچا ہی سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ امریکا کی بعض ریاستوں میں ہفتے میں چار دن والے اسکول متعارف کرائے گئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ بہت سے دفاتر میں اوقاتِ کار کے حوالے سے ملازمین کو رعایت دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ سلسلہ کورونا وائرس کی وبا کے زمانے میں شروع ہوا تھا۔

ہفتے میں چار دن کام کا تصور بھی نیا نہیں۔ ڈیڑھ عشرے کے دوران امریکا اور یورپ کی مزدور انجمنوں نے اس حوالے سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے بھرپور کوشش کی ہے۔ جاپان میں بھی ہفتے میں چار دن کام کا تصور رُو بہ عمل لایا جاچکا ہے۔ حال ہی میں جاپان کے ایک شہر میں سرکاری ملازمین کو ہفتے میں چار دن کام پر بلانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔

برنی سینڈرز کے خیالات پر امریکا میں ردِعمل ملا جلا رہا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کا کہنا ہے کہ ملازمین کو مختلف حوالوں سے فوائد مل ہی رہے ہیں۔ اُن کا استدلال یہ ہے کہ فی زمانہ مسابقت بہت زیادہ ہے جس کے نتیجے میں تمام ہی کاروباری اداروں کو زیادہ کام کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے میں اوقاتِ کار گھٹانا ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دے رہا ہے