نئے آئی جی کی تعیناتی کے بعد صوبائی حکومت نے گرینڈ آپریشن کا اعلان کردیا، فائل فوٹو
 نئے آئی جی کی تعیناتی کے بعد صوبائی حکومت نے گرینڈ آپریشن کا اعلان کردیا، فائل فوٹو

کچے کے ڈکیتوں کی سرکوبی سندھ حکومت کیلیے بڑا چیلنج

نمائندہ امت:

نئی سندھ حکومت کے لئے ایک بار پھر سب سے بڑا چیلنج صوبے بھر میں امن و امان کی صورتحال کو بحال کرنا ہے۔ جب تک کچے کے علاقوں میں ڈاکو راج ختم نہیں ہوگا، تب تک سندھ میں امن و امان کی بحالی ممکن نہیں۔ صوبائی حکومت نئے آئی جی کی تعیناتی کے بعد ڈاکوئوں کے خلاف گرینڈ آپریشن کرنے کا اعلان کرچکی ہے۔

نئے آئی جی کی تعیناتی کو دو دن گزر چکے ہیں۔ تاہم ماضی میں ڈاکوئوں کے خلاف شروع کئے گئے آپریشنز میں سے بیشتر ناکام ہونے کے باعث بیشتر پولیس اہلکاروں کے حوصلے بھی پست ہوچکے ہیں۔ اور آپریشنز کی ناکامی کا بڑا سبب خود پولیس وردی میں موجود ڈاکوئوں کے مخبر ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں متعلقہ قبائلی سرداروں کی بھی پشت پناہی حاصل ہے۔

ماضی میں سیاسی مجبوریوں کے باعث ڈاکوئوں کی پشت پناہی کرنے والے سرداروں کے خلاف کارروائی سے صوبائی حکومت گریزاں رہی ہے۔ خصوصاً ملتان ، سکھر موٹر وے بننے کے بعد ضلع گھوٹکی میں امن و امان کی صورتحال مزید ابتر ہوئی ہے۔ صرف رات کے وقت نہیں بلکہ دن میں بھی مذکورہ موٹر وے مسافروں کے لئے غیر محفوظ ہوچکا ہے۔ صوبائی وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار نے اعلان کیا ہے کہ وہ خود جاکر وہاں کیمپ لگائیں گے اور آپریشن کی نگرانی کریں گے۔ اس قسم کے اعلانات پہلے بھی ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوتی گئی ہے۔

سندھ میں جہاں تک امن و امان کی بات ہے تو ماضی میں شمالی سندھ کے اضلاع میں سے سب سے پرامن اضلاع سکھر اور گھوٹکی ہوا کرتے تھے۔ 80 کی دہائی میں سندھ میں جب ڈاکو کلچر کی شروعات ہوئی تو اس وقت ضلع لاڑکانہ ، شکارپور، گھوٹکی، نوشہروفیروز، دادو کے کچے کے علاقے ڈاکوئوں کا گڑھ ہوتا تھا اس وقت بھی سکھر اور ضلع گھوٹکی کے علاقے ڈاکو راج سے محفوظ تھے۔ لیکن گزشتہ تقریباً 20 برس کے دوران ضلع گھوٹکی ، سکھر ، کشمور اور شکارپور کے کچے کے علاقوں میں دن بدن ڈاکو راج میں اضافہ ہوتا گیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب مختلف قبائل کے درمیان خونریز تصادم ہے۔

قبائلی تصادم کے باعث متعلقہ قبائلی سردار اپنے مسلح افراد کی پشت پناہی کرتے تھے۔ لیکن اب وہ معاملہ صرف متعلقہ قبائل تک محدود نہیں بلکہ عام آدمی کے لئے عذاب جاں بن گیا ہے۔ 2019 میں ملتان ، سکھر موٹر وے آپریشن ہونے کے بعد ضلع گھوٹکی میں امن و امان کی صورتحال مزید بگڑ گئی ہے۔ مسافروں کے لئے مذکورہ موٹر وے بالکل غیر محفوظ ہوچکا ہے۔ اوباڑو سے لے کر گھوٹکی شہر تک موٹر وے کے سائیڈوں پر جو لوہے کی گرلیں بنائی گئی تھیں، وہ مکمل طور پر ڈاکوئوں اور مقامی لوگوں نے لوہا چوری کرنے کے ڈر سے اکھاڑدی ہیں جس کے بعد ڈاکو بغیر کسی رکاوٹ کے جب چاہیں موٹر وے پر آکر گاڑیوں کو روک کر لوٹ مارشروع کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مذکورہ علاقے میں موٹر وے پر نصب سی سی ٹی وی کیمرے بھی ناکارہ بنائے گئے ہیں۔

دوروز قبل ایک بار پھر غلام نبی میمن نے انسپکٹر جنرل سندھ پولیس کے عہدے کا چارج سنبھال لیا ہے۔ جہاں تک نئے آئی جی کی تعیناتی کی بات ہے تو نگراں حکومت سے قبل ہی غلام نبی میمن آئی جی سندھ پولیس کے عہدے پر تعینات تھے۔ اس وقت بھی امن و امان کی صورتحال مذکورہ علاقوں میں بہتر نہیں تھی اور ان کے آئی جی ہوتے ہوئے کئی آپریشن کئے گئے جن میں سے ماسوائے ایک دو باقی تمام آپریشنز ناکام رہے۔ اس کے نتیجے میں ڈاکوئوں کا حوصلہ اور بڑھا۔

پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کے لئے چھ ارب روپے کے خصوصی فنڈز بھی جاری کیے تھے۔ جن میں آپریشن پر ہونے والے اخراجات کے ساتھ ضلع گھوٹکی میں بچائو بند پر 62 پولیس کی چوکیاں بھی تعمیر کی گئی تھیں۔ لیکن وہ چوکیاں عملی طور پر اس لئے بھی غیر فعال ہیں کہ بیشتر پولیس اہلکار چوکیوں میں بیٹھنے کے لئے تیار نہیں۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پولیس اہلکاروں کے مقابلے میں ڈاکوئوں کے پاس انتہائی جدید قسم کا اسلحہ ہے۔ اور وہ جب چوکیوں پر حملے کرتے ہیں تو ایک دو درجن کی صورت میں نہیں بلکہ پچاس ساٹھ ڈاکو موٹر سائیکلوں پر آکر حملہ کرتے ہیں۔ اس لیے بیشتر پولیس اہلکار ڈیوٹی سے غیر حاضر رہنے میں اپنی عافیت جانتے ہیں۔

نگراں صوبائی حکومت نے بھی گھوٹکی ، کشمور ، شکارپور اور سکھر کے کچے کے علاقوں میں ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کے لئے دو ارب روپے کی خصوصی گرانٹ جاری کی تھی۔ لیکن پھر بھی ڈاکوئوں کا قلع قمع نہیں ہوسکا۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ ناصرف پولیس اہلکار بلکہ ایس ایس پی سطح کے پولیس افسران بھی مذکورہ اضلاع میں ڈیوٹی کرنے سے گھبراتے ہیں۔ اس سلسلے میں تقریباً ایک ماہ قبل موٹر وے پر بگٹی قبیلے کے ایک سردار کے بیٹے کے قتل کے بعد اس وقت کے ایس ایس پی گھوٹکی انور کھیتران نے اعلیٰ حکام کو ایک لیٹر کے ذریعے سفارش کی تھی کہ جب تک پولیس کے ساتھ دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مشترکہ آپریشن نہیں ہوگا جب تک صورتحال بہتر نہیں ہوگی۔

حکومت سندھ نے جن خطرناک ڈاکوئوں کے نام نوٹیفائی کئے ہیں ان کی تعداد تقریباً 250 ہے۔ جن کے سر کی قیمت 45 کروڑ روپے ہے۔ ان میں سے 90 فیصد سے زائد ڈاکوئوں کی آماجگاہیں گھوٹکی، کشمور، شکارپور، لاڑکانہ، خیرپوراور ضلع قمبر شہداد کوٹ میں ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے عمرے کی سعادت حاصل کرنے پر روانہ ہونے سے قبل اعلان کیا تھا کہ نئے آئی جی کی تعیناتی کے بعد کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف گرینڈ آپریشن شروع کیا جائے گا اور ایسا ہی اعلان صوبائی وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار بھی کرچکے ہیں۔ پہلے صوبائی وزیر داخلہ کو یہ گلہ تھا کہ وفاقی حکومت کو نئے آئی کے لئے انہوں نے جو سفارشات ارسال کی ہیں ان پر عملدرآمد نہیں ہورہا لیکن ان کا یہ شکوہ بھی بالآخر ختم ہوگیا۔

دو روز قبل رفعت مختار کی جگہ غلام نبی میمن کے آئی جی سندھ تعینات ہونے کا نوٹیفکیشن جاری ہوچکا۔ صوبائی وزیر داخلہ یہ اعلان بھی کرچکے ہیں کہ وہ خود آئی سندھ پولیس کے ساتھ وہاں جاکر کیمپ قائم کریں گے۔ اور ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کی نگرانی کریں گے۔

اس ضمن میں پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک دو روز سے ضلع کشمور کے کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کی شروعات کی گئی ہے ۔ مذکورہ آپریشن میں پولیس کے ساتھ رینجرز کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ تاہم ابھی تک گرینڈ آپریشن شروع نہیں ہوسکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ گرینڈ آپریشن کے نتائج کیا سامنے آتے ہیں۔