خط ایک طے شدہ منصوبہ لگتا ہے، فائل فوٹو
خط ایک طے شدہ منصوبہ لگتا ہے، فائل فوٹو

ججز کے خط نے کئی سوالات اٹھا دیے

امت رپورٹ:
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ جج صاحبان کی جانب سے عدالتی امور میں خفیہ ایجنسی کی مداخلت کے الزام کے بارے میں سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط نے کئی سوالات اٹھادیئے ہیں۔ جن کے جوابات ملنا نہایت ضروری ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ججز کے الزامات کی شفاف انکوائری ہونی چاہیے اور اس نوعیت کی مداخلت کسی طور پر قابل قبول نہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ان فیصلوں کو دیکھنا ہوگا۔ جن میں عمران خان کو حد درجہ ریلیف دینے کے الزامات لگائے جاتے رہے۔ کیونکہ فیصلے چاہے دبائو کے تحت کئے جائیں یا کسی کی محبت میں دیئے جائیں۔ آئین اور ججز کے حلف کے خلاف ہیں۔

اس سارے قضیے میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ خط کے مطابق ججز نے ایک سے زائد مرتبہ اپنی شکایات اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے بیان کیں۔ یہ معاملہ قریباً پچھلے ایک برس سے چل رہا تھا، تو اس وقت یہ باتیں لیک کیوں نہ ہوئیں۔ جبکہ چھ ججز کا یہ خط فوری لیک ہوگیا۔ یہ خط کس نے لیک کیا؟

یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ ان ججز کے قریب تصور کیے جانے والے ایک کورٹ رپورٹر نے خط منظر عام پر آنے سے چند گھنٹے پہلے ہی ٹویٹ کی ’’لاوا پھٹ سکتا ہے‘‘۔ اسے یہ بات کیسے معلوم ہوئی۔ جبکہ یہ خط پی ٹی آئی کے حامی ٹویٹر اکائونٹ سے وائرل کیا گیا۔ اس سے یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ سب کچھ طے شدہ تھا۔ ہر واقعہ میں ٹائمنگ بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ایک سو نوے ملین پائونڈ کا اہم ترین مقدمہ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جس میں عمران خان، بشریٰ بی بی، ملک ریاض اور کئی لوگ ملزم ہیں۔ یہ خط منظر عام پر آیا۔ جس سے پی ٹی آئی کو ایک نیا بیانیہ مل گیا۔

خط کے مضمون کے مطابق ان چھ ججز نے ’’خفیہ مداخلت‘‘ کے معاملے سے پچھلے برس اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو بھی آگاہ کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے تب ایکشن کیوں نہ لیا اور ان کے ایکشن نہ لینے پر یہ چھ معزز جج صاحبان پورے ایک برس خاموش کیوں بیٹھے رہے؟ انہوں نے اسی طرح کا خط لکھ کر طوفان برپا کیوں نہیں کیا؟

موجودہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے آنے کا انتظار کیوں کیا گیا؟ خط میں جن واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ تمام اس وقت کے ہیں، جب جسٹس بندیال، چیف جسٹس پاکستان تھے۔ اس کے دو اسباب ہوسکتے ہیں۔ یا تو جسٹس بندیال ان الزامات کو سنجیدہ نہیں سمجھتے تھے یا انہیں یہ خوف تھا کہ اگر انہوں نے ایکشن لیا تو جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بغیر انکوائری کے برطرف کرنے کا مقدمہ کمزور ہوجائے گا۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ جب جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے خفیہ مداخلت کے حوالے سے راولپنڈی بار سے خطاب کیا تھا تو ان کے برادر جج محسن اختر کیانی، جو اس خط کے سرخیل سمجھے جاتے ہیں، کیوں خاموش رہے۔ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ تب یہ مداخلت یا دبائو ایسی پارٹی کے خلاف فیصلہ لینے کے لئے ڈالا گیا تھا، جو انہیں پسند نہیں تھی۔

پھر یہ کہ جسٹس صدیقی نے تو باقاعدہ افسروں کے نام، کیس، ٹائم اور مقام کا ذکر کرکے الزام لگایا تھا۔ مذکورہ چھ ججز نے اپنے خط میں گول مول بات کرکے ایک جنرل الزام لگایا ہے۔ اگر ان الزامات کی انکوائری ہوتی ہے تو ان ججوں کو الزامات ثابت بھی کرنے ہوں گے۔ اپنی عدالتوں میں بھی وہ ٹھوس شواہد مانگتے ہیں۔ ورنہ ملزم کو ناکافی شواہد کی بنا پر بری کردیا جاتا ہے۔

یہ بھی سنگین معاملہ ہے کہ چھ ججز نے اپنے خط میں پچھلے ایک برس کے دوران ہونے والے جن واقعات کا ذکر کیا ہے۔ اس عرصے میں انہوں نے جو بھی عدالتی فیصلے کیے۔ ان کے آگے سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ کیونکہ خط میں لگائے گئے الزامات کی رو سے یا تو یہ فیصلے دبائو میں کیے گئے، یا پھر ضد اور غصے میں کیے گئے۔ کیونکہ انسانی فطرت ہے کہ یا تو دبائو کے آگے گھٹنے ٹیک دیے جاتے ہیں، یا پھر غصے بھرا ردعمل دیا جاتا ہے۔

یہ بھی قابل غور ہے کہ خط میں ذکر کیا گیا ہے کہ دھمکیوں اور دبائو کے باعث ایک جج کا بلڈ پریشر اتنا بڑھ گیا کہ انہیں اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ یہ بڑا خطرناک پہلو ہے۔ کم از کم اعلیٰ عدالت کے ججز کے اعصاب عام آدمی سے کہیں زیادہ مضبوط ہونے چاہئیں۔ بصورت دیگر یہ امکان موجود رہتا ہے کہ گلی کا کوئی غنڈہ یا کوئی شدت پسند یا دہشت گرد تنظیم ایسے جج کو آسانی سے دھمکا کر اپنا فیصلہ لے سکتی ہے۔ خود ججز نے اپنے خط میں اعتراف کیا ہے کہ ہر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس شوکت صدیقی جیسا بہادر نہیں ہوتا۔ نہ جانے ماضی میں کتنے ایسے فیصلے سنائے گئے ہوں گے۔ جس میں عام مظلوم سائل فریاد کرتا رہ گیا ہو اور کسی کمزور اعصاب والے جج نے دبائو میں آکر زور آور ظالم کو سرخرو کردیا ہو۔ نچلے درجے کی عدالتوں میں تو ایسے بے شمار قصے سننے میں آتے رہے ہیں۔ لیکن ججز کے خط نے یہ الارم بجایا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے جج بھی اس بشری کمزوری سے مستثنیٰ نہیں۔ یہاں یہ بھی قابل غور نکتہ ہے کہ خط لکھنے والے چھ ججز میں سے ایک جسٹس محسن اختر کیانی کے خلاف سنگین الزامات پر مبنی ایک ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کہیں اس ریفرنس اور خط کا بھی آپس میں کوئی تعلق تو نہیں؟

ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کے معاملے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس ہوا۔ بدھ کی شام اس رپورٹ کے فائل کرنے تک اس اجلاس کا اعلامیہ جاری نہیں ہوا تھا۔ دوسری جانب اس خط میں لگائے گئے الزامات کی اوپن کورٹ تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست بھی دائر کر دی گئی ہے۔ میاں دائود ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ میں دائر اپنی آئینی درخواست میں کہا ہے کہ ایک بااختیار کمیشن تشکیل دے کر معاملہ کی مکمل تحقیقات کرائی جائے۔

درخواست گزار کے بقول اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کا خط ایک طے شدہ منصوبہ لگتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے اشارے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے خط لکھا ہے۔ میاں دائود ایڈووکیٹ کے مطابق ججز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنے پر بھی سارا معاملہ مشکوک ہوگیا ہے۔ کیونکہ یہ آئینی نکتہ نظام عدل سے وابستہ عام فرد بھی جانتا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایسے تنازعات کی تحقیقات کا ادارہ نہیں۔ بظاہر یہ تحقیقات کے بجائے محض عدلیہ کو متنازعہ بنانے کی کوشش ہے۔