اشرف غنی دور کے بعض حکام کے قبضے میں اب بھی بیش بہا نوادرات موجود ہیں، فائل فوٹو
 اشرف غنی دور کے بعض حکام کے قبضے میں اب بھی بیش بہا نوادرات موجود ہیں، فائل فوٹو

افغان نوادرات یورپی میوزیمز کی زینت بن گئے

محمد قاسم :
ناٹو ممالک نے بیس سالہ جنگ کے دوران افغانستان سے6 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے 5 ہزار سال پرانے نوادرات لوٹ کر یورپ کے میوزیمز میں رکھ دیئے۔ کابل طالبان کے حوالے کرنے سے قبل محفوظ کارٹن میں قیمتی اشیا منتقل کیے گئے۔

ذرائع کے مطابق ناٹو میں شامل یورپی ممالک کے آثار قدیمہ نے 5 ہزار سال پرانے افغان نوادرات کو یورپ منتقل کر دیئے جس کی مالیت تقریباً 6 ارب ڈالر کے قریب بتائی جاتی ہے۔ جبکہ بعض اہم نوادرات سابق حکومتی اہلکار اپنے ساتھ لے گئے اور بعدازاں یورپ میں فروخت کر دیئے۔ یورپی میوزیم قوانین کے مطابق کسی بھی ملک کے تاریخی اثاثہ جات یورپ میں فروخت نہیں ہو سکتے اور نہ ہی اس کو میوزیم کے لیے عطیہ کیا جا سکتا ہے تاہم حفاظتی نقطہ نظر سے ان آثار قدیمہ کے آثار کو امانتاً رکھا جا سکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق جرمنی، اسپین، فرانس، برطانیہ سمیت دیگر یورپی ممالک جن کے افواج افغانستان میں موجود تھیں اور جب قطر مذاکرات کامیابی کی طرف جارہے تھے تو ان ممالک کے اہلکاروں نے طالبان سے محفوظ رکھنے کے نام پر یہ نوادرات یورپ منتقل کر دیے جن میں 5000 سال قبل کے بدھ مت کی مورتیاں، پرشین ایمپائر کے زیورات، دارا کے دور حکومت کی مورتیاں اور دیگر آثار قدیمہ شامل ہیں۔

اب یہ زیورات اور آثار قدیمہ کے نوادرات ان ممالک کے قومی زبان کی تفصیلات کے ساتھ موجود ہیں اور ہر تفصیل کے آخر میں لکھا گیا ہے کہ ان نوادرات کو ماہرین آثار قدیمہ نے طالبان سے بچانیکیلئے محفوظ مقامات پر منتقل کر دیے ہیں۔ کیونکہ طالبان مورتیوں اور ان زیورات کو تباہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جن پر جانوروں اور انسانوں کے نقش موجود ہوں۔ چونکہ یہ کام یورپی اہلکاروں نے تاریخ بچانے کے لیے کیا ہے۔ اس لیے ان کو محفوظ مقام پر منتقل کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق یورپ کے ماہرین نے بدھ مت کے بامیان میں طالبان کے ہاتھوں 1996ء میں تباہی کو بنیاد بنایا ہے۔ تاہم ملا عمر کے دور حکومت 1996-2001ء تک افغانستان کے طول و عرض میں میوزیموں میں موجود نوادرات کو کچھ نہیں کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق یورپی میوزیمز نے ان خطرات کے پیش نظر ان نوادرات کو سجا کر ڈالر کمانا شروع کر دیے ہیں جبکہ کئی یونیورسٹیوں کے طلبہ کو ان پر Phd کرنے کی اجازت دی ہے۔ ان آثار میں سونے کے قیمتی کئی ہار بھی موجود ہیں جن کی مالیت کروڑوں ڈالر ہے۔ ذرائع کے مطابق طالبان کو ان نوادرات کے حوالے سے کوئی علم نہیں ہے کہ کتنے مالیت کے نوادرات یورپ منتقل ہوئے ہیں۔

جبکہ طالبان حکومت کے یورپی ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے ان نوادرات کی واپسی میں رکاوٹیں ہیں اور طالبان کو ان تک رسائی کا امکان نہیں ہے۔ تاہم طالبان اقوام متحدہ کے ذریعے ان نوادرات کو واپس لا سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق طالبان حکومت اگر اقوام عالم اور اقوام متحدہ کو یقین دہانی کرائے کہ ان مورتیوں اور آثار قدیمہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے تو یورپی میوزیم ان نوادرات کو واپس کر سکتے ہیں۔ تاہم تحریری یقین دہانی کرانا ہو گی۔

دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت نے اس سے قبل ایک اپیل جاری کی تھی کہ جن لوگوں کے پاس آثار قدیمہ کے نوادرات ہیں وہ انعامی رقم لے کر حکومت کے پاس جمع کرائیں اور جو رضاکارانہ طور پر جمع کرائیں گے انہیں سرٹیفکیٹ دیا جائے گا۔ جبکہ ملک سے باہر سے جانے والے آثار قدیمہ کے قیمتی نوادرات واپس لانے کے لیے بھی ایک کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔

افغان حکومت کے جاری سروے کے مطابق افغانستان سے تقریباً 29 ہزار قیمتی نوادرات غائب ہوئے ہیں جن میں اکثریت یورپ کی مارکیٹ میں موجود ہے جبکہ بعض قیمتی نوادرات اشرف غنی حکومت کے حکومتی اہلکاروں نے لوٹ کر اپنے پاس رکھے ہیں، تاکہ مناسب وقت میں فروخت کریں کیونکہ آج کل آن لائن فروخت ہورہی ہے اور آکشن Auction بھی آن لائن ہوتا ہے،اکثر نامعلوم خریدار نامعلوم فروخت کنندہ سے چیز حاصل کر لیتے ہیں۔