ممکنہ مذاکرات میں علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر محمد علی سیف کا کردار اہم ہوگا، فائل فوٹو
 ممکنہ مذاکرات میں علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر محمد علی سیف کا کردار اہم ہوگا، فائل فوٹو

عمران کی بچت کا واحد راستہ اعتراف جرم اور معافی

امت رپورٹ:
عمران خان کی بچت کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ سانحہ 9 مئی کے حوالے سے سرکاری ٹی وی پر آکر اعتراف جرم کریں اور معافی مانگ لیں۔ مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن نہیں۔ باقی سب فسانے ہیں۔

گزشتہ برس اگست میں بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری سے لے کر آج تک ان کی رہائی یا انہیں رعایت نہ دینے سے متعلق کوئی نہ کوئی خبر میڈیا کی زینت بنتی چلی آرہی ہے۔ تازہ گونج ایک معروف تاجر کی جانب سے عمران خان سے ہاتھ ملانے کی تجویز کی ہے۔

بدھ کو کراچی میں تاجر برادری کے ایک اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے معروف کاروباری شخصیت عارف حبیب نے کہا ’’آپ نے پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں سے ہاتھ ملایا۔ میں چاہتا ہوں کہ ایک ہاتھ آپ بھارت سمیت پڑوسیوں سے ملائیں اور دوسرا ہاتھ اڈیالہ جیل کے باسیوں سے ملائیں‘‘۔ یہ خواہش اجلاس میں شریک متعدد تاجر رہنمائوں میں سے صرف ایک کی تھی اور خاص طور پر اڈیالہ جیل کے باسیوں سے ہاتھ ملانے کی تجویز کو اجلاس کے دیگر شرکا کی تائید حاصل نہیں ہوسکی کہ اس پر ایک تالی بھی نہیں بجی۔ تاہم اسے غلط رپورٹ کرتے ہوئے تاجر برادری کی تجویز سے قرار دیا گیا۔ حالانکہ یہ صرف ایک تاجر رہنما کی خواہش تھی۔ جسے پذیرائی نہیں ملی۔

اسی طرح معروف صحافی انصار عباسی کا ایک کالم بھی موضوع بحث ہے۔ جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تین اہم شخصیات عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان معاملات سلجھانے کے لئے سوچ بچار کر رہی ہیں۔

اس سارے معاملے پر جب ’’امت‘‘ نے اہم حلقوں تک رسائی رکھنے والے ایک ذریعے سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا ’’عمران خان کے پاس اپنی بچت کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ ڈاکٹر عبدالقدیر کی طرح سرکاری ٹی وی پر سانحہ 9 مئی کے حوالے سے نہ صرف اعتراف جرم کریں۔ بلکہ معافی بھی مانگیں تو بات بن سکتی ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں۔

اس کے علاوہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی یا انہیں رعایت دینے سے متعلق پچھلے کئی ماہ سے جو خبریں چل رہی ہیں۔ وہ سب فسانے ہیں۔ عمران خان کو رعایت دینے سے متعلق کوئی فرمائش یا دبائو خاطر میں نہیں لایا جارہا‘‘۔ ذریعے کے بقول ظاہر ہے کہ یہ امکان کم ہے کہ عمران خان اپنی بچت کے اس واحد راستے کو اختیار کرتے ہوئے ٹی وی پر اعتراف جرم اور معافی مانگ لیں۔ کیونکہ یہ ایک طرح سے ان کی سیاسی موت ہوگی۔

اس صورتحال میں یہ واضح ہے کہ اگر کوئی انہونی نہ ہوجائے تو 9 مئی کے حوالے سے ان کی سزا ناگزیر ہے اور رعایت ملنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ باقی اس حوالے سے خبریں چلتی رہیں گی۔ ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ ذریعے کا یہ بھی کہنا تھا کہ سانحہ 9 مئی میں ملوث جن بیس افراد کو رہا کیا گیا ہے۔ انہوں نے اعتراف جرم کیا اور سزا بھگتنے کے بعد انہیں رہائی ملی۔ اس سزا میں محض دو تین ماہ کی رعایت دی گئی۔ پھر یہ کہ رہا ہونے والے منصوبہ ساز مددگار یا سہولت کار نہیں تھے۔ معمولی جرم کا مرتکب ہوئے۔ اسی لیے سزا بھی کم سنائی گئی۔

جن لوگوں نے یہ منصوبہ ترتیب دیا اور بغاوت کرانے کی کوشش کی۔ انہیں کسی قیمت پر نہیں چھوڑا جائے گا اور طویل سزائیں ہوسکتی ہیں۔ ذریعے کے مطابق اگر 9 مئی کی سازش کامیاب ہوجاتی توایک روایت بن جاتی اور ہر مختصر وقفے کے بعد یہاں بغاوت ہو رہی ہوتی۔ لہٰذا اس سازش کے منصوبہ سازوں کو سزا دینی اس لئے بھی ضروری ہے کہ کل کسی کو ایسی جرات نہ ہوسکے۔

ذریعے کا کہنا تھا کہ ابتدائی عمران خان پروجیکٹ دس برس کا تھا۔ اس میں مزید توسیع ہونی تھی۔ اگلے مرحلے میں عمران خان کو دو تہائی اکثریت دلانے کا پلان تھا۔ جس کے بعد ملک میں صدارتی نظام لانے کیلئے آئینی ترامیم کی جاتیں اور پھر عمران خان نے تاحیات صدر مملکت بننا تھا۔ تاہم یہ مجوزہ پلان قبل از وقت ناکام ہوگیا۔ یہ پلان دو ہزار گیارہ میں بنایا گیا تھا۔ تاہم ایسے واقعات اور صورتحال پیدا ہوئی کہ جو لوگ اس پروجیکٹ میں شریک تھے۔

انہوں نے سوچا کہ جس گھوڑے پر دائو لگایا گیا تھا، وہ کھوٹا نکلا۔ وہ ہینڈسم بھی تھا۔ مقبول بھی تھا۔ لیکن عقل نہیں تھی۔ سب باتیں برداشت کی جاسکتی ہیں۔ لیکن جب پروجیکٹ کے معماروں نے دیکھا کہ ملک کی معیشت ڈوب رہی ہے تو پھر ذہن تبدیل ہوگیا۔ عمران خان کا اقتدار طویل ہوتا تو ملک دیوالیہ ہوجاتا۔ اگر کوئی ملک دیوالیہ ہوجائے تو پھر سنبھلنا مشکل ہوجاتا ہے اور قومی اثاثوں سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔

ذریعے کے بقول بعد کی داستان یہ ہے کہ عمران خان کی اپنی حماقتوں سے انہیں یہ دن دیکھنا پڑے۔ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے مرکز میں ان کی حکومت گرگئی تھی۔ لیکن ان کے لئے دوبارہ اٹھنا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ابھی پی ٹی آئی کی پنجاب، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں حکومتیں قائم تھیں۔ لیکن احمقانہ سیاسی فیصلے کرتے ہوئے عمران خان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتیں تحلیل کر دیں۔ اگر وہ یہ نالائقیاں نہیں کرتے تو عام انتخابات بھی بہت پہلے ہوچکے ہوتے۔ آخر کار جنرل الیکشن ہوگئے۔ امریکا سمیت دنیا بھر نے نئی حکومت کو تسلیم کرلیا۔ آئی ایم ایف بھی مہربان ہوچکا۔ یوں پی ٹی آئی کے سارے کارتوس فیل ہوگئے۔ رہی سہی کثر حالیہ ضمنی الیکشن میں ناکامی نے پوری کر دی۔ اب وہ صرف سوشل میڈیا پر زندہ ہے۔

ادھر انصار عباسی نے اپنے کالم میں کہا ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان معاملات کو سلجھانے کیلئے فی الحال تین اہم شخصیات سوچ بچار کر رہی ہیں۔ ان میں دو سابق وفاقی وزرا ہیں اور تیسری شخصیت ایک معروف ریٹائرڈ تھری اسٹار جنرل ہیں۔ تاہم انہوں نے ان تینوں شخصیات کے نام ظاہر نہیں کیے۔ نہیں معلوم وہ کس ریٹائرڈ تھری اسٹار جنرل کی بات کر رہے ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی کی طرف جھکائو رکھنے والے ایک ریٹائرڈ تھری اسٹار جنرل تو مختلف یوٹیوبرز کے ساتھ ولاگ میں کئی مرتبہ علی الاعلان یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ وہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین تعلقات بہتر بنانے کیلئے اپنا رول ادا کر رہے ہیں۔

تاہم اس بارے میں جب اہم ذرائع سے رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ محض بڑھکیں ہیں۔ اول تو مذکورہ ریٹائرڈ افسر کی متعلقہ ادارے تک رسائی بند ہوچکی ہے۔ بلکہ موصوف کو کچھ عرصہ پہلے تک یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کہیں وہ بھی زیر عتاب نہ آجائیں۔ اس خوف کا اظہار وہ اکثر اپنے قریبی دوستوں سے کرتے رہتے تھے۔ انہی میں سے ایک دوست نے یہ بات ’’امت‘‘ کو بتائی۔ موصوف نہ صرف پی ٹی آئی کے ڈائے ہارٹ سپورٹر ہیں۔ بلکہ ان کی خواہش تھی کہ اگلی حکومت بھی پی ٹی آئی کی بن جائے۔ اس صورت میں وہ قومی سلامتی کے مشیر کا عہدہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ماضی میں وہ اہم حکومتی عہدوں پر رہ چکے ہیں۔ اب وہ اس طرح کی پیشن گوئیاں کرتے پھر رہے ہیں کہ موجودہ حکومت محض ڈیڑھ برس تک چلے گی ؎ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔