فائل فوٹو
فائل فوٹو

ایچی سن کالج کے پرنسپلز پر سیاسی دبائو نیا نہیں

امت رپورٹ:
ایچی سن کالج کے پرنسپلز پر سیاسی دبائو کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں بھی اس طرح کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس بار کا ایشو حد درجہ ہائی لائٹ ہوگیا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے اور پھر یہ کہ دہائی دینے والا ایک گورا پرنسپل ہے۔

قریباً نو برس قبل دو ہزار پندرہ میں اسی نوعیت کی دہائی ڈاکٹر آغا غضنفر نے بھی دی تھی۔ لیکن اس طرح کی پریس کانفرنسیں ہوئی نہ میڈیا پر زیادہ واویلا مچایا گیا۔ آغا غضنفر ایچی سن کالج کے سترہویں پرنسپل تھے۔ پرنسپل کی مدت عموماً آٹھ برس ہوتی ہے۔ تاہم انہیں ایک سال کے اندر چلتا کردیا گیا تھا۔ صرف یہی نہیں کہ انہیں کالج سے نکالا گیا۔ بلکہ کالج انتظامیہ نے ان سے کار بھی چھین لی تھی۔آغا غضنفر پر الزام تھا کہ انہوں نے خلاف میرٹ داخلے کیے۔ حالانکہ ان کے دور میں کسی داخلے کو چیلنج نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم بورڈ آف گورنرز کی اکثریت نے انہیں عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ سنادیا۔

ڈاکٹر آغا غضنفر کا موقف تھا کہ انہیں میرٹ کی بالادستی کی سزا دی جارہی ہے۔ اور یہ کہ داخلوں کے حوالے سے ان پر بااثر حلقوں کی جانب سے شدید دبائو تھا۔ کئی اہم سیاستدان اپنے قریبی عزیزوں کو خلاف میرٹ داخلہ دلانا چاہتے تھے۔ تاہم انہوں نے انکار کردیا۔ جس کے بعد بااثر سیاستدان ان کے خلاف ہوگئے اور ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے بورڈ آف گورنرز نے بھی انہیں ہٹانے کی سفارش کردی۔ تاہم ڈاکٹر آغا غضنفر کی یہ دہائی کسی کام نہ آسکی اور انہیں عہدے سے فارغ کردیا گیا تھا۔ جس پر ڈاکٹر غضنفر لاہور ہائی کورٹ چلے گئے۔ عدالت نے انہیں بحال کردیا۔ تاہم جب وہ اپنا چارج سنبھالنے کالج پہنچے تو انتظامیہ نے انہیں نہ صرف کالج کے احاطے میں داخل ہونے سے روک دیا۔ بلکہ ان کی سرکاری گاڑی بھی چھین لی تھی۔ جس کی ایف آئی آر انہوں نے ریس کورس پولیس اسٹیشن میں درج کرائی تھی۔ لیکن کوئی شنوائی نہ ہوسکی اور آخر کار ڈاکٹر غضنفر کو خاموش ہوکر بیٹھنا پڑا۔ کیونکہ میڈیا بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ جو آج ایک گورے پرنسپل کے استعفے پر ہلکان ہو رہا ہے اور ان کے حق میں ٹاک شوز پر ٹاک شوز کیے گئے۔سوشل میڈیا پر طوفان برپا کیا گیا۔

ڈاکٹر آغا غضنفر کے بعد ایچی سن کالج کے اگلے پرنسپل مائیکل تھامسن تھے۔ آسٹریلوی ماہر تعلیم اس سے قبل نائیجریا اور بھارت میں سرکاری اسکولوں کے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر کام کرتے رہے۔ تھامسن نے فروری دو ہزار سولہ میں ایچی سن کالج کے پرنسپل کے طور پر اپنا عہدہ سنبھالا۔ اپنے نو سالہ دور میں یہ پہلا موقع نہیں کہ انہوں نے بطور احتجاج استعفیٰ دیا ہو۔ دو ہزار اٹھارہ میں کشمالہ طارق کے بیٹے کے معاملے پر بھی وہ مستعفی ہوئے تھے۔ تب بھی انہیں گورنر کے رویہ پر شکایت تھی۔ لیکن انہیں منالیا گیا۔

اس بار بھی خبریں چل رہی ہیں کہ حکومت پرنسپل تھامسن کو منانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگر وہ مان بھی گئے، تب بھی اگست میں ان کی مدت ملازمت پوری ہورہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تھامسن کے دور میں ایچی سن کالج نے نمایاں کارکردگی دکھائی۔ لیکن ہر تنازعہ پر استعفیٰ دینا بھی ان کی خاصیت رہی۔ دو ہزار اٹھارہ میں ان کا استعفیٰ سابق رکن قومی اسمبلی کے بیٹے کے معاملے پر آیا تھا۔ یہ قصہ اس وقت شروع ہوا، جب ٹیسٹ امتحانات کے دوران کشمالہ طارق کے بیٹے اذلان خان سمیت کالج کے بارہ طلبہ کو جھگڑا کرنے پر پرنسپل تھامسن نے اگلی کلاس میں داخلہ دینے سے انکار کردیا تھا۔

بعد ازاں گیارہ طلبہ کی سزا ختم کرکے انہیں اگلی کلاس میں داخلہ دے دیا گیا۔ تاہم اذلان کو یہ رعایت نہیں دی گئی۔ جس پر کشمالہ طارق اس وقت کے انصافی گورنر پنجاب چوہدری سرور کے پاس اپنی شکایت لے کر چلی گئیں۔ چوہدری سرور نے اس شکایت کا نوٹس لیتے ہوئے واقعہ کی تحقیقات کے لئے ایک انکوائری کمیٹی بنادی۔ اس اقدام پر برہم ہوتے ہوئے پرنسپل تھامسن نے استعفیٰ دیدیا تھا۔ ان کا کہنا تھا ’’وہ ان حالات میں کام نہیں کرسکتے‘‘۔ تاہم چوہدری سرور کی مداخلت پر انہوں نے استعفیٰ واپس لے لیا۔ کشمالہ طارق کا موقف تھا، پرنسپل نے غیر منصفانہ طور پر باقی طلبہ کو اگلی کلاس میں داخلہ دیدیا اور ان کے بیٹے کو داخلہ دینے سے انکار کیا۔

اگر تازہ واقعہ کو دیکھا جائے تو وفاقی وزیر احد چیمہ کے لئے اپنے دو بچوں کی فیسیں معاف کرانے اور ساتھ ہی سیٹیں بھی ریزرو رکھنے کا مطالبہ کرنا کالج کی پالیسی کے برخلاف تھا اور ایک صاحب حیثیت وزیر کے لئے، جن کی اہلیہ بھی اعلیٰ سرکاری ملازم ہوں، یہ فیسیں مونگ پھلی کا دانہ تھیں۔ تاہم انہوں نے گورنر کے ذریعے دبائو ڈال کر اپنا مطالبہ پورا کرانے کی کوشش کی۔ جو بیک فائر کر گئی۔ حتیٰ کہ سوشل میڈیا پر نون لیگ کے حامیوں نے بھی وفاقی وزیر کے اس عمل پر کھل کر تنقید کی۔

البتہ نون لیگی گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے الزام عائد کیا کہ پرنسپل ایچی سن کالج مائیکل تھامسن ایک سال میں ایک سو سے زائد چھٹیاں کرتے تھے۔ انہوں نے انکوائری سے بچنے کے لئے استعفے کا حربہ اپنایا، اور یہ کہ پرنسپل تھامسن کی تنخواہ چالیس لاکھ روپے ماہانہ ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے بھی پرنسپل کے خلاف دھواں دھار پریس کانفرنس کی۔ تاہم اب ان کی جانب سے ہی پرنسپل تھامسن کو منانے کی خبریں چل رہی ہیں۔