افغان طالبان اور امریکا میں کوئی فرق نہیں رہا، انتظامی عہدیدار، فائل فوٹو
 افغان طالبان اور امریکا میں کوئی فرق نہیں رہا، انتظامی عہدیدار، فائل فوٹو

طالبان حکومت نے دو مذہبی چینلز بند کر دیے

محمد قاسم :
افغان طالبان کی حکومت نے اپنے سیاسی مخالفین کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ حزب اسلامی اور جمعیت اسلامی کے ٹی وی چینلز بند کر دیے۔ بریا ٹی وی پر صرف قرآن و حدیث کے درس اور اصلاحی پروگرام پیش کیے جارہے تھے اور نور ٹی وی بھی صرف مذہبی پروگرام پیش کر رہا تھا۔

’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق افغان طالبان نے دو معروف ٹی وی چینلز بریا ٹی وی اور نور ٹی وی کو ایک کمیٹی کی اس سفارش پر بند کر دیا ہے کہ اس سے طالبان حکومت کو خطرہ ہے۔

ذرائع کے مطابق بریا یٹ وی چینل حزب اسلامی کا ہے اور اس پر حزب اسلامی کے سربراہ اور سابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار درس قرآن اور دیگر علمائے کرام درس حدیث دیتے تھے۔ دن میں صرف دو بار ملکی و علاقائی خبریں نشر ہوتی تھیں۔ تاہم اس چینل کے ذریعے افغان طالبان کی جانب سے بعض غلط شرعی تشریح پر علمائے کرام نکتہ چینی کرتے اور طالبان کے بعض فیصلوں کو شریعت سے متصادم قرار دیتے تھے۔ جس کا طالبان کے پاس کوئی شرعی جواب نہیں تھا۔

بریا ٹی وی کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ دراصل بریا ٹی وی افغانستان کے چند مقبول چینلز میں سے ایک تھا۔ طالبان کے بعض حکومتی اور تنظیمی عہدیداروں نے چینل پر اپنے پروگرامات نشر کرنے اور درس و تدریس کیلئے پرائم ٹائم مانگا، جو انتظامیہ نے رد کر دیا۔ جس پر طالبان نے چینل پر درس و تدریس بند کرنے کا حکم جاری کردیا۔ لیکن ٹی وی انتظامیہ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔

بدھ کے روز طالبان نے محکمہ اطلاعات کی ایک ذیلی کمیٹی کے اجلاس کے فیصلے پر ٹی وی چینل کی نشریات بند کر دیں۔ ذرائع کے مطابق طالبان نے چینل انتظامیہ کو بتایا ہے کہ تاحکم ثانی نشریات پر پابندی ہے۔ جس پر حزب اسلامی کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمت یار نے طالبان کے فیصلے پر مزاحمت نہ کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ اس طرح کے حربے انہیں دین کی دعوت سے باز نہیں رکھ سکتے۔

دوسری جانب حکمت یار صاحبزادے اور بریا ٹی وی کی انتظامیہ میں شامل حبیب الرحمن حکمت یار نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ حکومتی کمیٹی کا فیصلہ صرف بہانہ ہے۔ طالبان نے پہلے نیوز چینلز بند کروائے اور پھر صحافیوں کو ملک سے نکلنے پر مجبور کیا۔ اب مذہبی چینلز بھی بند کرنا شروع کر دیئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ عوام کا رجحان بریا ٹی وی اور نور ٹی وی کی جانب تھا۔ اسی لیے اسے بند کیا گیا۔ لیکن طالبان کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے اور اس طرح اداروں کو بند نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سیکولر ٹی وی چینلز تو باہر ممالک سے آپریٹ ہو رہے ہیں۔ لیکن اسلامی چینلز کو افغانستان میں اجازت نہ دینا کون سی شریعت ہے۔ دوسری جانب جمعیت اسلامی کے سربراہ صلاح الدین ربانی نے تصدیق کی ہے ان کی پارٹی کا چینل نور ٹی وی بھی بند کر دیا گیا ہے۔

نور ٹی وی کے ایک عہدیدار امین صلاح نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ نور ٹی وی پر تو خبریں بھی نشر نہیں ہوتی تھیں۔ صرف درس و تدریس، قرآن و سنت کی مجالس اور نعت خوانی اور درود شریف کی مجالس منعقد ہوتی تھیں۔ لیکن طالبان کو صرف اپنی ذاتی تشہیر چاہیے تھی۔ جو ممکن نہیں۔ طالبان کے کئی رہنمائوں نے قرأت اور درس کیلئے پروگرام کرنے کیلئے وقت مانگا جو اس لیے نہیں دیا جا سکتا کہ طالبان کے اقدامات کا اسلامی شریعت سے کوئی واسطہ نہیں اور افغان قوم طالبان کے خودساختہ شرعی نظام کے خلاف ہے۔ جبر اور طاقت کے زور پر اسلام کے وہ احکامات جو طالبان کو فائدہ دے رہے ہیں، وہی نافذ کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’’ہم نے اس سے قبل بھی اس حوالے سے ماضی کی حکومت کے مطالبات نہیں مانے۔ کیونکہ ماضی کی حکومت نے اسلامی پروگرام نشر کرنے پر پابندی لگانے کی کوشش کی تھی۔ اب طالبان بھی وہی کر رہے ہیں۔ جمعیت اسلامی افغانستان کی قدیم جماعت ہے۔ تاہم طالبان سیاسی اسلام سے خائف ہیں۔ ان اقدامات سے طالبان اور امریکہ میں کیا فرق رہ گیا۔ دوسری جانب صحافتی تنظیموں نے بھی حکومتی اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان نے پہلے چار ہزار کے قریب صحافیوں کو ملک بدر کیا۔ اب اسلامی و مذہبی چینلز بند کر کے یہ بھی ثابت کر دیا کہ طالبان کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ یہ ایک شدت پسند گروپ ہے جو اپنے ناجائز اقدامات کو شریعت کے نام پر نافذ کرنا چاہتے ہیں۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ طالبان نے حزب اسلامی کے دفاتر دارالامان بند کر کے شہر کے مضافات میں منتقل کرنے کی ہدایت کی تھی۔ جبکہ حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین سے سرکاری گھر بھی واپس لے لیا تھا۔ تاہم اب مضافاتی علاقے میں حزب اسلامی کے اجلاس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کیونکہ دارالامان تک عام لوگوں کی رسائی میں مشکلات تھیں۔ اب عام لوگ بھی ان مجالس میں شرکت کر رہے ہیں۔ جس پر طالبان کو تشویش ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔